حکمرانوں کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی اور پانی کی لوڈشیڈنگ نہیں امن ومان نہیں‘ مہنگائی کا طوفان نہیں بلکہ صرف تصویر لیکس ہے ۔ ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت دانشوروں کا گروہ کہتا پھر رہا تھا'' ڈان لیکس بھی کوئی ایشو ہے ہر ایک کو خبر دینے کی آزادی ہے اور اس خبر میں جھوٹ کیا ہے۔ آج یہی گروہ تصویر لیکس کا نام لے لے کر اسے ملکی سلامتی سے بھی بڑا مسئلہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ تک لے گیا ۔ہے شائد ان کے نزدیک اس تصویر کی اشاعت ملکی سلامتی سے کہیں زیا دہ اہم ہے ۔لندن کی فضائوں میں رہنے والے کیا نہیں جانتے کہ ملکہ برطانیہ کے خاندان کی وہ کونسی تصویر ہے جو شائع نہیں ہوئی؟۔
میاں محمد نواز شریف15 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر باہر آئے تو انہوں نے کہا ''ایک تویہ جے آئی ٹی ہے لیکن اس سے بڑی ایک جے آئی ٹی اور بھی ہے ‘‘۔۔۔۔ خیال تھا کہ اب وہ اس ذات باری کا ذکر کریں گے جس کے پاس ہم سب کو ایک دن پیش ہونا ہے جہاں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ اس طرح ہو گا کہ کوئی کسی سے کچھ بھی چھپا نہ سکے گا۔ وہاں جھوٹے، ظالم اور گناہگار لوگ اس طرح اپنی برہنگی چھپاتے پھریں گے کہ انہیںکہیں کوئی جائے پناہ نہ مل سکے گی۔۔۔ ایک مسلمان کی نظر میں سب سے بڑی جے آئی ٹی روزمحشر ہے جس کا رب کریم نے وعدہ کیا ہوا ہے جہاں سب کا شفاف ترین احتساب ہو گا وہاں کوئی کسی کی سفارش نہیں کر سکے گا۔ یہ کارخانے پلازے‘ سونا چاندی ‘ ہیرے جواہرات کے ڈھیر، محلات اور بنگلے بڑی بڑی گاڑیوں سے بھرے گیراج، ہوائی جہازوں کے فلیٹ اور سمندری جہازوں کے بیڑے کسی کام نہ آ سکیں گے۔ وہاں وہی کاٹنا پڑے گا جو دنیا میں بو کر آئے ہیں‘لیکن اس وقت سخت حیرانی ہوئی جب میاں نواز شریف نے اﷲ کی عدالت کی بجائے عوام کے ووٹوں اورانتخابات کو سب سے بڑی جے آئی ٹی قرار دے دیا۔
خطاب پہلے سے تیار کردہ تھا اس لئے یہ تو کہا ہی نہیں جا سکتا کہ کوئی لفظ ان کی زبان سے نادانستہ ادا ہو گئے ہوں گے اس لئے یہ توجیہہ پیش نہیں کی جا سکتی کہ ان کے الفاظ اور لہجے کے تاثرات کی وجہ تین گھنٹے تک جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے دوران ان سے پوچھے جانے والے سوالات تھے اور ان کے ادا کئے جانے والے ایک ایک لفظ کا چنائو کچھ اور ہی بتا رہا تھا یہ کسی المیہ سے کم نہیں جب ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی ریاستی اداروں کی عظمت و تو قیر کی بے حرمتی پر تل جائے؟۔ جے آئی ٹی کے باہر رکھے گئے ڈائس پر آتے ہی میاں نواز شریف کی باڈی لینگوئیج سے ثابت ہو رہا تھا کہ وزیر اعظم ہائوس کھل کر ملکی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کیلئے تیار ہو چکا ۔ یہ بات اب پوشیدہ نہیں رہی کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے '' کٹی‘‘ بہت دور تک جا چکی ہے جس کے اثرات شریف خاندان تک پہنچ چکے ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اسحاق ڈار اور میاں نواز شریف ایک دوسرے کے سمدھی ہیں لیکن میاں شہباز شریف نے حفیظ پاشاکی بیگم کو پنجاب کا وزیر خزانہ بنا رکھا ہے جو اپنے ہر آرٹیکل اورسیمینار میں ہونے والی اپنی تقریروں اور ٹی وی ٹاکس میں اسحاق ڈار کی مالیتی پالیسیوں اور
وزارت کو ناکام ترین کارکردگی سے تشبیہ دیتی رہتی ہیں ۔اندازہ کیجئے کہ کہاں حفیظ پاشا اورکہاں اسحاق ڈار جو وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے سب سے قریبی ہیں ۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ مذکورہ وفاقی وزیر کا بجلی کے مسئلے پر میاں شہباز شریف سے ساہیوال کول پاور اور نندی پور سے لے کر نیلم جہلم تک کا پھڈا بہت ہی پرانا ہے اس لئے میاں شہباز تو خاموش رہے لیکن ان کے نوجوا ن بیٹے نے وفاقی وزیرکی اس حرکت پر سخت غصے کا اظہار کیا۔وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن معاملہ آگے بڑھنے سے روک دیا گیا لیکن وفاقی وزیر کا یہ جملہ پہلے سے موجو د خلیج کو بہت وسیع کر گیا ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پہلے سے لکھی گئی تقریر میں ملکی اداروں پر کہیں کھلے تو کہیں ڈھکے چھپے انداز میں جو الزامات لگا سکتے تھے انہوں نے وہ لگا دیئے ہیں اور یہ الزامات ایسے نہیں کہ کسی کی سمجھ میں نہ آئے ہوں۔۔۔لیکن ان کی اس تقریر سے مسلم لیگ نواز کے وہ لوگ جو کل تک سمجھے بیٹھے تھے کہ ہمیشہ کی طرح یہ معاملہ بھی حل ہو جائے گا کیونکہ کس کی طاقت ہے کہ دونوں بھائیوں کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے سامنے ماڈل ٹائون کی جے آئی ٹی ہو، اسلام آباد کا دھرنا اور پھر '' ڈان لیکس‘‘ کی صورت میں اٹھنے والا طوفان ہو جو فوج کے معافی نامے پر تحلیل ہوا۔۔۔۔ لیکن اس تقریر کے بعد مسلم لیگ نواز کے حلقوں میں ایک ایک عجب سی سراسیمگی د یکھنے میں آ رہی ہے اور بہت سے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی اب ہم جیسوں سے بھی پوچھنا شروع ہو گئے ہیں کہ معا ملات وہ نہیں جو ہمیں بتائے جا رہے تھے۔ اس بے چینی کے اثرات جلد ہی آپ کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں دیکھنے کو ملیں گے۔
پندرہ جون سے پہلے پرویز رشید اور طارق فاطمی ڈان لیکس کے معاملے پر قومی سلامتی سے متعلق سکیورٹی رسک قرار دیئے گئے ۔دونوں اصحاب کی تصاویر اور موجود گی کو وزیر اعظم ہائوس سے سرکاری طور پر جاری کی جانے والی تصاویر میں کھل کر نہیں دکھایا جاتا تھا ‘ما سوائے پرویز رشید کے جب بیس اپریل کو پاناما کا فیصلہ سنایا گیا ۔پندرہ جون کو وزیر اعظم نے تمام پردے اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے ان دونوں کو اپنے دائیں بائیں کھڑا کرتے ہوئے کچھ طاقتوں کو پیغام دے دیا ہے کہ کر لو جو کرنا ہے‘‘۔!!