ہنس کر اس نے بتایا کہ اسے ہی لوگ ''خواجہ منگتا ‘‘کہتے ہیں ۔ ''خواجہ ‘‘اس لیے کہ ایک لنگر اس نے کھول رکھا ہے ۔ ''منگتا ‘‘اس لیے کہ پیدائشی طور پر وہ بھکاری تھا۔ بھکاریوں کے اس خاندان میں پید اہوا ، جس کی سات نسلیں بھیک مانگتی آئی تھیں ۔ اس نے بتایا کہ جب میں پیدا ہوا تو خاندان والے حیران رہ گئے ۔ ایسا اجلا ،خوبصورت بچہ ، یہ مانگے گا کیسے ؟یہ ایسے ہی تھا ، جیسے طوائف کے ہاں بد صورت بچّی جنم لے ۔ یہ وہ صورتِ حال تھی، جس میں ، شروع ہی سے مجھے اپنی برادری میں طعن و طنز کا نشانہ بننا پڑا۔ یہ الگ بات کہ انہیں میری صلاحیت کا اندازہ نہیں تھا۔ جس روز پہلی بار میں نے آواز لگائی ، لوگ حیران رہ گئے ۔ دو میاں بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ گاڑی سے اترے تھے ، جب میں نے آواز لگائی۔ میں نے ان کے بیٹے کے بلند نصیبوں کا ایسا نقشہ ایسی خوبصورت آواز میں کھینچا کہ وہ اشک بار ہو گئے ۔پہلی بار لوگوں نے دیکھا کہ بھکاری اپنی جگہ پر کھڑا ہے اور بھیک دینے والے چل کر اسے دینے آر ہے ہیں ۔
میں آواز لگا تا رہا،ان کے جذبات سے کھیلتا رہا۔ جب میں نے یہ تفصیل بیان کی کہ کیسے وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا ، کیسے اپنے ماں باپ کو کندھے پر اٹھا کر حج کرائے گا ، کیسے ایک نیک اولاد کی صورت انہیں پل صراط پار کرائے گا تو وہ اور تیزی سے نوٹ نچھاور کرنے لگے ۔ روتے رہے ،نوٹ پھینکتے گئے ؛حتیٰ کہ ان کی جیب خالی ہوگئی ۔ ایک مجمع لگ چکا تھا ۔ کئی دوسرے لوگوں نے مجھے پیسے دینے کی کوشش کی لیکن میں کوئی عام
بھکاری نہیں تھا کہ ہر جیب پہ نظر رکھتا۔ میرا اصول یہ تھا کہ جس سے مانگو ، اس کی جیب خالی کرادو ۔ جب ایک سے مانگو، دوسرے سے نہ مانگو ۔ جب بڑے سے مانگو، چھوٹے سے نہ مانگو کہ یہ بڑے کی بے عزتی ہے ۔ جب ایک سے مانگ چکو تو پھراگلی صبح تک گھر جا کر آرام کرو۔پہلے ہی دن میری دھاک بیٹھ گئی ۔کئی دہائیوں سے مانگنے والے ایک لڑکے سے خوفزدہ ہو گئے ۔
گیارہ سال میں مانگتا رہا ۔ مانگنے کے علاوہ بھی ، میرا مزاج یہ تھا کہ معیار پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتا ۔ انہی دنوں شہر میں ایک نیا رئیس آیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ بوڑھے کو دے دیتا ہے، بچے اور معذور کو دے دیتا ہے ۔ پیشہ ور مانگنے والوں ، بالخصوص صحت مند مردوں کو کسی صورت نہیں دیتا ۔ یہ وہ وقت تھا، جب مانگنے کا میرا فن پوری طرح نکھر چکا تھا ۔ جس سے مانگنا ہو، اس کی میں ایسی تعریف کرتا کہ وہ جھوم اٹھتا۔نئے
آنے والے کے متعلق میں نے معلومات اکھٹی کیں ۔ حیدر علی بلا کا سخت آدمی تھا ۔ اس کے گھر کے اندر میں نے ٹوہ لگائی ۔ اچھا! تو اس کے بیٹے مغیث حیدر کی آنکھوں میں مسئلہ ہے ؟ بس کام بن گیا ۔
اس روز جب حیدر علی گاڑی سے اترا، میں نے آواز لگائی ۔ اس کے سخت اصولوں ،پروقار شخصیت کی تعریف کی۔ اس نے ایک اجنبیت بھری نگاہ مجھ پر ڈالی اور چلتا رہا۔ میرے لیے تو وہ گھڑے کی مچھلی تھی ۔ میں نے مغیث حیدر کی آنکھوں کی سلامتی مانگی ۔ میں نے کہا مغیث کی آنکھ مکّہ دیکھے ، مدینہ دیکھے ، مغیث کی آنکھ آسمان دیکھے، زمین دیکھے۔حیدر علی ٹوٹ گیا۔ اس نے نوٹ نکال کر پھینکنے شروع کیے۔ میرا کام ہو چکا تھا، میں ایک فاتح کی صورت مڑنے لگا، جب اس نے کہا ''مانگنے کا ایساسلیقہ ؟بندوں سے مانگتے ہو، اللہ سے نہیں ؟ ‘‘
ایک ہی فقرے میں اس نے میری گردن پہ چھری چلا دی ۔ وہ چلا گیا، میں تڑپتا رہ گیا۔خدا سے مانگنے کے بارے میں ، میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا ۔ میں تو ایک نیچ خاندان کا رکن تھا ، جو حق حلال کھانے سے بھی قاصر تھا ۔ مجھے بھلا خدا سے کیا واسطہ؟میرے اصول، میرے ضابطے میرے سامنے آکر کھڑے ہو گئے ۔ میں نے خود سے سوال کیا کہ جو اصل رئیس تھا، اس سے تو مانگا ہی نہیں۔ میں ان سے مانگ رہا تھا، جو خود مانگنے والے تھے ۔ پھر میں خدا سے مانگتا تو کیا مانگتا؟ پیسہ میں کافی اکھٹا کر چکا تھا ۔ بس ایک عزت نہیں تھی ۔ ایک پیدائشی بھک منگے کو عزت کون دے گا ؟ عزت کے بدلے ہی تو اسے بھیک ملتی ہے ۔
صدمے کی شدت سے مجھے تیز بخار چڑھ گیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں بستر پہ لگ گیا۔ ایک پھنکارتا ہو ا سوال میرے سامنے پھن اٹھا کر کھڑا ہو گیا کہ خدا نے مجھے بھکاریوں میں کیوں پیدا کیا ۔
کئی ہفتے بعد آخر میرے اعصاب بحال ہو نے لگے ۔ یہ میرا اصول تھا کہ جس سے مانگنا ہو ، اس کے بارے میں خوب معلومات اکھٹی کرو ۔اب مجھے ایک استاد کی تلاش تھی ، خدا کے بارے میں جو مجھے معلومات مہیا کرے ۔ جب یہ معلومات اکھٹی ہوئیں تو میں سر پکڑ کربیٹھ گیا ۔میرا ہنر یہ تھا کہ دینے والے کے جذبات سے میں کھیلا کرتا۔ اب ایسے علیم و خبیر کو کون دھوکہ دیتا ؟ نہ اس کا خاندان ، نہ کوئی بیٹا ۔ آخر ایک روز میں باہر نکلا اور آواز لگائی '' اللہ دے ، سرکارؐ کے نام کا دے۔۔۔‘‘ میں اللہ کی بڑائی بیان کرتا رہا، اس کے رسولؐ کی تعریف کرتا رہا۔ روتا رہا، گلیوں میں پھرتا رہا ۔ کاسہ ء گدائی توڑ دیا۔ کسی نے پیسے دینے کی کوشش کی تو اسے لوٹا دئیے ۔ میرے پیشے میں بڑے کے سامنے چھوٹے سے مانگنا منع تھا۔ میں نے خدا سے مانگا تو بندوں سے مانگنا چھوڑ دیا ۔ ہاں ضرورت پڑنے پر ادھار ضرور لیا اپنا چھوٹا سا کام شروع کیا ، جو چل نکلا۔ پھر ایک لنگر بنانے کا ارادہ کیا تو کئی لوگ اس میں شریک ہو گئے ۔ نام میرا مشہور ہو گیا۔ کسی نے مجھے ''خواجہ منگتا ‘‘کہا ۔ کوئی اسے بھیک والے کا لنگر کہنے لگا ۔ آہستہ آہستہ لوگ میری عزت کرنے لگے، مجھے خواجہ صاحب پکارنے لگے ۔
یہ تھی خواجہ منگتا کی کہانی ۔ وہ دینے پر آئے تو ایک فقیر کو عزت دے دیتاہے ۔ بس مانگنے کا سلیقہ ہونا چاہئے !