تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-06-2017

Mama loves you

نفسیات کی دنیا کا لیجنڈ ،پروفیسر عادل ضمیر۔ ملک کی ایک بڑی یونیورسٹی میں شعبہ ء نفسیات کے سربراہ ،ہزاروں مریضوں نے ان سے استفادہ کیا تھا ۔اس کے باوجود پروفیسر کی شخصیت کا تضاد بہت حیران کن تھا۔ وہ خود نفسیات کا ایک بہت بڑا کیس تھا۔ وہ جذبات سے محروم تھا۔ اس کی آواز، حرکات و سکنات ، ہر شے جذبات سے عاری تھی ۔نئے آنے والے طالبِ علموں کو پہلا لیکچر وہ اپنی ہی ذات پر دیا کرتا ۔اس کے پاس چھپانے کو کچھ تھا ہی نہیں ۔ وہ بتاتا کہ اس کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اس کا باپ مر گیا تھا۔ ماں اس وقت مری ، جب وہ 13برس کا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ ماں نے اسے ایک آیا کے حوالے کر رکھا تھا۔وہ اسے کپڑے تبدیل کراتی ، وہی کھانا کھلاتی ۔ ماں یا تو اپنے کمرے میں بند رہتی یا وہ گھر سے باہر چلی جاتی ۔ عادل ضمیر سے بات کرنا پڑ ہی جاتی تووہ سپاٹ لہجے میں بات کرتی '' عادل صاحب، کھانا کھا لیا آپ نے ؟کیا کہا ، نہیں ؟ شائستہ عادل صاحب کو کھانا کھلا دو ‘‘۔''شائستہ عادل صاحب نیچے کیوں بیٹھے ہیں ، انہیں ان کے کمرے میں چھوڑ آئو ‘‘ ۔ اسے وہ ''عادل صاحب‘‘کہا کرتی۔ سکول میں دوسرے بچوں کی مائیں انہیں چھوڑنے آتیں ۔ ان سے لپٹ کر وہ پیار کرتے تو ننھا عادل حیران پریشان یہ سب دیکھتا رہتا۔ '' لیکن جیسا کہ انسانی دماغ خصوصی چیلنج سے نمٹنے کے لیے خصوصی تدابیر اختیار کرتا ہے ، وہی میرے دماغ نے بھی کیا‘‘ پروفیسر عادل نے بتایا کہ اس کے ننھے سے دماغ نے خودبخود ہی جذبات سے عاری ہونا شروع کر دیا۔
اس کے علاوہ اس کہانی میں کچھ بھی نہ تھا ۔ لڑکا13برس کا تھا ، جب اس کی ماں بیمار ہو کے مر گئی۔جائیداد کافی تھی اور اسے سنبھالنے والے ایماندار ۔ وہ پڑھ لکھ گیا۔ نفسیات کے شعبے میں ملک کا ایک بڑا نام بنا لیکن اس کے دماغ میں جذبات والا خانہ جیسے ختم ہو چکا تھا ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ایک برا انسان تھا ۔ اپنی محرومی کا بدلہ اس نے کسی اور سے نہ لیا۔ طالبِ علموں کو وہ بتایا کرتا کہ جذبات سے محرومی ایک بڑی نعمت ہے ۔ ہر قسم کی جذباتی کشمکش سے انسان بچ جاتا ہے ۔
1983ء کے موسمِ بہار میں ، پہلی بار فورتھ ائیر کے چندطلبہ نے ہمت سے کام لیا۔ اپنے فائنل پراجیکٹ کے لیے انہوں نے پروفیسر عادل ضمیر کی شخصیت کا انتخاب کیا۔ پروفیسر کی ماں کے رویے اور پروفیسر کی شخصیت پر اس کے اثرات پر انہیں تھیسز لکھنا تھا۔ عادل ضمیر کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔اس نے ان طلبہ کو کچھ روز اپنے گھر میں گزارنے کی اجازت دی ۔پینتالیس برس سے پروفیسر کی والدہ کا کمرہ بند پڑا تھا۔ اپنی ماں کی زندگی میں شاید ہی کبھی وہ اس کمرے میں داخل ہوا ہو۔ جب وہ فوت ہوئی ، تب تک پروفیسر کی اپنی ماں اور اس سے وابستہ ہر چیز میں دلچسپی ختم ہو چکی تھی ۔ طلبہ میں جوش و خروش پایا جاتا تھا کہ وہ ایک منفرد کیس پر کام کرنے جا رہے ہیں ۔ شاید ان کی حوصلہ افزائی ہی کے لیے پروفیسر ان کی مدد کر رہا تھا۔ 
دروازے کے قفل توڑ دئیے گئے ۔اندر ہر شے سلیقے سے اپنی جگہ پر موجود تھی ۔ کھڑکیوں میں ایسا شیشہ لگا تھا، جن میں اندر سے باہر صاف نظر آتا تھالیکن باہر سے اندر نہیں ۔سنگھار میز پر پرفیوم کی کئی شیشیاں دھری تھیں ۔ پروفیسر کی اجازت سے ایک طالبہ نے باری باری انہیں سپرے کیااور سب نے سونگھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پروفیسر کی ماں ایک بے حد نفیس عورت تھی ۔ الماری کا قفل بھی توڑ دیا گیا ۔ وہاں کچھ زیورات دھرے تھے ۔وہاں موجود دو طالبات نہایت دلچسپی سے پینتالیس برس پرانے ڈیزائن کا جائزہ لینے لگیں ۔ کن انکھیوں سے وہ سب پروفیسر کو دیکھ رہے تھے ۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ 
الماری کے اندر ایک ایک خانے کو الگ سے قفل لگا ئے گئے تھے ۔ ان سب کو توڑ دیا گیا۔ وہاں میڈیکل سے متعلقہ دو دو بڑی بڑی فائلیں پڑی تھیں ۔ ایک ہڈیوں اور جوڑوں سے متعلق اور دوسری میں امراضِ گردہ سے متعلق ایک ڈاکٹر کے نسخے درج تھے ۔ نسخوں کی تاریخیں دس سال پہ محیط تھیں ۔ ان دونوں فائلوں پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوا کہ پروفیسر کی ماں گنٹھیا کا شکار تھی اور اس کے گردے بھی ناکارہ ہو چکے تھے ۔ہفتے میں تین روز اس کے خون کی صفائی (Dialysis)کی جارہی تھی ۔ عادل ضمیر کے طلبہ کا تعلق میڈیکل ہی سے تھا ۔ ان پر بخوبی ظاہر ہو چکا تھا کہ پروفیسر کی ماں آہستہ آہستہ موت کی طرف بڑھ رہی تھی ۔حیران پریشان ، پروفیسر نے بتایا کہ اس کی ماں نے اپنی بیماری کبھی اس پہ ظاہر نہ کی۔ 
آخری چیز وہاں موجود ایک ذاتی ڈائری تھی ۔ اس کے صرف دو ورق استعمال ہوئے تھے۔ پہلے صفحے پہ پروفیسر کی ماں لکھتی ہے '' میری محنت رنگ لائی ہے ۔ عادل اب میرے بغیر رہنے کا عادی ہو گیا ہے ۔یوں میری موت سے اسے کوئی دھچکا نہیں لگے گا۔ جاوید حسین صاحب مالی معاملات کی دیکھ بھال کریں گے ۔ اپنے بیٹے کو اب میں خدا کے سپرد کرتی ہوں ۔ ‘‘ دوسرے صفحے پر لکھا تھا "Adil, my sweatheart, mama loves you"۔ 
پروفیسر کے چہرے پر ایک رنگ آر ہا تھا ،دوسرا جا رہا تھا ۔ اس نے کہا ''مجھے یاد پڑتا ہے ، جب میں صبح نیند سے اٹھا کرتا تو میرے بستر پرماما کے پرفیوم کی خوشبو ہوتی ۔ اچھا! توجب میں سو جاتا ،تب وہ مجھے پیار کیا کرتیں ؟ ‘‘ اس نے کہا''اس شیشے سے بھی وہ مجھے دیکھتی ہوں گی، جس میں باہر سے اندر دیکھا نہیں جا سکتا؟ ‘‘ پھر اس نے بتایا '' جب میں سکول جانے کے لیے گھر سے باہر نکلتا تو وہ چھت پر کھڑی ہوتیں ۔ جب بھی میں ان کی طرف دیکھتا تووہ دوسری طرف دیکھ رہی ہوتیں لیکن کیا چوری چوری وہ مجھے دیکھا کرتی تھیں ؟ ‘‘ طلبہ نے دیکھا کہ پروفیسر کا چہرہ خوشی اور فخر سے جگمگا رہا تھا ۔ اس نے کہا '' میری ماں ایک عظیم عورت تھی۔ وہ مجھے اپنی موت کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی۔ کاش وہ مجھے بتا دیتی لیکن کیسے بتا دیتی ؟ اس عمر میں ، یہ بات میں کیسے سمجھ سکتا تھا۔‘ ‘وہ خاموش ہوا لیکن پھر بولنے لگا '' اچھا تو وہ خون صاف کرانے جایا کرتی تھیں ؟‘‘ 
وہ خود کلامی کر تا رہا،آنسو پونچھتا رہا۔ طلبہ حیرت سے مٹی کے اس مجسمے کو دیکھ رہے تھے، نصف صدی کے بعد جس نے جذبات کا ذائقہ چکھا تھا۔ ماں کی محبت پا کر، عدم جذباتیت کا اپنا فلسفہ بھی اس نے بھلا دیا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved