ماہِ رمضان میں سب سے اچھا عمل روزے کی حالت میں بھی اور افطار کے بعد بھی تلاوت قرآن مجید ہے۔ماہِ رمضان میں آنحضورﷺ جبریل ؑکے ساتھ قرآن مجیدکا دور کیاکرتے تھے ۔قرآن کو حفظ کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔جتنے حصے یاد ہو جائیں سینے کے نور،دل کی بہار اور قرار،غموں سے نجات اور پریشانیوں سے خلاصی کا ذریعہ بنیں گے۔ قرآن مجید کو مستند تفاسیر سے سمجھ کر پڑھنا زیادہ مفید ہوتا ہے۔اعتکاف کے دوران تو بالخصوص مطالعۂ قرآن وحدیث کا اہتمام بہت ضروری ہے۔سیرت رسولﷺ اور سیرت صحابہ بھی اس موسمِ بہار میں بہترین زادِ سفر ہیں۔
'اسلام‘ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم میں سلامتی بھی شامل ہے اور سرتسلیم خم کردینا یعنی خود سپردگی بھی اس کا ایک معنٰی ہے۔اسلام کی ایک اور تعریف جو اپنی معنویت کے لحاظ سے بہت جامع ہے،یوں کی جاتی ہے''اسلام عبادات اور معاملات کا مجموعہ ہے‘‘۔یعنی اسلام میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دو اہم ترین شعبے ہیں۔ان دونوں کے درمیان توازن بھی اسلام کے حسن کو نمایاں کرتا ہے۔روزے میں ان دونوں پہلووں کی نمائندگی ہے۔اللہ سے تعلق روزے کا منشا ہے اور محروم طبقات کی بھوک،احتیاج اور مشاکل کا احساس اور اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی روزے کا لازمی تقاضا ہے۔اسلام میں افراط و تفریط کو غیر پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔رمضان کے روزے تو فرض ہیں،نفلی روزوں میں اعتدال کا حکم دیا گیا ہے۔
اعتکاف پر عمل پیر اہونے کا بہت زیادہ اجر ہے۔اعتکاف کے دوران ایک مومن مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اور اللہ سے لو لگائے اس بات کا ہر لمحے بزبانِ حال اعلان کرتا ہے کہ اس نے خواہشات نفس کی اکساہٹوں کو روک دیا ہے اور اللہ سے مضبوط تعلق قائم کرلیا ہے۔روزے کے دوران صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مومن خود کو کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے روکے رکھتا ہے۔روزہ افطار ہونے کے وقت سے لے کر اگلی صبح صادق تک وہ کھانے پینے اور اپنے شریکِ حیات سے تعلقاتِ زن و شو قائم کرنے میں آزاد ہوتاہے مگر اعتکاف کے دوران دن اور رات کے کسی بھی حصے میں جنسی تعلقات قائم کرنا حرام قرار پاتا ہے۔
نبی اکرمﷺ نے اعتکاف کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے اور مدینہ منورہ میں قیام کے دوران اس پر عمل کیا ہے۔سید مودودی ؒتحریر فرماتے ہیں۔
''نبیﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں قیام فرماتے تھے اور آپﷺ کا یہ معمول عمر بھر رہا۔ظاہر ہے کہ اس سے مراد آپﷺ کا وہ معمول ہے جو مدینہ طیبہ میں رہا کیونکہ رمضان کے روزوں کاحکم مدینہ طیبہ میں آیا تھا۔دوسرے یہ کہ مکہ میں اس وقت تک سرے سے کوئی مسجد ہی نہ تھی اور مسجد حرام(خانہ کعبہ)میں اعتکاف کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔اس لیے اس سے مراد یہی ہے کہ قیامِ مدینہ طیبہ میں آخر وقت تک حضورﷺ کا یہ معمول رہاکہ آپﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔(کتاب الصوم، ص267-268)
یہ اس حدیث کی تشریح ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے اور جو متفق علیہ احادیث میں سے ہے۔رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی حکمتوں میں سے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ قرآن مجید کی سورۃ القدر کے مطابق رمضان میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا تھا اور ہر سال جب یہ رات آتی ہے تو جبریلِ امین اللہ کی رحمتیں لے کر فرشتوں کے جھرمٹ میں آسمان سے زمین پر اترتے ہیں۔اس رات کو عبادت میں مصروف اہل ایمان کورحمتِ خداوندی میں سے وافر حصہ عطا ہوتا ہے اور وہ دوزخ سے خلاصی پاتے اور جنت کے مستحق بن جاتے ہیں۔
لیلۃ القدر کے بارے میں سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:''لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں بالخصوص طاق راتوں(یعنی 21، 23، 25، 27 اور 29)میں تلاش کرو‘‘(بحوالہ بخاری)۔
لیلۃالقدر کے بارے میں یہ روایت بھی ہے کہ آنحضورﷺ کو پہلے اس رات کے بارے میں بتا دیا گیاتھا مگر پھر وہ علم واپس لے لیا گیا۔غالباً اس کی حکمت یہ ہوگی کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ کرنے کے بجائے پورے رمضان اور بالخصوص آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ ذوق وشوق کے ساتھ خود کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیں۔
سید مودودیؒ لیلۃالقدر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
''اب تک جتنی احادیث گزری ہیں ان سب پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ کوئی خاص حکمت اور مصلحت ہے کہ لیلۃ القدر حتمی طور پر حضورﷺ کو نہیں بتائی اور آپﷺ کو اس بات پر مامور نہیں کیا کہ آپ لوگوں کو یہ بتائیں کہ فلاں رات لیلۃ القدر ہے۔نبی اکرمﷺ کوزیادہ سے زیادہ جو بات بتانے کی اجازت دی گئی وہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے اور تم طاق راتوں میں اسے تلاش کرو۔اس حدیث میں طاق راتوں میں سے بھی تین کا ذکرکیا گیا ہے،یعنی21،23اور25۔ بعض روایات میں اکیس سے انتیس تک کی طاق راتیں ہیں اور بعض روایات میں آخری سات دنوں کی راتیں ہیں۔احادیث کی روایت کرتے وقت چونکہ یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سی حدیث کس تاریخ کی ہے اس لے یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سی حدیث ابتدائی دور کی ہے اور کون سی بعد کے دور کی۔علمائے امت میں جو بات معروف ہے وہ یہی ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے‘‘۔( کتاب الصوم،ص264-265)
اگر کسی شخص کو لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو اس کو ہر دعا پورے یقین کے ساتھ مانگنی چاہیے اور ہر عبادت پورے خلوص اور حضوریٔ قلب کے ساتھ حضورِ حق میں پیش کرنی چاہیے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مجھے اس میں کیا کہنا چاہیے۔آپﷺ نے فرمایا:یہ دعا مانگنی چاہیے''اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی‘‘اے میرے مولا تو بڑا معاف کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے،پس مجھے (بھی)معاف فرما دے (بحوالہ مسند احمد، ابن ماجہ،جامع ترمذی)۔