محمد حسین آزاد کے ایک شہرہ آفاق مضمون کا عنوان ہے : انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ ہم اِس بات کو تھوڑا سا آگے بڑھاتے ہوئے عرض کریں گے کہ انسان کسی بھی حال میں دوسروں کو خوش بھی نہیں دیکھ سکتا۔ سب کو اوروں کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اپنے مسائل بالائے طاق رکھ کر لوگ دوسروں کے بکھیڑوں میں یُوں پڑتے ہیں کہ اُنہیں الگ کرنا ایک چیلنج بن جاتا ہے۔
کوئی اگر دُبلا ہے تو سب کو فکر لاحق رہتی ہے کہ وہ دُبلا کیوں ہے۔ قدم قدم پر مشوروں سے نوازا جاتا ہے کہ میاں! کچھ کھایا پیا کرو ورنہ کسی دن ہوا کا زوردار جھونکا اڑاکر لے جائے گا۔ اور اگر کوئی اِن مشوروں پر عمل کرتے ہوئے، کھا پی کر ذرا سا تگڑا ہو جائے تو لوگ ایک بار پھر لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ جسم و جاں پر رحم کرو، وزن کچھ کم کرو۔ یعنی کھاؤ تو مصیبت، نہ کھاؤ تو مصیبت! یہ بھی کوئی زندگی ہوئی۔
ورزش بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے جسے عوام اور ماہرین دونوں نے مل کر خوب پامال کیا ہے۔ دنیا بھر میں اُتنی ورزش نہیں کی جاتی جتنی اُس کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے! مشوروں کا سیلاب ہے کہ اُمڈا چلا آتا ہے۔ ماہرین ورزش نہ کرنے والوں کو ہدف بناکر ورزش کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ورزش کرنے سے روئے ارض ہی پر جنت مل جائے گی!
ماہرین کہتے ہیں کہ ورزش کرنے والے چاق و چوبند ہی نہیں، خوش و خرم بھی رہتے ہیں۔ ورزش کا تعلق ڈپریشن سے جوڑا جاتا ہے۔ امریکی ماہرین کی ایک ٹیم نے نئی تحقیق کے نتائج کی روشنی میں بتایا ہے کہ روزانہ ورزش کرنے سے دن بھر موڈ اچھا رہتا ہے اور ڈپریشن کا گراف گرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دن کے آغاز پر تھوڑی سی ورزش ڈپریشن کا گراف نیچے لانے والے کیمیائی مواد ڈوپامین، سیروٹنین وغیرہ کی افزائش بڑھتی ہے اور ڈپریشن کا گراف 16.3 سے 8.3 پر آ جاتا ہے۔ جب کبھی اس قسم کی کوئی تحقیق سامنے آتی ہے یعنی ماہرین لب کُشائی فرماتے ہیں تب ہمارے احباب کی تو چاندی ہو جاتی ہے۔ بس، یہ سمجھ لیجیے کہ اُنہیں ایک نیزہ مل جاتا ہے جس کی نوک چبھو چبھوکر وہ ہمارا ناک میں دم کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں ٹھیک سے یاد نہیں کہ ہم نے آخری بار ورزش کب کی تھی اور اِس سے ایک قدم آگے جائیے تو یہ بھی یاد نہیں کہ آخری بار سے پہلے کبھی ورزش کی بھی تھی یا نہیں!
اِس دور میں صحت مند ہونا بھی ایک عذاب ہے۔ اگر کسی کو اللہ نے بیماریوں سے اچھی طرح دو دو ہاتھ کرنے کی اہلیت رکھنے والا تگڑا جسم دے رکھا ہو تو لوگوںکو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور تگڑے جسم کو سلمنگ اور ''ورزشنگ‘‘ کے ذریعے اِتنا کمزور بنایا جائے کہ معاملہ اُسے ایک بار پھر طاقتور بنانے سے متعلق مشورے دینے کی منزل تک جا پہنچے!
ایک زمانہ تھا کہ جب (اب تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں کہ وہ کتنی صدیاں پہلے کا دور تھا!) ہم بھی خاصے سلِم ہوا کرتے تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تو وہ ہمیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا تھا! آئینہ جتنا مضطرب تھا اپنی اُس سلِم حالت سے ہمیں تو اُتنا ہی قرار تھا مگر لوگ بے چین رہا کرتے تھے۔ موقع ملتے ہی مشورہ دیا جاتا تھا کہ کچھ کھاؤ پیو تاکہ جان بنے اور کسی معمولی سی بیماری کے ہاتھوں جان پر نہ بن آئے! ہمارے سلِم جسم کو دیکھ کر جلنے والوں کی کوئی کمی نہ تھی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ایسے میں نظر بھی لگ جایا کرتی ہے! بس، ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ خدا جانے کس حاسد کی نظر لگی کہ ہم بھی دِلّی، لاہور اور گوجرانوالہ کے باشندوں کی روش پر چل پڑے یعنی یہ کہ ''کھابوں‘‘ کی زلف کی اسیر ہوگئے! نہاری، پائے، مُرغ چھولے، لَسّی اور اِسی قبیل کے دیگر کھابوں نے ہماری نفسی ساخت کے احاطے میں ڈیرے ڈال لیے۔ اور اِس کے بعد، ظاہر ہے، چراغوں میں روشنی نہ رہی!
کسی سے پوچھا گیا کہ جنگل میں اکیلے جارہے ہو اور سامنے شیر آجائے تو کیا کروگے؟ اُس نے جواب دیا مجھے کیا کرنا ہے، جو کرنا ہے شیر ہی کو کرنا ہے! ہمارے معاملے میں پکوان بھی شیر ہی ثابت ہوتے آئے ہیں۔ جب متنوع پکوان سامنے دھرے ہوں تو پھر ہمیں کیا کرنا ہے، جو کرنا ہے وہ پکوانوں ہی کو تو کرنا ہے ... اور وہ کر گزرتے ہیں!
ایک زمانہ تھا کہ ہم وزن کے معاملے میں ''سٹھیائے‘‘ ہوئے تھے۔ گنگ و جمن اور راوی و چناب کے کنارے آباد شہروں میں جو کچھ پکایا اور کھایا جاتا ہے کچھ اُنہی پکوانوں اور کھابوں کی مہربانی ہے کہ وزن کے معاملے میں اب ہم خیر سے ''نروس نائنٹی‘‘ کا شکار ہیں! ہم نے خیر خواہوں کے مشورے پر عمل کرکے بھی دیکھا ہے مگر بات کچھ زیادہ بنتی نظر نہیں آئی۔ وزن تھوڑا سا کم ہوتا ہے مگر کچھ ہی دنوں بعد پانی دوبارہ اپنی پنسال میں آجاتا ہے! کراچی کی سیاست میں تو نائن زیرو کو بہت حد تک غیر موثر کیا جاچکا ہے مگر وزن کے معاملے میں ہم نائن زیرو کے آس پاس ہی رہتے ہیں! ورزش کے معاملے میں اب ہم اُسی منزل میں ہیں جس میں ثوابِ طاعت و زہد کے حوالے سے غالبؔ تھے! ع
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!
دوسری بات یہ ہے کہ جسم کے لیے ذہن کو آمادہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اونٹ کو رکشے میں بٹھانا اور امریکا کو معقول پالیسیاں اپنانے کی طرف مائل کرنا! گویا ع
حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا
ہاں مگر حوصلہ نہیں ہوتا!
ہم ورزش کی طرف ہم آ تو جائیں مگر پھر سوچتے ہیں کہ ورزش کاہے کے لیے کی جاتی ہے، ڈپریشن دور کرنے کے لیے اور خوش رہنے کے لیے نا۔ ورزش کی صورت میں مینو سے بہت کچھ نکالنا بھی پڑتا ہے۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ڈپریشن دور کرنے کے لیے جب بھی مینو میں کاٹ چھانٹ کیجیے تو ڈپریشن بڑھ جاتا ہے! اب آپ ہی بتائیے اِس الجھن کا کیا علاج کریں؟ سوال ڈپریشن سے بچنے اور خوش رہنے ہی کا ہے نا، تو پھر کھا پی کر خوش کیوں نہ رہا جائے!
اور صاحب، ہم نے تو بانس جیسے دُبلے اور فوم کے تکیوں کا سا معمولی وزن رکھنے والوں کو بھی صحت کے حوالے سے پریشان ہی نہیں، موت کے منہ میں جاتے بھی دیکھا ہے۔ ورزش سے متعلق ماہرین کچھ بھی کہتے رہیں، اب ہم بھی اُن کی قبیل سے ہیں جو اپنی روش پر پامردی سے گامزن رہنے کا اٹل فیصلہ کرچکے ہیں ؎
اب آگے جو بھی ہو انجام، دیکھا جائے گا
خدا تراش لیا اور بندگی کرلی!