تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-06-2017

My son you can,t handle the truth

اپنے خلاف ٹویٹر پر جاری گالی گلوچ کی تازہ مہم دیکھ کر دس سال بعد پہلی دفعہ سوچا 2007ء میں میرا لندن چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ درست تھا؟ انگریزی اخبار کے مہربان مالک کی پیشکش ٹھکرانا عقلمندی تھی کہ لندن سے رپورٹنگ جاری رکھو؟ وہ بحث کرتے رہے اور میں انکار کرتارہا کہ نہیں میں نے پاکستان لوٹ جانا ہے۔ بولے: تین ہزار پونڈز تنخواہ کر دوں گا، پانچ ہزار پونڈز فائنل۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو بولے: پاکستان میں وہی تنخواہ ملے گی پچھتر ہزار روپے جو لندن ٹرانسفر سے پہلے مل رہی تھی۔ اسلام آباد لوٹا تو پچھتر ہزار کی بجائے ڈیرھ لاکھ روپے کر دی گئی جو ایک ہزار پونڈ بنتی تھی۔ چار ہزار پونڈز کا خسارہ برداشت کیا‘ لیکن کبھی پچھتاوا نہ ہوا۔ 
میری بیوی ناراض ہوئی۔ کہا: بچوں کا مستقبل بن جائے گا۔ میں نے کہا: میرا مستقبل پاکستان میں ہے لندن میں نہیں‘ جہاں اٹھارہ کروڑ لوگوں کا مستقبل ہے وہیں ہمارے بچوں کا بھی ہے۔ شعیب، ندیم سعید، صفدر بھائی، اظہر جاوید‘ سب روکتے رہ گئے۔ ان دنوں اسلام آباد میں لال مسجد کے آپریشن کے بعد خود کش حملے شروع ہو چکے تھے۔ لندن کے پُرسکون ماحول کے بعد پاکستان لوٹا تو ہر طرف خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ بڑا بیٹا رات کو چیخیں مار کر اٹھ بیٹھتا۔ میں باہر جاتا تو رونے لگتا: آپ کو کچھ ہو جائے گا۔ ایک دن دوست ہارون الرشید ہمارے دور کے صوفی پروفیسر رفیق اختر کے پاس اسے لے گئے۔ پروفیسر صاحب نے میرے بیٹے کی خاصی دیر تک کونسلنگ کی، خاصی دیر پیار کیا اور دعا دی۔ اس رات وہ چھ ماہ میں پہلی دفعہ سکون سے سویا۔
ملتان سے اسلام آباد آنے کی کہانی اپنی کتاب 'ایک سیاست کئی کہانیاں‘ میں لکھ چکا ہوں۔ میری ہونے والی بیوی کی سرکاری نوکری بیس سال قبل 1998 کے اوائل میں اسلام آباد میں لگ چکی تھی اور میری شادی سال کے آخر پر ہوئی۔ آٹھ سالہ نوکری کے تجربے کی بنیاد پر 13 سال قبل 2005 میں جنرل مشرف دور میں اسے سینیٹ میں جاب مل گئی۔ ایک دن جنرل مشرف سے ایک وزیر نے میری خبروں کی شکایت کی اور بتایا اس کی بیوی سینیٹ میں جاب کرتی ہے۔ جنرل مشرف نے چیئرمین سینیٹ کو کہا کہ اس کی بیوی کو برطرف کر دیں۔ محمد میاں سومرو خاندانی انسان تھے۔ بولے: جنرل صاحب! یہ آپ کے شایان شان ہو گا کہ ایک خاتون کو نوکری سے برطرف کر دیں کیونکہ وہ ایک رپورٹر کی بیوی ہے‘ جو ہماری حکومت کے خلاف لکھتا ہے؟ جنرل مشرف خاموش ہوگئے۔ اسے میری وجہ سے فائدہ کیا ہوتا‘ ہر دفعہ سزا ضرور ملتی۔ پیپلز پارٹی دور میں فہمیدہ مرزا کے خلاف چوراسی کروڑ روپے قرضہ معاف کرانے کا سکینڈل فائل کیا تو انہوں نے تہمت لگائی کہ رئوف اپنی بیٹی کی نوکری کرانے آیا تھا، نہیں دی اس لیے خبریں لگوا رہا ہے۔ جواب دیا: بیٹی کی خواہش ضرور ہے لیکن بیٹی نہیں ہے۔ جواب ملا: نہیں نہیں اپنی بہن کی نوکری کرانے آیا تھا۔ میں بولا: میری پانچ بہنیں ہیں‘ وہ سب گائوں میں نانی دادی بن چکی ہیں‘ کس کو اس عمر میں قومی اسمبلی میں نوکری کا شوق چرایا ہو گا۔ اور کچھ سمجھ نہ آیا تو پیپلز پارٹی کے اس وقت کے چیئرمین سینیٹ کو کہا: رئوف کی بیوی کو کچھ سزا دو۔ اس نے جو چھوٹی چھوٹی حرکتیں کیں وہ یہاں بیان کرنے کا فائدہ نہیں۔
وزیر اعظم گیلانی کو پتہ چلا تو ان کے پریس سیکرٹری عمران گردیزی گھر آئے اور کہا گیلانی صاحب نے کہا ہے آپ کی مسز کو پیمرا میں ڈیپوٹیشن پر دو لاکھ روپے تنخواہ‘ دیگر سہولتوں سمیت بھیج دیتے ہیں۔ میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کیا اور کہا: اس کی سینیٹ میں بیس ہزار روپے تنخواہ مناسب ہے۔ اس سے پہلے جب سومرو صاحب نگران وزیر اعظم بنے تو انہوں نے سینیٹ ملازمین کو ترجیحی بنیادوں پر گھر دینے کا حکم دیا کیونکہ سینیٹ اجلاس دیر تک جاری رہنے سے کرائے کے گھروں میں رہنے و الے ملازمین بہت تنگ تھے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت آ گئی تھی۔ مجھے انصار عباسی کا فون آیا کہ انہیں مشتاق منہاس کا فون آیا تھا اور اس نے بتایا کہ رئوف کی بیوی کو بائیس گریڈ کا گھر الاٹ ہوا ہے۔ انصار کا کہنا تھا: اگر یہ ہوا ہے تو اچھا نہیں ہوا‘ میں نے کہا: میرے نوٹس میں نہیں‘ میں نے بیوی سے پوچھا۔ بولی: اس کے نوٹس میں بھی نہیں۔ میں نے سیکرٹری ہائوسنگ سمیع خلجی صاحب کو فون کیا۔ بولے: جی قانون کے تحت بہت سارے ملازمین کی ترجیح لگ کر آئی تھی‘ اور گھر نہیں تھا‘ ہم نے یہ الاٹ کر دیا۔ میں نے کہا: کیا ظلم کرتے ہیں‘ سترہویں گریڈ والے کو بائیسویں گریڈ کا گھر‘ اسے فوراً کینسل کریں۔ ان کے آرڈرز نیچے جاتے جاتے شاید دیر ہوگئی۔ اگلے دن سٹیٹ آفس کے لوگ وہ گھر خالی کرانے پہنچ گئے۔ محکمہ موسمیات کے ڈی جی کا فون آیا کہ کچھ لوگ آپ کا نام لے کر ساتھ والا گھر خالی کرا رہے ہیں۔ میں نے کہا: بات کرائیں‘ اور ان سے کہا: یہ گھر کینسل ہو چکا‘ آپ لوٹ جائیں۔ ایک نیک دل افسر فاروق گیلانی ریٹائر ہوئے تھے۔ دوسرا ان کا گھر الاٹ ہوا۔ ایک دن وزارتِ پٹرولیم کے ایک باریش ڈی جی دفتر آ گئے۔ بولے: وہ گھر تو مجھے الاٹ ہوا تھا‘ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے‘ میری بیٹیاں جوان ہیں‘ سوچا تھا بڑا گھر مل جائے گا‘ ان کی شادیاں ہو جائیں گی۔ میں گھر گیا۔ بیوی سے چابی لی اور کہا: یہ لیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ چابی واپس کرکے بولے: نہیں آپ رکھ لیں۔ سمجھیں مجھے مل گیا۔ آپ مجھے اور الاٹ کرا دیں۔ میں نے کہا: میری اتنی اوقات نہیں۔ آپ کا گھر آپ کو مبارک۔ بیوی لڑ پڑی کہ میں بھی سرکاری ملازم ہوں‘ میرے قانونی رائٹس نہیں ہیں؟ میں بولا: اگر کل کسی وجہ سے اس کی بچیوں کی شادی نہ ہوئی تو کیا ہم ساری عمر ان بچیوں کی بددعائوں کے ساتھ زندہ رہ سکیں گے؟ وہ چپ ہو گئی۔ 
تیسرا گھر الاٹ کرانے کے لیے تین سال اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس لڑا اور عدالت کے حکم پر ہی وہ الاٹ ہوا۔ جو ہائوس رینٹ بیگم کو تنخواہ میں مل رہا تھا وہ بند ہو گیا اور ہزاروں روپے کرایہ اس کی تنخواہ سے کٹنے لگا۔ بیوی بیمار ہوئی تو اسے منع کیا کہ ایک روپیہ بھی بل کا سینیٹ سے کلیم نہ کرنا‘ ورنہ سب کہیں گے کہ سرکاری خرچ پر علاج کرایا۔ جیب سے سارا علاج کرایا۔ 
چھوٹا بھائی اوصاف بہاولپور میں کام کرتا رہا۔ آج بھی حامد میر کا دیا ہوا تعریفی سرٹیفکیٹ اس کے پاس ہے۔ سرائیکی چینل روہی نکلا تو نوکری مل گئی۔ چھ سال وہاں نوکری کی۔ وہاں سے بیروزگار ہو گیا۔ میں دنیا اخبار اسلام آباد کا چند ماہ کے لیے ایڈیٹر لگا تو ایک ایک لاکھ روپے تک رپورٹر اخبار کے لئے رکھے۔ چھوٹا بھائی بیس ہزار روپے پر اے پی پی میں کام کرتا رہا۔ وہ ایک دن بھی میرے پاس نہ آیا کہ مجھے ایک لاکھ پر رکھ لو۔
2011 میں‘ چھ سال قبل کچھ دوستوں نے میرے خلاف ایک ٹی وی پروگرام کیا اور الزامات لگائے کہ رئوف نے بیوی کی نوکری کرائی، گھر الاٹ کرایا اور بھائی کو نوکری دلوائی‘ شو میں گیا‘ سب الزامات کے جوابات دیے۔ میں نے کہا: پاکستان میں صحافت کو ذاتی اور کاروباری فوائد کے لیے استعمال کرنے کا کام آپ کے گروپ نے شروع کیا جب آپ کے ایڈیٹر جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر بن گئے۔ ایک اور مالک گورنر سندھ لگ گئے، دوسرا مالک جنرل ضیا کا وزیر داخلہ لگ گیا، تیسرے نے زرداری سے اپنے بھائی کو نیویارک میں سفیر لگوا لیا۔ میری اس گفتگو کے بعد شو فوراً بند کر دیا گیا، اینکر کو برطرف کردیا گیا اور ڈائریکٹر نیوز کو بھی بعد میں ہٹا دیا گیا۔ آج کل وہی میرے پرانے دوست اس دور کا انتقام لینے کے لیے سوشل میڈیا پر پرانے الزامات نئے کرکے دہرا رہے ہیں۔ ایک دفعہ پھر مجھے اپنے ٹی وی پروگرام میں بلا لیں۔ جوابات دینے کو تیار ہوں۔ پہلے کبھی عدالت نہیں گیا‘ لیکن اب مجھے اپنے دوست ڈاکٹر بابر اعوان کی مدد کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ اس بار فیصلہ عدالت اور ایف آئی اے سے کرا لیتے ہیں کہ میں کتنا بڑا کرپٹ ہوں اور اس ملک اور قوم کو کتنا لوٹا ہے‘ جس نے صرف پچھلے سال ہی اپنی حلال کی آمدن پر 55 لاکھ روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا‘ جو نواز شریف اور اسحاق ڈار سے زیادہ ہے۔ لگتا ہے میرے رشتہ داروں کو سرکاری نوکری کا حق نہیں۔ وہ سب ہندوستانی باشندے ہیں شاید ۔ 
میرے دوست مجھے کبھی شو میں بلانے کا رسک نہیں لیں گے کیونکہ پہلے اینکر کی طرح یہ بھی برطرف ہوں گے اور سوشل میڈیا پر ہی شیر بنتے پھریں گے۔ شاید انہیں پتہ ہے اس بار میں بھٹو کی کتاب 'اگر مجھے قتل کیا گیا‘ کے وہ تین صفحات ساتھ لائوں گا جوجیل کی کوٹھری سے لکھے کہ ان سے کیسے ان مالکان نے کاروباری فائدے اٹھائے اور بعد میں جنرل ضیا کے وزیر داخلہ لگ کر بھٹو کو پھانسی پر بھی چڑھا دیا۔ 
اپنے ان دوستوں کی بزدلی سے مجھے ٹام کروز کی فلم Few good men کا ایک جملہ یاد آرہا ہے:
My son, you can,t handle the truth

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved