تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     21-06-2017

کیوں نہ رہیں پھر جیل میں !

آزادی کی شان میں دنیا کئی زمانوں سے ترانے گاتی، راگ الاپتی آئی ہے۔ ٹیپو سلطان کا مشہور مقولہ ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔ یہ مقولہ آزادی اور غلامی کے فرق کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ آزادی کی قدر و قیمت سے ہم بھی واقف ہیں اور اِس کی قدر کرتے ہیں مگر دل کا کیا کریں صاحب! دل ہے کہ مانتا نہیں۔ ہم ذاتی مشاہدے کی روشنی میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کے سو مزے ہیں تو اسیری کے ایک سو ایک! 
بہت سے پاکستانی جب غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جاتے ہیں تو کبھی کبھی اُن کی چاندی ہو جاتی ہے۔ اگر یورپ کے کسی ملک میں غیر قانونی قیام کے باوجود پکڑے نہ جائیں تو اچھا خاصا کماکر گھر بھیجتے ہیں۔ اور اگر پکڑے جائیں تو وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ جن مزوں کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہو وہ یورپ کی جیل میں میسر ہیں۔ پُرسکون ماحول، اچھا کھانا پینا، پڑھنے لکھنے کی سہولت، مزید تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو اُس کا بھی اہتمام۔ اور اگر کچھ کام کیجیے تو اُس کا معاوضہ جمع ہوتا رہتا ہے۔ جنوبی ایشیا اور دوسرے خطوں کے بہت سے لوگ یورپ میں جب کوئی اور آپشن نہیں پاتے تو چھوٹا موٹا جرم کرکے جیل چلے جاتے ہیں! بس، سارے جھنجھٹ ختم۔ نہ مکان کا کرایا دینا ہے نہ زندہ رہنے کے لیے کچھ کرنا ہے یعنی کام پر جانا ہے۔ جیل میں متعلقہ قواعد کے تحت رہیے اور پُرسکون زندگی کے مزے لوٹتے رہیے۔ 
مگر صاحب، یورپ کی جیلوں میں بھی کتنی اور کیا سہولتیں ہوتی ہوں گی۔ دو دن قبل رینجرز نے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اشتراکِ عمل سے سینٹرل جیل کراچی میں سرچ اینڈ سوئیپ آپریشن کیا تو اہلِ وطن کو معلوم ہوا کہ ہماری جیلیں سہولتوں اور آسائشوں کے خزانے سے کسی طور کم نہیں۔ جگر تھام کر بیٹھیے کہ اب اُس سامان کی فہرست پیش کی جاتی ہے جو قانون نافذ کرنے والوں نے سرچ اینڈ سوئیپ آپریشن کے دوران سینٹرل جیل کراچی سے برآمد کیا۔ 995 بریکٹ فین، 449 ٹی وی سیٹ، 163 ایل سی ڈیز اور ایل ای ڈیز، 102 موبائل فون سیٹ، 18 ڈیپ فریزر، 31 واٹر ڈسپینسر، 10 غیر قانونی کچن، 150 ایل پی جی سلنڈر، 82 لاؤڈ اسپیکر، 22 ہیٹر، 30 کمبل، 10 قینچیاں، مختلف برانڈز کے سگریٹ کے 400 پیکٹ، مختلف اقسام کی 45 چھریاں اور چاقو، 45 میموری کارڈ، 50 ریموٹ کنٹرول، 36 لاکھ روپے اور منشیات۔ 
اُف خدایا! جیل کی زندگی میں اِتنے مزے! ہم ایک آزاد وطن کے آزاد شہری ہیں۔ اِس آزاد وطن کے چند باشندے، اپنی ''خوشی‘‘ سے، جیل جانا پسند کرتے ہیں اور وہاں سے باہر آنا پسند نہیں کرتے۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ جیل جانا کوئی اچھا تجربہ تو نہیں ہوتا پھر لوگ کیوں وہاں رہنے پر بضد رہتے ہیں۔ اب ہم پر کُھلا کہ جیل میں ایسے مزے ہیں کہ وہاں رہنے والے ہم باہر والوں کو دیکھ کر ضرور سوچتے ہوں گے ع 
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں 
جیل کو اہلِ وطن اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور جیل جانے والوں کو تو اور بھی بُرا سمجھا جاتا ہے۔ بھلا قانون نافذ کرنے والوں کا کہ اُنہوں نے عوام کی آنکھوں پر پڑی ہوئی پٹّی کھول دی اور اُنہیں یہ جاننے کا موقع فراہم کیا کہ ملک جن مزوں سے محروم ہے وہ کہیں گئے نہیں، اپنی ہی سرزمین پر قائم جیلوں میں سماگئے ہیں! کسی نے روکا تھوڑی ہے۔ عوام اگر مزے کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو کہیں اور نہ جائیں، کسی نہ کسی طرح جیل آجائیں اور زندگی کے سارے دُکھوں سے بے نیاز ہوجائیں! 
کتب خانے اور مسجد کی بھی تلاشی لی گئی۔ معلوم ہوا کہ کتابیں منشیات اور موبائل فون چھپانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں! یقین کیجیے، یہ جان کر دل کو تھوڑی سی خوش ہی ہوئی۔ جس ملک میں عوام کے نزدیک کتابوں کا اب کوئی مصرف نہیں وہاں اگر کتابیں، جیل ہی میں سہی، کسی کام آرہی ہیں تو دل کو خوشی ہی ہونی چاہیے! کتابوں میں منشیات رکھنے والی بات پڑھ کر ہم نے ''چشمِ تصوّر کی آنکھ‘‘ سے دیکھا کہ ہمارے کالموں کا مجموعہ جیل کے کتب خانے میں رکھا ہے اور اُس میں ہیروئن چھپائی گئی ہے! اس میں کیا ہرج ہے؟ ہم آج تک ہیرو نہیں بن سکے یعنی ہمیں کوئی ہیروئن نصیب نہیں ہوسکی۔ اچھا ہے ہمارے کالموں کے مجموعے ہی کو ہیروئن کا ساتھ نصیب ہوجائے! 
رینجرز کے سیکٹر کمانڈر شاہد جاوید نے بتایا کہ اس قسم کا سرچ اینڈ سوئیپ آپریشن 25 سال بعد کیا گیا ہے۔ آپ بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ربع صدی میں ہماری ایک جیل نے کس قدر ''ترقی‘‘ کی ہے! رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے یہ آپریشن کسی نہ کسی منطق کے تحت ضرور کیا ہوگا مگر ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک بڑی جیل کی ترقی اُنہیں اچھی نہیں لگی اور اُنہوں نے ٹانگ اَڑا دی! کیا ہی اچھا ہو کہ جیلوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ ملک میں اور کہیں تو ترقی کچھ خاص دکھائی نہیں دیتی۔ ایسے میں اگر جیلیں ترقی کر جائیں تو ہم فخر سے سَر بلند کرکے عالمی برادری کو بتاسکیں گے ع 
دیکھیں اِس طرح سے کہتے ہیں سُخنور سہرا 
ہم نے جب اور بہت سے معاملات میں نئے تصورات متعارف کرائے ہیں تو پھر پُرتعیّش جیلیں متعارف کرانے میں کیا ہرج ہے؟ اچھا ہے دنیا کو بھی تو کچھ معلوم ہو کہ جس ملک کے قیدی مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں اُس ملک کے آزاد شہری موقع ملنے پر کیا نہیں کر گزریں گے! 
سینٹرل جیل کراچی نے تو ہمیں مخمصے میں ڈال دیا۔ کہنے کو ہم بھی آزاد ہیں مگر پیروں میں سو زنجیریں پڑی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یونہی آزادی کی فضاء میں کالم نگاری کرتے رہیں یا جیل جاکر زیادہ سُکون سے کوئی کتاب لکھنا شروع کریں! اِس زندگی میں سو جھمیلے ہیں۔ طرح طرح کے بکھیڑوں میں الجھ کر ہم زندگی کو ضائع کرتے رہنے پر مجبور ہیں۔ ؎ 
صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے 
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے 
سامان کی فہرست پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیل سے زیادہ پُرسکون جگہ شاید ہی کوئی ہو۔ ترقی و خوش حالی کا نیا تصور اور نیا مفہوم متعارف کرانے پر سینٹرل جیل کراچی کا شکریہ۔ اگر قانون نافذ کرنے والوں نے دخل در معقولات کا ارتکاب نہ کیا اور ترقی کی یہی رفتار برقرار رہی تو ہمیں امید ہے کہ 25 سال بعد سینٹرل جیل کراچی سے چاند اور مِرّیخ کے لیے مشن روانہ کیے جارہے ہوں گے!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved