تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     21-06-2017

یادش بخیر، افتخار چودھری صاحب

ایک عوامی تحریک کے زور پر بحال ہو کر افتخارِ عدلیہ کا خطاب پانے والے قاضی القضاۃ جسٹس افتخار چودھری کے دل میں حکومت کی تمنا چٹکیاں لینے لگی تو انہوں نے ہر ریاستی دستار کو عدل کی ٹھوکر پر رکھ لیا۔ وہ جو منتخب ہو کر معزز ہوئے تھے، کورٹ روم نمبر ایک میں لرزتے ہوئے جاتے اور کانپتے ہوئے نکلتے۔ ان کی بارگاہ میں پیش ہونے والا ہر سرکاری افسر باہر نکلتا تو کئی دن لوگوں کو منہ نہ دکھا پاتا کہ اس کے ساتھ روا رکھا جانے والا اہانت آمیز سلوک ٹی وی اسکرینوں سے گزر کر ہر گھر کے آنگن میں اتر جاتا اور اگلے دن کے اخباروں میں جزئیات کے ساتھ چھپ کر اس کی دل سوزی کا سامان کر دیتا۔ پاکستان کا دستور اور اس کے تابع عہدیدار جب ان کی انا کی تسکین نہ کر سکے تو انہوں نے قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے بھی ایسا قانونی حیلہ تراش لیا جو آئندہ کئی سالوں تک ملک کے سیاسی نظام کو مستحکم نہیں ہونے دے گا۔ ان کے دور 'انصاف‘ میں جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) جیسی خالصتاً غیر قانونی بدعت ہمارے قانونی نظام میں پروان چڑھی مگر وہ اس کی آبیاری صرف اس لیے کرتے رہے کہ اس طریقے سے ملک میں سول ملٹری تعلقات کا توازن ان کی ذات کے حق میں رہتا تھا۔ افتخاری عدلیہ کے 'دورِ حکومت‘ میں یہ بھی ہوا کہ منتخب وزیر اعظم کا بیٹا بدعنوانی کے الزامات میں پولیس کے ہاتھوں خوار ہو رہا تھا اور خود ان کا بیٹا رشوت کا کاروبار کرنے کے الزام میں انکل شعیب سڈل کے ذریعے باعزت بری ہو رہا تھا۔ عدل و انصاف کے سنگھاسن پر بحالی کے بعد انہوں نے سمجھا تھا کہ وہ عوام جو ان کے لیے سڑکوں پر آئے تھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے گرویدہ ہو چکے ہیں، اس لیے وہ جج نہیں بلکہ خود کو اسی عوامی حمایت کا امین سمجھ کر فیصلے کرتے تھے اور ظاہر ہے ان فیصلوں میں سوائے سیاست کے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ اگر یہ سمجھ لیتے کہ سپریم کورٹ کے جج کی عزت قانون کے نفاذ میں ہے، قانون کی آڑ میں ذاتی پسند یا ناپسند کو تھونپنا نہیں تو گردِ سفر ہو جانے کی بجائے آج بھی مشعلِ راہ ہوتے۔ چند ایک فیصلوں کے بعد ہی جب عوام کو اپنا افتخار شیدائے اقتدار لگنے لگا تو وہ بھی ان کی ریٹائرمنٹ کے دن گننے لگے۔ آخر کو نکلے تو یوں جیسے کعبے سے صنم نکلے تھے؛ آزردہ، شکستہ، درماندہ!
جسٹس افتخار چودھری کی بحالی عدل و انصاف کی بحالی سمجھی گئی تھی مگر واقعات کی رو میں بہہ کر وہ سیاست بذریعہ قانون کی ناخوشگوار روایت ڈال گئے۔ ان کی رخصتی کے بعد خیال تھا کہ اب سیاست کی سیلن سپریم کورٹ کی دیواروں کو بدنما نہیں کرے گی اور ان کے جانشین قانون کے صاف و شیریں چشمے میں پڑے ضد اور انا کے جھاڑ جھنکار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ پاناما کیس کی صورت میں سیاست کا ایک چھوٹا سا بادل بنی گالہ کی بلندی سے اترکر مارگلہ کی ترائی میں واقع سپریم کورٹ پر برسا تو اس کے ہلکے سے نم سے ہی دستور کا خون چوسنے والی بوٹیوں کے جو بیچ افتخار چودھری چھوڑ آئے تھے، پھوٹ پڑے اور در و دیوار سبزے سے اٹ گئے۔ اس بہار میں وہ کیس جسے اعلیٰ ترین عدالت کا رجسٹرار بھی بے کار قرار دے کر رد کرنے پر مجبور تھا، یکایک اتنا معتبر ہوا کہ اس کی سماعت کے لیے خود منصف اعلیٰ نے عدالت سجا لی۔ اس میں پیش کیے جانے والے وہ پرانے اخباری تراشے‘ جن میں پکوڑے رکھ کر بیچے جاتے ہیں، یوں حکمت سے لبریز ہوئے کہ ان کو بنیاد بنا کر نصف ہزار صفحوں کا فیصلہ بھی لکھ ڈالا گیا۔ دارالحکومت کو بند کر دینے کی دھمکی اس کیس میں دی جانے والی سب سے بڑی دلیل تھی اور فلمی ناولوں سے چرائی جانے والی حکمت سب سے بڑی نظیر۔ مدعی وزارت عظمیٰ مانگ رہا تھا اور مدعا علیہ انصاف، کمالِ منصفی ہے کہ دونوں کو ان کا مطلوب نہیں مل سکا۔ مدعی نے جو نہیں مانگا تھا پا لیا یعنی جے آئی ٹی اور اس کے صدقے مدعا علیہ کو اپنے دفاع کے لیے چند دن اور مل گئے۔ 
دستور، قانون، دائرہ سماعت اور منطق کو ایک طرف رکھ کر پاناما کیس کو جسٹس افتخار چودھری کی افتادِ طبع کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ ایک انتہائی اہم نوعیت کا مقدمہ بھی لگتا ہے اور اس پر فیصلہ بھی ضروری۔ فیصلہ بھی ایسا جو ملک کی بنیادیں تک کھود ڈالے۔ یہ تو وقت کا بے رحم پہیہ ہے جس نے آنجناب کی روایات کو کچل کر کچھ کمزور کر دیا ہے، اس لیے جے آئی ٹی وغیرہ کا تکلف در آیا ہے ورنہ موصوف خود موجود ہوتے تو قانون و دستور کا وہ تماشا بناتے جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے تماش بین مہنگے ترین ٹکٹ خرید کر احاطہء عدالت میں آتے اور لذت بھری سسکاریاں آٹھوں پہر اس کے سبزہ زاروں میں سنائی دیتیں۔ ان کے لے پالک صحافی ان کے لیے فقرے تراشتے اور پھر ان کی نشرواشاعت کا بندوبست کرتے، ان کے آموختہ کو دہراتے ہوئے ساتھی منصفوں کی زبانوں کو مہمیز ملتی اور وہ بھی قانونی دلیل کو چست جملوں سے ہی اڑا دیتے۔ ہر روز وزیر اعظم طلب ہوتے اور ان کے سامنے ان کی سیاسی جماعت اور حکومت کو خوار کیا جاتا۔ سپریم کورٹ کا اہلکار صحافیوں کو فون کرکے چیف جسٹس کے لذیذ فقرے یاد دلاتا اور 'قانون کی منشا‘ بھی بتا دیتا جس کے مطابق ٹی وی پروگرام کے سوالات اور اگلے دن کے اخبار میں سرخیوں کا پھیلاؤ بھی معلوم ہو جاتا۔ جب جے آئی ٹی کی تشکیل کا مرحلہ آتا تو اور بھی سماں بندھ جاتا۔ وٹس ایپ کال کا تکلف کرنے کی بجائے عدالتی حکم کے ذریعے اداروں کا ڈسپلن تباہ کرکے پسندیدہ افراد سامنے لائے جاتے اور عین ممکن ہے حسبِ خواہش نتائج کے لیے اساطیری دیانت کے حامل شعیب سڈل ہی اس ٹیم کے سربراہ بنا دیے جاتے۔ تُف ہے، تُف ہے ظالم وقت پر جو پہلے ریٹائرمنٹ لاتا ہے اور موقعے بعد میں!
جسٹس افتخار چودھری قانون نافذ کرنے کے لیے طوفانی طریقہ استعمال کیا کرتے تھے، یعنی وہ طریقہ جس کے ذریعے قانون نافذ ہو نہ ہو طوفان ضرور آ جائے۔ ان کے شاگرد آج بھی اسی طوفانی راستے پر گامزن ہیں۔ اپنی دھن میں مگن وہ طوفان پر طوفان اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ ہر پیشی پر وہ ایک نیا شکار ڈھونڈتے ہیں اور قانون کے احترام کی رسیوں سے اس کی مشکیں کس لیتے ہیں۔ جے آئی ٹی کی چھڑی سے اسے ٹہوکے دیتے ہیں اور قانون کے نام پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ کبھی ہمہ دانی کے شوق میں حدیں پھلانگ جاتے ہیں اور کبھی اپنی طاقت کے زعم میں فیصلے کر ڈالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اپنے استاد کی طرح وہ بھول چکے ہیں کہ ان کی طاقت دستور سے نکلی ہے اور دستور نے عوام کے ارادے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ یہ نکتہ امریکہ کے ایک حکیم تھامس جیفرسن ڈھائی سو برس پہلے اپنے دوست کو ایک خط میں یہ لکھ کر سمجھایا تھا کہ، ''ججوں کے لیے انتظامیہ سے الگ رہنا صائب اور عوام سے الگ رہنا غلطی ہے‘‘۔ افتخار چودھری عوام سے جڑ ے تو جس عدالت سے نکالے گئے تھے وہی عدالت انہیں بحال کرنے پر مجبور ہوگئی اور انہیں نکالنے والا آمر آج در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ جب انہوں نے عوام کی منشاء کے مطابق تشکیل پانے والی حکومتوں کو باندھنا شروع کیا تو پھر عوام نے بھی انہیں فراموش کر دیا۔ اس کا ثبوت یہ کہ انہوں نے قانون کی بندوق سے جنہیں نشانہ بنایا وہ تو آج بھی عوام میں موجود ہیں مگر خود افتخار چودھری تاریخ کی ٹھوکر پر ہیں۔ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے آخرکار اپنے اٹھائے ہوئے طوفان میں ہی بہہ جاتے ہیں، ان کا انجام وہی ہے جو افتخار چودھری کا ہوا یعنی آزردگی، شکستگی، درماندگی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved