...''رئیس صاحب صرف شاعر ادیب اور صحافی ہی نہیں ہیں بلکہ دونوں مُلکوں کے درمیان بہتر تعلقات اوردوستی کے ایک مئوثر نقیب ہیں۔ بڑی باغ وبہار شخصیت ہیں نثر اور شاعری دونوں میںاپنی طنز نگاری اور بے باک صحافت کے لیے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔1948 ء سے اب تک ان کا ایک قطعہ روزانہ جنگ میں شائع ہو رہا ہے جو وہاں کی عصری روح کا آئینہ دار اور وہاں کے حالات کا غماز ہوتا ہے اور بہت پسند کیا جاتاہے۔ رئیس صاحب ایک دل نواز شخصیت ، ایک فرد ایک انجمن ہیں ۔‘‘
روزنامہ قومی آواز نئی دہلی ۔11 اکتوبر 1982ء
اخبار کے اسی صفحے پر مسلمانوں کے سلسلے کی ایک خبر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ خبر کی تفصیلات نقل کر لینی چاہئیں:
نئی دہلی ۔10 اکتوبر۔ دلی کے ممتاز مسلمانوں کی گزشتہ دن جامع مسجد میں ہوئی میٹنگ میں میرٹھ کے واقعات پر گہرے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ اگر میرٹھ سے صوبائی مسلح پولیس (پی اے سی) کو نہ ہٹایا گیا اور فساد کی سپریم کورٹ کے جج سے جانچ نہ کرائی تو مسلمانوں کی طرف سے ملک گیر اور فیصلہ کن تحریک چلائی جائے گی جس میں دھرنے مظاہر ے ہڑتال اور گرفتاری دینا شامل ہیں۔ جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری کی طرف سے بلائی گئی اس میٹنگ میں پاس ایک قرار داد میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ نہ صرف دلی بلکہ پورے ملک کے مسلمان اور تمام امن پسند شہری ان مطالبات کی حمایت کریں گے۔ اس میٹنگ میں مختلف مسلم جماعتوں کے نمائندے ممبران پارلیمنٹ،صحافی ،طالب علم رہنما اور سماجی کارکن شامل ہوئے جنہوں نے میٹنگ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ ان میں مسلم یوتھ کنونشن کے جنرل سیکرٹری جاوید حبیب،مسٹر محمد یونس سلیم، سید امین الحسن رضوی، سید عرفان علی آنریری سیکرٹری مسلم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین علی گڑھ ، مسٹر محمود حسن خاں ایم پی اور دیگر ان کے نام قابل ذکر ہیں۔ آخر میں فساد میں مرحومین کے لیے دعائے مغفرت اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی گئی۔ قرارداد میں نہ صرف پی اے سی کو ہٹانے کی ہی مانگ کی گئی ہے بلکہ اس فورس کو ختم کر کے وعدہ کے مطابق امن فورس قائم کرنے کی مانگ کی گئی ہے ۔ جس میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو بھرپور نمائندگی دینے کی زوردار مانگ کی گئی ہے دیگر مانگوں میں میرٹھ کے ضلع حکام کو گرفتار کرنے اور ان پر مقدمات چلانے ،بے قصور لوگوں کو رہا کرنے، گرفتار شدہ مسلمانوں جن کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی انہیں رہا کرنے، مرحومین کے ورثاء کو ایک لاکھ روپے فی کس اور مجروحین کو پچیس ہزار روپے بطور معاوضہ دینے، فرقہ پرستی پھیلانے والی ہندو تنظیمیں وشوا ہندو پریشد اور راشٹر یہ سنگھ کے خلاف کارروائی کرنے کی مانگ کی ہے۔
قرارد اد کے مطابق مسلم ورزاء سے غیرت اور ضمیر کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میرٹھ کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مستعفی ہونے کی امید کی گئی ہے بصورت دیگر مسلمانوں سے ان کا بائیکاٹ کرنے اور ان کے خلاف مظاہرے کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔‘‘
(11 اکتوبر 1982 ء روز نامہ قومی آواز دہلی)
اخبار کے دفتر سے نکل کر ہم پھر چندن گیٹ ہائوس میں آ گئے۔ پریس کلب میں ایک صاحب ملے تھے ساقی نیرنگ۔ اختر فیروز بار بار ان کے گلے میں باہیں ڈال کر مسلسل یہی کہتے رہے ارے بڑا پیارا آدمی ہے ساقی نارنگ ۔ کل کی شام تو آپ کے ساتھ گزے گی ، رئیس صاحب! بڑا پیارا آدمی ہے ساقی نارنگ۔ کل تو ساقی نارنگ کے ساتھ گزرے گی ہماری شام، بہت پیارے آدمی ہو ساقی نارنگ۔ ساقی نارنگ نے یہ حالت دیکھی تو حامی بھری ، شام ہو گئی '' اندھیرے پھیل گئے ۔ چائے سے جی بہلاتے رہے۔ باتوں باتوں میں بڑی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے رئیس صاحب نے فرمایا، اب شاہ صاحب کو اپنے دوستوں کو تلاش کرنا چاہیے۔ محمود صاحب نے گفتگو کا رخ بدلنے کے لیے کوئی اور لقمہ دیا لیکن اختر فیروز نے انہیں ٹوکا نہیں، پہلے وہ سنو ،رئیس صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ رئیس صاحب کی ایک الجھن یہ بھی تھی کہیں، انیس کے اخراجات کا بوجھ ان کی جیب پر نہ پڑے۔ حالانکہ میں نے بتا بھی دیا تھا ، جانتے بھی تھے کہ میری جیب اب خالی نہیں ہے، خوب بھر چکی ہے۔ فرض کیجئے کچھ لین دین میرا اوررئیس صاحب کا ہو بھی جاتا تو کیا قیامت ٹوٹتی مجھ سے تکلف تو ہے نہیں، پاکستان اترتے ہی کہہ سکتے تھے مال نکالو۔ وہاں تو سفر میں تھے اب گھر میں ہیں ، میرے مقروض نہ رہو، حساب بیباق کرو...اور اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل:
اب تک جو سلامت ہے گریبان ہمارا
اندر کہیں رہ جاتا ہے طوفان ہمارا
لوٹیں گے سفر سے تو کریں گے اسے آباد
فی الحال تو یہ شہر ہے سُنسان ہمارا
اُس بت سے گھڑی بھر کی ملاقات کے دوران
کیا کیا متزلزل ہوا ایمان ہمارا
جب تک وہ اشارے سے اُٹھاتا نہیں آ کر
یہ جسم رہے گا یونہی بے جان ہمارا
ہم آپ بھی ممکن ہے اسی میں سے نکل آئیں
وکھلائیں ذرا کھول کے سامان ہمارا
تُم فائدے کا سوچتے ہو جب بھی ہمارے
ہو جاتا ہے کچھ اور بھی نقصان ہمارا
جو لانیاں دکھلانے کو تیار کھڑے ہیں
حالانکہ نہ گھوڑا ہے نہ میدان ہمارا
کہتے ہیں کہ ہیں آپ حفاظت میں ہماری
ایسا ہے تو اللہ نگہبان ہمارا
ہم اس میں ، ظفر، اور بھی ترمیم کریں گے
سمجھو نہ اِسے آخری اعلان ہمارا
آج کا مقطع
میں کہ اس عہد میں منکر ہوں‘ ظفر‘ اپنا بھی
کس لیے محفلِ غالب میں بلایا ہے مجھے