تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     21-06-2017

Rent a liberal

پتہ نہیں اچھا ہوا یا برا لیکن پچھلے چند برسوں میں بڑے بت ٹوٹتے دیکھے اور اس کے ساتھ اپنا دل بھی۔ عامر متین میرے بارے میں کہتے ہیں میں جلدی دل دے بیٹھتا ہوں اور پھر مایوس ہوتا ہوں ۔ میری بیوی کہتی ہے میں لوگوں پر اندھا دھند اعتماد کرتا ہوں۔ میرے اندر مردم شناسی نہیں ۔ بعد میں جب وہ مجھے چھری مارتے ہیں تو تکلیف محسوس کرتا ہوں۔ یہ باتیں سن کر مجھے وہ بچھو یاد آ جاتا ہے ایک کچھوا جس کو وہ اپنی کمر پر بٹھا دریا پار کرانے کی کوشش کررہا تھا اور وہ بار بار اسے ڈنک مار رہا تھا۔ کچھوے کے موٹے خول کو کیا فرق پڑنا تھا۔ پوچھا لیا: کیا ہو رہا ہے؟ بتایا: عادت سے مجبور ہوں، ڈنک مارنے پر۔ تم تیرتے رہو۔ 
جرنلزم مشکل کام ہے۔ درباری بن جائیں، ڈھول گلے میں باندھ لیں، حکمرانوں کے قیصدے لکھیں تو آپ سے بہتر کون ہو گا۔ اپنے کچھ 'دوستوں‘ پر ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کو وکیل کرکے عدالت میں مقدمے کی تیاری کے دوران کل رات ہی بیگم پرانے کاغذات میں سے تڑا مڑا خط لے آئی۔ میں نے پوچھا: کیا ہے؟ بولی: نواز شریف صاحب نے دس سال قبل آپ کی تعریفی خط لکھا تھا‘ پڑھ لیں۔ میں نے کہا: اگر میں نے ان کی تعریف کو سنجیدگی سے لیا ہوتا تو یہ کاغذوں میں اس طرح تڑا مڑا پڑا ملتا؟ ڈرائنگ روم کی دیوار پر لٹکتا نہ نظر آتا تاکہ ہر آنے جانے والا متاثر ہوتا۔ وہ بولی: اب ڈرائنگ روم میں لگا دو... اچھا لگے گا۔ میں نے کہا: ہوسکتا ہے نواز شریف صاحب کی رائے میرے بارے میں وزیراعظم بن کر بدل گئی ہو۔ اتنا حق تو انہیں ملنا چاہیے۔ انسان ساری عمر کسی کو اچھا یا برا نہیں سمجھتا ۔ میں کبھی انہیں اچھا لگتا تھا تو اس میں میرا کیا کمال تھا ۔ اب برا لگتا ہوں تو بھی میرا کیا قصور؟ 
اگر حکمران کسی صحافی کی تعریف کریں تو سمجھیں گڑبڑ ہے‘ چوکیدار چور کے ساتھ مل گیا ہے۔ اسی لیے اس خط کو ایک طرف رکھ دیا تھا۔ یہ سب سیاستدانوں کے حربے ہوتے ہیں‘ ہمارے جیسے لوئر مڈل کلاس دیہاتیوں کو چارہ ڈالنے کے لئے‘ جن کے لیے گائوں میں ایک سپاہی سے سلام دعا فخر کی بات ہوتی ہے اور وہ پورے گائوں کو آگے لگا لیتے ہیں اور یہاں تو وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ تک سے آپ کی واقفیت ہو جاتی ہے۔ پھر کہاں کی جرنلزم اور کہاں کی طاقتور سے لڑائی؟ 
شاید کچھ کو اچھا نہ لگے لیکن میں نے جو کردار سیاست میں دیکھے ہیں اب کسی سے ملنے کو دل نہیں چاہتا۔ کسی دور میں ایک سیاستدان اچھا لگتا تھا۔ مصطفیٰ کھر کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر تنقید کی۔ موصوف تشدد کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے میری ٹیم کے اہم ممبر صدیق جان کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ اگر لیہ اور مظفرگڑھ کے لوگوں کی چھترول نہ کی جائے تو وہ بھلا بندے کے پتر بنتے ہیں۔ یہ ہے نئے پاکستان کا آئیڈیا۔ موصوف پی ٹی آئی پنجاب کے بڑے عہدے دار ہیں اور آج کل پی پی پی کو پی ٹی آئی میں مدغم کرنے کے پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔ اپنے سابق پسندیدہ سیاستدان کا پیغام ملا تو صدمے کی کیفیت میں رہا۔ اگر یہ مذاق بھی تھا تو کتنا گھنائونا اور بے ذائقہ۔ 
اسی طرح کبھی سمجھتا تھا کہ لبرل طبقہ بعض مذہبی عناصر سے بہتر ہے کیونکہ جب طالبان ظلم اور بربریت کا بازار گرم رکھے ہوئے تھے تو کچھ گروپس اور ان کے حامی اس کا جواز پیش کر رہے تھے۔ پھر لبرل ازم کا اپنا امتحان آیا جب پنجاب حکومت نے ماڈل ٹائون میں چودہ معصوم لوگوں کو گولیاں ماریں‘ جس میں دو مائیں بھی شامل تھیں۔ میں انتظار کرتا رہا کہ دیکھتے ہیں کتنے لبرل اور انسانی حقوق کے علمبردار باہر نکلتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک ٹی وی شو میں انسانی حقوق کی ایک علمبردار کی بہن میرے ساتھ بیٹھی تھیں۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے بعد چند نوجوان لاہور میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے۔ پولیس نے ان پر تشدد کیا تو میں نے اس پر شو میں اعتراض کیا۔ اس پر وہ بولیں: پولیس بالکل درست کر رہی ہے‘ وہ جمہوریت کی راہ میں رکاٹ ڈال رہے ہیں۔ یہ شرپسند ہیں۔ میں اس خاتون سے پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ جناب یہ بات جنرل ضیا کرتا تھا تو آپ لوگوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔ جنرل ضیا آپ لوگوں کو شرپسند کہتا تھا، آپ ان نوجوانوں کو کہتی ہیں۔ جنرل ضیا اور آپ کی سوچ کتنی ملتی ہے، ماشاء اللہ۔ آج وہی جمہوریت لوگوں کو احتجاج کرنے کا حق نہیں دے رہی تو آپ جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ دوسرا جھٹکا تھا جو مجھے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے ان کی بہن کے نگران وزیر اعظم بننے پر اعتراض کیا تھا۔ اس دن کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف دونوں برے ہو گئے‘ اور نواز شریف صاحب اچھے۔ چاہے ان کے دور میں بندے ہی کیوں نہ مار دیے جائیں، سب لبرلز کے ہونٹ سیل رہیں گے۔ 
داجل‘ راجن پور میں پولیس نے ظلم کا بازار گرم کیا اور چودہ سو لوگوں‘ جس میں زیادہ تر نوجوان تھے‘ کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات میں درج کیے۔ بے پناہ تشدد کیا گیا۔ مجال ہے لبرل اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ایک لفظ کہا ہو، شاید انہیں خطرہ لاحق ہو گیا کہ اس سے جمہوریت پٹڑی سے اتر جائے گی۔ سب آدرش اور ازم ایک لمحے میں ہوا ہو گئے۔ ان لبرلز کے سیاستدانوں اور ان سے جڑے مفادات انسانی جانوں اور خون پر حاوی ہو گئے۔ 
اب لبرلز نے نیا ہتھیار ڈھونڈ لیا ہے: حکمرانوں کی کرپشن اور بیڈ گورننس کا اندھا دھند دفاع۔ اب حکمرانوں کی کرپشن اور گورننس پر تنقید کرنے کا لبرلز کے نزدیک مطلب ہے فوجیوں کی حمایت۔ مطلب یہ ہے سیاسی حکمران لوٹ کھوسٹ کرکے مال بنائیں اور دوبئی، لندن، پانامہ اور سوئٹزرلینڈ میں جائیدادیں کھڑی کر لیں تو پاکستانی لبرلز کے نزدیک اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ اگر آپ نے ایک حرف بھی ان کے خلاف کہہ دیا تو سمجھو آپ ایجنٹ ہو گئے۔
یہ پاکستان کے لبرلز کا ایسا چہرہ ہے جس سے گھن آتی ہے۔ کیا سب لبرل کرائے پر دستیاب ہیں؟ بعض انگریزی ایڈیٹورل پڑھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ آیا پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ ہی اس ملک میں احتساب کا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے؟ سب لبرلز مل کر ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف کو کچھ ہوا تو خدانخواستہ پاکستان نہیں رہے گا۔
پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس پڑھی لکھی کلاس کے دم سے ہی انسانی آزادیوں پر بات ہو جاتی ہے‘ ورنہ پتا نہیں کیا ہو؟ اب پتہ چلا یہ تو کرائے پر دستیاب ہیں۔ جس کی جیب میں مال ہے، وہ ان سے اپنے گن گنوا لے۔ گیت لکھوا لے۔ یہ کلاس ہر طبقہ میں گھس گئی ہے۔ بعض حلقوں کے جگادری بھی اب لبرلز کے گاڈ فادر ہیں جو سپریم کورٹ اور ججوں کو ملنے والی دھمکیوں پر چپ رہے کیونکہ ان کے خیال میں ایک جمہوری ملک میں وزیر اعظم کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم ایک سال قومی اسمبلی‘ سینیٹ نہ جائے، ہائوس کا کورم پورا نہ ہو‘ ان لبرلز کو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر کوئی وزیر اعظم نواز شریف پر انگلی کھڑی کر دے تو طوفان آجائے گا۔
میرا خیال تھا پاکستان میں لبرلزم کی آواز مضبوط ہوگی۔ یہ اپنے مفادات سے ہٹ کر سب کے لئے آواز اٹھائیں گے‘ چاہے وہ داجل (راجن پور) میں چودہ سو لوگوں پر پولیس کا وحشیانہ تشدد ہو‘ ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کا قتل عام ہو یا پھر ملک کا وزیر اعظم اور ان کاخاندان پانامہ کیس میں سرعام پھنس جائے۔
میں غلط تھا۔ یہ میرے لبرل دراصل لبرل نہیں بلکہ کرائے پر دستاب بھاڑے کے وہ ٹٹو بن گئے ہیں جو ذاتی مفادات کے لیے لڑتے ہیں ۔ یہی دو نمبر لبرل جنرل مشرف کے نعرے مارتے تھے اور اس کی روشن خیالی بیچتے نہیں تھکتے تھے۔ اس وقت یہ نواز شریف کو خلیفہ بننے کے طعنے دیتے تھے کہ وہ مولوی ہے جو جنرل ضیا کا مشن پورا کرنا چاہتاہے۔ آج وہی لبرل کلاس نواز شریف کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وقت بدلنے دیں‘ یہ مستقبل کے حکمرانوں کے بھی قیصدے لکھیں اور پڑھیں گے۔
حیران ہوتا ہوں‘ بیرون ملک یونیورسٹیوں سے پڑھ کر بھی یہ لوگ لبرل بنے تو کیسے؟ دو نمبر۔ لبرل وہ لوگ تھے جو نیویارک میں ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہو گئے تھے جب انہیں پتہ چلا کہ چند مسلمانوں کو ایئرپورٹ پر ٹرمپ آرڈر کے بعد روک لیا گیا ہے۔ انہیں کسی کے مذہب، رنگ، نسل سے کوئی غرض نہیں تھی۔ غرض تھی تو اپنے نظریات اور ان کے لیے باہر نکل کر اپنے جیسے انسانوں کے لیے کھڑے ہونے کی۔ کسی نے نہ کہا کہ ٹرمپ کے خلاف سازش ہو رہی ہے‘ یا امریکی جمہوریت تباہ ہو جائے گی۔
کیا کیا لطیفے اس ملک میں ہوتے ہیں۔ اب نیا دردناک لطفیہ یہ ہے کہ جو لبرل بعض گروپس پر کرائے کے لیے دستیاب ہونے کا الزام لگاتے تھے وہ اب خود کرائے پر دستیاب ہیں۔ ان لبرلز کی لوٹ سیل دیکھ کر اپنا گائوں یاد آ گیا جہاں کبھی کبھی یہ آواز لگتی تھی: پہانڈے (برتن) قلعی کرا لو۔ 
ویلکم ٹو لبرل پاکستان! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved