تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     17-06-2017

نوشتہ ٔدیوار تو پڑھ لیں!

گزشتہ روز جون کی پندرہ تاریخ تھی۔ وزیراعظم نوا زشریف جو اپنے آپ کو ''قائد ثانی‘‘ کہلواتے رہے ہیں‘ پندرہ جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ تین گھنٹے تفتیش کے دوران ان کے سامنے مختلف سوالات رکھے گئے مثلاً یہ کہ گلف سٹیل ملز کا قیام کیسے عمل میں آیا؟ گلف سٹیل کا پیسہ جدہ‘ قطر اور برطانیہ کیسے پہنچا؟ ہل میٹل کمپنی کیسے وجود میں آئی؟ حسن‘حسین نواز کے پاس فلیٹ خریدنے کے وسائل کہاں سے آئے ؟ نیلسن اور نیسکول کا حقیقی مالک کون ہے ؟ حسن نواز کے پاس فلیگ شپ کمپنی اور لندن میں کاروبار کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟ حسین نواز نے والد کو کروڑوں روپے تحفے میں کیسے دیئے‘ قوم سے خطاب اور اسمبلی میں ان کی تقریر کے بیانات میں تضاد کی وجہ کیا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ ''قائد ثانی‘‘تین گھنٹے تک تنہا ان سوالات کا جواب دیتے رہے اور باہر آ کر میڈیا کے سامنے ایک لکھی لکھائی تقریر پڑھ ڈالی۔
اگر کسی کو یاد ہو تو ٹھیک 69برس قبل پندرہ جون1948ء کے ہی دن ہمارے اصل قائد‘ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی ایک خطاب‘ ایک تقریر کی تھی۔کوئٹہ میونسپلٹی کے سامنے قائد اعظم نے فرمایا ''بلا شبہ نمائندہ حکومت اور نمائندہ اداروں کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے لیکن اگر چند اشخاص انہیں محض ذاتی اقتدار اور املاک میں اضافے کا ذریعہ بنا لیں اور انہیں ایسی پست سطح تک گھسیٹ لائیں تو ایسی حکومت اور ادارے نہ صرف اپنی قدر و منزلت سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ بدنامی بھی کماتے ہیں۔ ہمیں مستقلاً اپنے اعمال کی کڑی نگرانی کرنی چاہیے۔ اس کو پرکھنے کی صحیح کسوٹی یہ نہیں ہے کہ اس سے ہمیں ‘ہمارے فرقے یا گروہ کو کتنا فائدہ پہنچ رہا ہے بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا عمل ریاست پاکستان کے مفاد میں ہے یا نہیں‘‘۔
میں نے جب سے یہ خطاب پڑھا ہے مجھے لگتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ خطاب وزیراعظم نواز شریف جیسے سیاستدانوں کے لئے ہی کیا تھا جو اقتدار کو ذاتی اثاثے بڑھانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور آج اربوں روپے کی کرپشن کے حوالے سے بیسویں گریڈ کے افسران کے سامنے پیشیاں بھگتنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وزیراعظم کے طبلچیوںکے نزدیک وزیراعظم نے تاریخ رقم کر دی ہے اور ایسی مثال قائم کی ہے جو وقت کا تقاضا اور قابل تقلید ہے۔ یہ قابل تقلید اس لئے نہیں کیونکہ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دووزیراعظم بھی عدالتوں کے سامنے پیشیاں اور سزائیں بھگت چکے ہیں۔اس کے علاوہ ایک عام مزدور سے لے کر اوسط طبقے کے شہری تک سبھی روزانہ عدالتوں میں پیش بھی ہوتے ہیں اور قانون کا احترام بھی کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وزیراعظم کے پاس کوئی اور راستہ اور چارہ نہ تھا وگرنہ قوم کو یہ ''مبارک‘‘ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ ایک طرف ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ ن لیگ والے عدالتوں کا بہت احترام کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلام آباد سے لے کر پنجاب تک ہر روز لیگی ترجمان جے آئی ٹی پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہیں۔ اگر انہیں عدالتوں کا ذرا سا بھی احترام ہے تو پھر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جے آئی ٹی براہ راست سپریم کورٹ کے تحت کام کر رہی ہے اور سپریم کورٹ کو ہی جوابدہ ہے تو اگر سپریم کورٹ کسی کو اپنا نمائندہ مقرر کرتی ہے اور آپ اسی نمائندے کی ایسی تیسی پھیرتے رہیں اور ساتھ یہ بھی کہیں کہ ہم عدالتوں کا بڑا احترام کرتے ہیں تو اس سے بھونڈا مذاق کوئی ہو نہیں سکتا۔ جہاں تک وزیراعظم کی پیشی کو تاریخی اقدام کہا جا رہا ہے تو یہ سو فیصد درست ہے۔ ن لیگ یا شریف خاندان کی تاریخ میں واقعی کبھی ایسی تاریخ رقم نہیں ہوئی۔ماضی میں ہر طرح کے فیصلے ان کے حق میں اور ان کے در پر کئے گئے اور انہیں عدالت میں قدم رنجا فرمانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کو دن دہاڑے پولیس نے قتل کر دیا لیکن پولیس کو گولیاں چلانے کا حکم دینے والے کسی عدالت میں پیش نہ ہوئے۔انہوں نے باقر نجی کمیشن کی رپورٹ کو دبا دیا اور اُلٹا مقتولین اور زخمیوں کے لواحقین کو ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا جو آج تین برس بعد بھی ناکردہ گناہوں کی پیشیاں بھگت رہے ہیں جبکہ نہتی خواتین کے منہ پر سیدھی گولیاں چلانے والے افسران آزاد ہو چکے ہیں۔ن لیگی قیادت اور ترجمان درست فرماتے ہیں انہوں نے ایسا کام کیا ہے جو ان کی کبھی روایت ہی نہیں رہی۔ لیکن وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ اگر یہ پیشی تاریخی اقدام تھا تو عوام کے ٹیکسوں اور بلیک منی کا پیسہ بیرون ملک منتقل کرنا اور اس سے سٹیل ملز اور لندن فلیٹس خریدنا بھی کم تاریخی جرم نہ تھا۔ یہ حکومتی عمال کی ایسی واردات تھی جس کے بارے میں قائد اعظم نے 69برس قبل ہی نشاندہی کر دی تھی۔قائد کا یہ کہنا کہ اگر چند اشخاص اقتدار کو محض ذاتی املاک میں اضافے کا ذریعہ بنا لیں تو ایسی حکومت اور ادارے نہ صرف اپنی قدر و منزلت سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ بدنامی بھی کماتے ہیں‘ سولہ آنے سچ ہے۔جناح ؒ نے کون سی بات غلط کی۔ اس کے جواب میں آپ یہ کہیں کہ عمران خان نے بھی چوری کی‘ اس نے بھی فلیٹ خریدے‘ اس نے بھی منی لانڈرنگ کی‘ تو بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے یہ نہیں کہا کہ مجھے چھوڑ دو اور شریف خاندان کو پکڑ لو۔ دوسری یہ کہ عمران خان کبھی بھی اقتدار میں نہیں رہا۔ اس پر بنی گالہ محل کی ملکیت‘ آف شور کمپنی یا لندن فلیٹ کی خریداری کے جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں اس وقت بھی وہ اقتدار میں نہ تھا 
بلکہ کھلاڑی اور قومی سٹار کی حیثیت میں کام کر رہا تھا۔ کھیل سے متعلقہ لوگوں کو علم ہے کہ کرکٹ جیسے مقبول کھیلوں میں عالمی سطح پر کس قدر مالی فوائد ملتے ہیں۔ پوری دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسے آئی کونز کے پیچھے ہوتی ہیںجو اپنے اپنے شعبے میں نامور ہوں۔عمران خان کو قدرت نے جاذب نظراور پرکشش شخصیت سے نوازا ہے ۔ایسے کھلاڑیوں کو برانڈ ایمبیسیڈر بننے یا کسی یونیورسٹی میں صرف اپنا نام دینے کے لاکھوں ڈالر ملتے ہیں۔عمران خان کوئی معمولی شخص نہیں۔ میں نے آج تک ان کو ایک بھی تقریر کاغذ سے دیکھ کر پڑھتے نہیں دیکھا۔ جو دل میں ہو‘ وہی کہتے ہیں۔ویسے بھی ہر کوئی ایک جیسی مقبولیت کا حامل نہیں ہوتا۔ نواز شریف‘ آصف زرداری اور عمران خان اگر ایک سادہ کاغذ پر دستخط کریں تو عمران خان کا کاغذ لاکھوں میں خریدنے والے ہزاروںلوگ تیار ہو جائیں گے لیکن زرداری اور نواز شریف کے لکھے کو کوئی گھاس تک نہ ڈالے گا۔ عمران خان تو بڑے سٹار تھے‘ آج بھی اگر کوئی سابق عام کھلاڑی برطانیہ کی کسی کائونٹی کرکٹ ٹیم سے منسلک ہو جاتا ہے تو اسے ماہانہ ہزاروں پائونڈ ملتے ہیں۔ عمران خان سے مالی وسائل کا سوال کرنے والے چونکہ خود ہمیشہ کرپشن کی بہتی گنگا میں بہتے آئے ہیں اس لئے انہیں دوسرے بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔
ویسے وزیراعظم نواز شریف نے جو بویا تھا آج وہی کاٹ رہے ہیں۔نہ ان کی جے آئی ٹی میں پیشی تاریخی تھی نہ ہی یہ قوم پر احسان تھا۔ وہ چاروناچاراور شدید مجبوری کی حالت میں وہاں گئے۔ وگرنہ بیسویں گریڈ کے افسران کی کیا مجال ۔ عام حالات ہوتے تو یہ سارے افسران سر جھا کر وزیراعظم ہائوس میں کھڑے جھڑکیاں کھا رہے ہوتے لیکن یہ انیس سو نوے کا پاکستان نہیں۔ آج الیکٹرانک میڈیا کے گھیرے سے اگر کوئی بچ بھی جائے تو سوشل میڈیا کی گرفت سے نہیںبچ پاتا۔ وزیراعظم کو کوئی یاد دلائے کہ یوسف رضا گیلانی کو جب انیس جون 2012ء کو عدالت نے نا اہل کیا تھا تو انہی نواز شریف صاحب نے فرمایا تھا کہ '' گیلانی کی نا اہلی اصلی احتساب ہے، وزیراعظم پہلے ہی عہدہ چھوڑ دیتے تو شاید ان کی ساکھ باقی رہ جاتی اور لوگ کہتے انہوں نے چار سال میں کچھ نہیں کیا تو سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام تو کیا ہے‘‘۔ اور ہمارے مہربان پروفیسر احسن اقبال تو اس سے بھی آگے بڑھ کر بولے تھے کہ ''ن لیگ قانون سے کھیل کھیلنے والوں کا راستہ روکے گی۔ پیپلزپارٹی والے ایک یا دو لوگوں کی ضد کی خاطر جمہوریت کو دائو پر نہ لگائیں‘‘۔ آج کوئی نوا زشریف اور احسن اقبال سے پوچھے کہ اگر اس وقت پیپلزپارٹی کے وزیراعظم گیلانی کی خاطر جمہوریت کو دائو پر نہ لگانے کے مشورے دئیے جا رہے تھے تو آج تنہا نواز شریف صاحب کی وجہ سے جمہوریت دائو پر لگنے کی دھمکیاں کون دے رہا ہے۔اگر اس وقت کے وزیراعظم کو ایک خط نہ لکھنے کی پاداش پر نا اہل ہونے پر آپ نے خوشیاں منائیںاور قانون سے کھیلنے والوں کو سختی سے نمٹنے کا عندیہ دیا تو آج اگر آپ پر جب براہ راست اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اثاثے بنانے کا الزام ہے تو آپ اور آپ کے ترجمان جے آئی ٹی کو براہ راست اور سپریم کورٹ کو اشاریوں کنایوں میں دھمکیاں کیوں دے رہے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ اگر آپ اس وقت وزیراعظم گیلانی سے استعفیٰ مانگ رہے تھے تو آج عمران خان کے مطالبے پر جے آئی ٹی کی تحقیقات تک خود کیوں مستعفی کیوں نہیں ہو جاتے؟ 
کتنے افسوس کی بات ہے 69برس قبل پندرہ جون کو ایک قائد ملک لوٹنے والے حکمران لٹیروں سے خبردار کر رہا ہے اور 69برس بعد اسی ملک کا ایک ''قائد‘‘ بیسویں گریڈ کے افسران کے سامنے کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور اربوں کے غیر قانونی اثاثے بنانے پرکٹہرے میں کھڑا ہے اور نوشتہ دیوار بھی نہیں پڑھ رہا!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved