تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     19-06-2017

وینزویلا: ردِ انقلاب کا وار!

وینزویلا میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری انتشار شدت اختیارکرتا جارہا ہے۔ تقریباً سو افراد پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ہلاک ہوچکے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔آنجہانی ہوگو شاویز کی سوشلسٹ پارٹی (PSUV) سے تعلق رکھنے والے صدر نکولس مادورو کے خلاف دائیں بازو کی اپوزیشن کے مظاہروں سمیت بڑے پیمانے پر وینزویلا کے معاشی اور سیاسی بحران کا چرچا عالمی میڈیا میں کیا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ دسمبر 2015ء میں ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دائیں بازو کی اپوزیشن نے اکثریت حاصل کر لی تھی تاہم ملک میں صدارتی نظام ہونے کی وجہ سے صدر کا تعلق فی الوقت سوشلسٹ پارٹی سے ہی ہے۔ عالمی کارپوریٹ میڈیا نے وینزویلا میں ہونے والے گزشتہ کئی دنوں کے واقعات کی رپورٹنگ میں بھی سامراج کے مفادات کے مطابق کھلی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ شاویز کی موت کے بعد وینزویلا میں پیدا ہونے والی صورتحال میں صدر مادورو کی جانب سے اختیار کی گئی ادھوری معاشی و سیاسی پالیسیوں نے آج وینزویلا کو جس بحران میں دھکیلا ہے اس کا موردِ االزام سوشلزم کو ٹھہرانے کی روایتی واردات کی جا رہی ہے۔
حالیہ مظاہروں کا آغاز سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے 29 مارچ کے فیصلے کے بعد ہوا جس کے مطابق حزب اختلاف کی اکثریت رکھنے والی قومی اسمبلی توہین عدالت کی مرتکب ہوگئی ، اس فیصلے کے بعد اسمبلی کے تمام تر اختیارات کو یا تو سپریم کورٹ (TSJ) اپنے قبضے میں لے گی یا کسی ایسے ادارے کے حوالے کئے جائیں گے جس کا تعین خود سپریم کورٹ کرے گی۔ فیصلے کے فوراً بعد قومی اسمبلی کے صدر جولیو بورجز نے اِسے اپنے خلاف ایک ''کُو‘‘ قرار دے دیا ۔ یکم مئی کو تقریر کرتے ہوئے صدر مادورو کی جانب سے قومی آئین ساز اسمبلی کے انعقاد کا اعلان کیا گیا جسے اپوزیشن کی جانب سے فوری طور پر رد کردیا گیا۔
دائیں بازو کے یہ مظاہرین خود بھی مسلح ہیں اور ہر طرح کی تخریب کاری کر کے حالات کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق حزب اختلاف صدر مادورو کے استعفے ، انتیس مارچ کا فیصلہ دینے والے سپریم کورٹ کے ججوں کی برطرفی، اسی سال جنرل الیکشن کروانے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کررہی ہے ۔ درحقیقت ان مظاہروں میں اپوزیشن کو بڑے پیمانے پر امریکی سامراج کی مدد بھی حاصل ہے جبکہ میڈیا کے ذریعے مسلسل پر تشدد واقعات کو حکومت کے خلاف بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کے ٹیلی سرٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 2009ء سے لیکر اب تک امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے تقریبا 49 ملین ڈالر وینزویلا میں موجود حزب اختلاف پر جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے صدر مادورو کے خلاف خرچ کئے ہیں۔ اسی طرح ایڈورڈ سنوڈن کے انکشاف کے مطابق وینزویلا امریکی سامراج کے چھ اہم مخالف ممالک میں سے ایک ہے۔ ہوگو شاویز کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی امریکی سامراج اور اس کی بغل بچہ اپوزیشن نے بائیں بازو کی اس حکومت کو سبوتاژ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔لیکن جہاں ایک طرف مادورو کی مصالحتی اور ادھوری پالیسیوں کی بدولت یہ بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے وہاں دوسری طرف اپوزیشن کا پروگرام بولیوارین انقلاب کی تمام حاصلات کو کچلنا اور وینزویلا کے محنت کشوں پر سرمائے کی بدترین آمریت مسلط کرنا ہے۔ سامراج اور سرمایہ داروں کے اِن گماشتوں کے اقتدار میں آنے سے عوام بدترین جبر و استحصال کا شکار ہو جائیں گے اور بڑے پیمانے پر نجکاری اور عوامی سہولیات میں کٹوتیاں کی جائیں گی۔ 
وینزویلا کے انقلاب کا المیہ یہ ہے کہ شاویز کے دور اقتدار سے لے کر آج تک کئی جرات مندانہ اقدامات کے باوجود بھی منڈی کی معیشت کا خاتمہ نہیں کیا گیا تھا۔ بعض اندازوں کے مطابق دو تہائی معیشت نجی ملکیت میں ہے ۔ 2014ء کے بعد تیل کی قیمتوں میں ہوئی کمی کے باعث حکو مت کو اپنے کئی سماجی پروگراموں سے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دستبردار ہونا پڑا۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث عالمی مارکیٹ سے خوراک اور ادویات کی درآمدات میں کمی آئی اور سارا انحصار نجی کمپنیوں پر رہا جنہوں نے سرکاری ریٹ پر چیزوں کی فروخت سے انکار کر دیا۔ آخر میں حکومت نے نوٹ چھاپ کر چند پروگراموں کو جاری رکھا جس کی بدولت افراط زر بڑھتا گیا۔اکانومسٹ میں شائع ہوئے ایک مضمون کے مطابق گزشتہ سال سے وینزویلا کی معیشت دس فیصد سکڑ چکی ہے جو رواں سال کے اختتام پر 2013ء سے اب تک تقریبا 23 فیصد چھوٹی ہوجائے گئی ، جبکہ افراط زر1600 فیصد سے تجاوز کرجائے گا۔عوام کا معیار زندگی مسلسل گر رہا ہے ۔ مسلسل مہنگائی اور خوراک کی قلت کے باعث بھوک بڑھ رہی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں مادورو کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے جس کا واضح اظہار 2015ء کے پارلیمانی انتخابات تھے ۔ ان انتخابات میں شکست بنیادی طور پر مادورو اور سوشلسٹ پارٹی کی قیادت کے لئے ایک تنبیہ تھی، جسے بدقسمتی سے نظر انداز کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں بھی شکست سے خوفزدہ ہوکر اس نے الیکشن کی تاریخ کو آگے بڑھایا ہے ، صدر مادورو کا خیال ہے کہ شاید تیل کی عالمی قیمتوں میں رواں سال اضافہ ہوگا اور وہ اصلاحات کے ذریعے دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرسکے گا ، لیکن یہ حقائق سے انتہائی بھونڈا فرار ہے ۔ 2015ء کے انتخابات میں شکست کے بعد سے پارٹی قیادت نے سرمایہ داروں سے مصالحت کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اِس سے حالات بد تر ہی ہوئے ہیں۔ حالات یہی رہے تو آنے والے میونسپل اور ریجنل الیکشنوں میں سوشلسٹ پارٹی کی شکست یقینی ہو جائے گی ۔ دوسری جانب حزب اختلاف اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ وہ کسی طور بھی مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے گی اور مکمل طور پر انتخابات میں کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتی لیکن ان کا فوری مقصد صرف صدر مادورو سے اقتدار چھیننا ہے اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ امریکی سامراج نے ان اپوزیشن جماعتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ، عین ممکن ہے کہ صورتحال کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جائے ۔ 
سوشلسٹ پارٹی کی قیادت اپنے سوشلسٹ منشور اور شاویز کی میراث سے مسلسل دور ہوتی چلی گئی ہے۔ شاویز نے سابق امریکی صدر بش کو سرعام شیطان قرار دیا تھا، لیکن مادورو آج ''کامریڈ ٹرمپ ‘‘ سے امیدیں وابستہ کر رہا ہے کہ وہ وینزویلا کو خوراک کے بحران سے نکالے گا۔ پچھلے کچھ عرصے سے صدر مادورو نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا ہے کہ وہ کوئی کمیونسٹ ملک کا صدر نہیں اور نہ ہی نجی تجارت کا مخالف ہے ، بلکہ اس کا کہنا ہے کہ نوے فیصد کمپنیاں نجی ملکیت میں ہیں اور ان (مقامی اور بیرونی سرمایہ داروں) کے لئے اس نے مراعات کا اعلان بھی کیا ہے ۔ مادورو کے اس قسم کے اقدامات نے محنت کش عوام میں شدید غصہ اور مایوسی کی لہر پیدا کی ہے ۔ 
قیادت کے اِسی تذبذب کی وجہ سے ہی انقلاب اب تک مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ آج سوال مادورو کے اقتدار کا نہیں بلکہ بولیوارین انقلاب کا ہے۔ مصالحت اور تذبذب آج بد ترین جرم بن چکے ہیں ۔ سرمایہ دار سامراج کی پشت پناہی سے معیشت کو برباد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ پیداوار، رسد اور مالیات پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کئے بغیر حالیہ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا۔ فوری اقدامات کے طور پر سوشلسٹ پارٹی کی قیادت کو پارٹی اور طبقے کو متحرک کرنا ہوگا، ہوگو شاویز کی طرح اپوزیشن کے غنڈوں کے خلاف بولیوارین ملیشیا کو عمل میں لانا ہو گا، معیشت کے کلیدی حصوں کو نیشنلائز کرتے ہوئے سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے معاشی سبوتاژ کا ہتھیار چھیننا ہو گا اور اِن انقلابی اقدامات کے خلاف ممکنہ سامراجی یلغار کے خلاف دنیا بھر کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کرنا ہو گی۔ صرف اسی طریقے سے سامراج اور مقامی حکمران طبقات کی جکڑ کو توڑکر انقلاب وینزویلا کو مکمل کرتے ہوئے پوری دنیا کے محنت کشوں کے لئے مشعل راہ بنایا جاسکتا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved