تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-06-2017

گمان

وہ سنتا ہے دل کی گہرائیوں سے التجا اُٹھے تو‘ سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ ہم بے یقین اور ناکردہ کار ہیں کہ مانگتے ہی نہیں۔ فرمایا: بندے کے لیے اس کا رب ویسا ہی ہے‘ جیسا کہ وہ گمان کرے۔ ہمارا گمان کیا ہے؟ گولیوں کے سائے میں اہلِ کشمیر کا تو یقینا اچھا!
کھیل کو کھیل ہی سمجھنا چاہیے۔ لیکن نفرت کا مارا اگر کوئی تُل جائے تو کیا علاج۔ بھارتیوں نے اگر یہ کہا کہ ہم تمہارے باپ ہیں تو جواب انہیں مل گیا۔ اور باقی پاکستان سے زیادہ‘ ڈیرہ بگتی‘ سبی اور سری نگر میں۔ والہانہ پن کے ساتھ خلقِ خدا گھروں سے نکلی اور جشن منایا۔
ایک ساتھ ملک کو کئی تحفے ملے۔ درماندہ کرکٹ زندہ ہوگئی۔ نئے‘ نوجوان اور پُرعزم کھلاڑی ملے۔ یہ پیغام بھی کہ پاکستانی قوم سرنگوں ہونے پر آمادہ نہیں۔ شہریار خان اور نجم سیٹھی کے باوجود‘ پاکستانی عزم اور صلاحیت کی بازیافت‘ زندہ رہنے کے عزم کا اعلان ہے۔
کتنی ہی کہانیاں اس پر یاد آئیں۔ سب سے بڑھ کر محمد یونس کی۔
لگ بھگ بیس برس ہوتے ہیں۔ بھارت میں ہونے والا ایک میچ پاکستان ہار گیا تھا۔ سری نگر سے پاکستان ہجرت کرنے والے جواں سال یونس کو بلکتے دیکھا۔ دلجوئی کرنے کی کوشش کی مگر ناکام۔ کہا: آخرکار یہ ایک میچ ہی تھا۔ رخساروں پر بہتے آنسوئوں کے درمیان اس نے کہا: آپ پاکستانی ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں‘ ایک کشمیری نہیں۔ بھارت کے ہاتھوں‘ پاکستان کی شکست اسے گوارا نہیں۔
پانچ سات لاکھ بھارتی فوج اور اس کی بینائی چاٹ لینے والی پیلٹ گنوں کے سائے میں سری نگر کا جشن کیا ہوگا۔ طویل و عریض پاکستانی پرچموں کے ساتھ۔ اپنے شہید بھی اسی علم کے ساتھ دفناتے ہیں۔ آزادی کی قدرو قیمت سے پوری طرح وہی آشنا ہو سکتا ہے‘ غلامی کے تاریک مہ و سال جو بتا رہا ہو۔
چیخ چیخ کر کچھ لوگ پوچھتے رہے کہ نجم سیٹھی کو مبارک باد کیوں نہیں دی جا رہی؟ ان سے سوال یہ ہے کہ وہ عمران خان کو مبارک باد کیوں نہیں دیتے‘ جس نے تجویز کیا کہ پاکستان کو پہلے بلّے بازی کرنی چاہیے۔ کوئی اگر یہ بتا سکے کہ اس کامیابی میں نجم سیٹھی کا حصہ کیا ہے تو ضرور اسے بھی سراہا جائے۔ اس کی بھیجی ہوئی ٹیم نے تو خاک چاٹی تھی۔ پاکستانی عوام کی برہمی کے بعد میڈیا کے شوروغل کے بعد ‘ نئے کھلاڑی شامل ہونے پر پانسا پلٹا۔ اسے کیا خبر کرکٹ کیا ہے؟ ملک کی عظمت و وقار سے اسے کیا شغف؟ کتنی توانائی شہریار خان رکھتے ہیں کہ کھیل میں کھپا سکیں؟ بھارتیوں نے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کی مہم جب چلائی تو کتنی جان سوزی انہوں نے کی۔ کرکٹ کی عالمی دنیا میں ان کا احترام کتنا ہے؟ رسوخ کتنا ہے؟ کرکٹ کے فرسودہ ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے کتنی ریاضت کی؟ کون سے اقدامات کیے؟۔
اس کے باوجود مبارک باد انہیں دی جاتی۔ یہ مطالبہ مگر وہ لوگ کر رہے ہیں‘ آئے دن تحریک انصاف کے خلاف خبریں جو گھڑتے ہیں۔ عمران خان فرشتہ نہیں کہ ان پر تنقید نہ کی جائے۔ 
مصطفیٰ کھروں اور فردوس عاشق اعوانوں کی شمولیت ہی کو لے لیجئے۔ آزاد اخبار نویسوں نے کم تنقید اس پر نہیں کی۔ جن کا پیشہ مگر سرکار کی وکالت میں‘ عدالت اور عسکری قیادت کے بارے میں شکوک کی فصل کاشت کرنا ہے‘ ان کی بات کیوں سنی جائے۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی تفتیش میں‘ مقدمے کی سماعت میں‘ عدالت اور فوجی قیادت کا جرم کیا ہے؟۔
جے ٹی آئی پر نیم مردہ سے الزامات ہیں۔ کچھ اعتراضات ان کے بھی ہیں۔ معاملہ عدالت نمٹائے گی۔ شور شرابا کیوں ہے؟ اس فوج کے خلاف کیوں ہے‘ قبائلی پٹی‘ بلوچستان اور کراچی میں ہزاروں زندگیاں نذر کرکے جو دہشت گردی کا سدباب کر رہی ہے؟ میاں محمد نوازشریف کی پولیس اور سول انٹیلی جنس‘ اس باب میں اپنا فرض کیوں ادا نہیں کرتی؟ اس سے یہ سوال آپ کیوں نہیں پوچھتے؟ حکمرانوں کا کام کیا‘ زروجواہر کے انبار جمع کرنے کے سوا کچھ نہیں؟۔
بے حیائی کی حد یہ ہے کہ آزاد اخبار نویسوں کے آپ درپے ہیں۔ محترم جاوید غامدی کے ایک شاگرد رشید نے رئوف کلاسرا کے خلاف‘ ایک گھنائونا الزام گھڑا۔ اپنی ویب سائٹ پہ پھیلانے کی کوشش کی۔ عامر خاکوانی نے احتجاج کیا تو حذف کردیا۔عامر سادہ آدمی ہیں‘ رہنے دیتے۔ معاف کرنے والا کلاسرا بھی نہیں۔ اس بے شرم کو گھسیٹ کر عدالت میں لے جاتا۔
اپنے کمرے میں میچ تنہا دیکھا کہ ان دنوں بیشتر وقت کتابوں کے ساتھ گزرتا ہے۔ غیر متوقع اور خیرہ کن ظفر مندی نے احساس دلایا کہ کسی کو مبارک باد دینی چاہیے۔ سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ دل نے کہا منظور احمد!
دس برس تک وہ میرا ڈرائیور رہا‘ مستعد اور وفادار۔ سات سال پہلے کھیتوں میں کام کرنے کی ضد پالی۔ جن دنوں میرے ساتھ تھا‘ عمران خان سے کرکٹ کے اسرار پہ گفتگو کیا کرتا۔ ایک بار عمران کی عینک ٹوٹ گئی۔ نمبر مجھے معلوم تھا‘ بھیجا‘ کہ بنی بنائی بازار سے لے آئو۔ اپنی پسند کی ذرا شوخ رنگ کی وہ لے آیا۔ عمران کو جو بھدی لگی۔ ناک پہ دھری‘ غور سے اس کی طرف دیکھا اور کہا: منظور! آج کل میں لندن جائوں تو لڑکیاں کہتی ہیں میری ماما‘ آپ کی بہت فین ہیں۔ اس عینک کے ساتھ گیا تو شاید کوئی کہے: میری دادی آپ کی دلدادہ ہیں۔
پروفیسر احمد رفیق اختر کے ہاں بھی کرکٹ کے شائقین کا ہجوم رہتا ہے۔ ان سے بھی منظور اس موضوع پر بات کیا کرتا۔ 2004ء کی بات ہے۔ انضمام الحق کی قیادت میں چھ عدد میچوں پر مشتمل ایک روزہ کرکٹ کھیلنے پاکستانی ٹیم بھارت گئی۔ پہلے دونوں ہی مقابلے ہار گئی۔ کرکٹ کا عاشق بہت تشویش میں مبتلا ہوا۔ ایک دن پروفیسر کی خدمت میں ہم پہنچے تو بے تاب ہو کر اس نے پوچھا: اب کیا ہوگا؟ رسان سے انہوں نے جواب دیا‘ باقی چاروں میچ پاکستان جیت جائے گا۔
شاہ جی‘ عباس اطہر مرحوم‘ چھوٹی موٹی شرط‘ کرکٹ میچوں پر لگایا کرتے۔ اگلی سویر میں سو کر اٹھا تو دیکھا کہ پاکستان غالب ہے۔ شاہ جی سے میں نے کہا: پچاس ہزار روپے لگا دیجئے۔ ہار گئے تو میں پیش کر دوں گا۔ نہ مانے مگر پانچ سے بڑھا کر دس ہزار کر دیے۔ مجھ سے پوچھتے رہے‘ تمہیں پاکستان کی فتح کا یقین کیوں تھا۔ ٹال دیا اور عرض کیا کہ اگلے میچ پر پچاس ہزار لگا دیجئے گا۔ وعدہ رہا کہ خسارہ ہوا تو پورا کر دوں گا۔ لین دین ہمارا مدتوں سے تھا۔ اگلے دو میچوں میں بھی یہی ہوا۔ شاہ جی کشف کے قائل تھے نہ روحانیت کے۔ اصرار کے باوجود کچھ بتانے سے میں نے گریز کیا۔ آخری دم تک وہ یہی سمجھتے رہے کہ ممبئی کی کسی مافیا سے میرا ربط ہے۔
سوچا درویش سے پوچھوں گا کہ ان کے یقین کا راز کیا تھا۔ ہر بار بھول جاتا۔ مدتوں بعد یاد آیا تو عرض کیا: اس طرح کی پیش گوئیوں سے آپ کو دلچسپی کیوں ہونے لگی؟ مزید براں آپ شخصیت کے مطالعے میں انہماک رکھتے ہیں۔ بائیس افراد کے کھیل پر ریاضت کی ضرورت کیوں پڑی! بولے: تم غلط سمجھے۔ دو دنوں بعد تیسرا میچ الٰہ باد میں تھا‘ مودی نے جہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ سحر کی نماز میں خیال آیا تو مالک سے دعا کی: جس زمین پر مسلمانوں کا خون گرا ہے‘ اس پہ ان کی عزت پامال نہ ہو۔ کبھی دعا کی مقبولیت میں یقین اترنے لگتا ہے۔ اس روز ایسا ہی ہوا اور بہت شدت کے ساتھ۔ گمان ہوا کہ اللہ نے سن لی ہے۔ منظور نے پوچھا تو بے ساختہ یہ بات زبان سے نکل گئی‘ وگرنہ کرکٹ کے میچوں سے مجھے ایسی بھی کیا دلچسپی۔
وہ سنتا ہے دل کی گہرائیوں سے التجا اُٹھے تو‘ سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ ہم بے یقین اور ناکردہ کار ہیں کہ مانگتے ہی نہیں۔ فرمایا: بندے کے لیے اس کا رب ویسا ہی ہے‘ جیسا کہ وہ گمان کرے۔ ہمارا گمان کیا ہے؟ گولیوں کے سائے میں اہلِ کشمیر کا تو یقینا اچھا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved