تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-06-2017

گدھے اور گھوڑے

خدا کے بندے ہوتے ہیں اور درہم و دینار کے بھی۔اب ایسا گدھے اور گھوڑے کا فرق جو نہ پہچانے اسے کیا کہا کہیے ؟ 
تحریک انصاف میں جذباتیت کا عنصر یقینا زیادہ ہے ۔ یہ عمران خان کا روّیہ ہے ۔ اپنے لیڈر کی تقلید میں ان کے حامی بدگمانی اور خوش گمانی پالتے ہیں۔ حقیقت پسندی کم ہے‘ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ۔ مثلاً اس طرح کے تحریری پیغامات مجھے ملتے ہیں :تم پہ اب غیر جانبداری کا خبط سوار ہے ۔ یہ بھی کہ اس وقت جب ہم کرپشن کے خلاف مورچہ زن ہیں۔ مدد کرنے کی بجائے تم کیڑے ڈالتے ہو۔
برسوں تک ڈٹ کر عمران خان کی حمایت کی ۔ 1995 ء سے 2011 تک ، سولہ برس تک تن تنہا ۔ میڈیا میں جب اتفاق رائے تھا، عمران خان کبھی لیڈر نہ بن سکے گا۔ 2013 ء میں جب انہیں ٹکٹیں بانٹے دیکھا تو ملال ہوا کہ کوئی ڈیٹا ہی موجود نہ تھا ۔ کیسے ہوتا کہ کوئی نظام کار ہی نہ تھا۔ عمران خان کے سامنے دو چیزیں تھیں۔ ایک تواردگرد کے لوگوں کی سفارش ، اکثر جن میں سے مخلص نہ تھے ۔ ذاتی تعلقات یا مفاد‘ جن کی ترجیح تھا۔ ثانیاً زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو کھپایا جائے۔ 45 برس کی عمر کا اگر کوئی امیدوار تھاتو وہ سوال کرتا کہ کیا کوئی کم عمر موجود نہیں؟۔ مغالطے کا وہ شکار تھا کہ ووٹ فقط اس کے نام پر پڑیں گے ۔ یہ بھی کہ اکثریت کی حمایت اسے حاصل ہے ۔
مقبول وہ ضرور تھا مگر اکثریت کی حمایت کا حامل نہیں۔ 30 اکتوبر 2011 ء کو لاہور کے تاریخی جلسہ عام کے بعد ، اگر ایک موزوں اور مربوط حکمت عملی اختیار کی ہوتی تو یہ ممکن تھا۔جائزوں کے مطابق جب تحریک انصاف ملک کی مقبول ترین پارٹی بن کر ابھری تھی۔ یہ قیمتی وقت ضائع کر دیا گیا ۔دو باتیں پارٹی لیڈروں سے میں کہتا رہا۔ ایک تو یہ کہ ٹکٹ بروقت دیئے جائیں۔ کم از کم ان لوگوں کو حلقے میں ، جن کا کوئی مدّمقابل نہیں۔ امیدوار کو ایک سال کی مہلت مل جائے تووہ ہر مشکل آسان بنا سکتا ہے۔ مجھے اصرار تھا کہ قائداعظم کے انداز کار کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ پارلیمانی بورڈوں کو بڑی اہمیت وہ دیتے تھے ۔ ان میں بہت جاں سوزی کی جاتی۔ جیسا کہ منیر احمد منیر نے لکھا ہے ‘مقامی دھڑے بندیوں کا مسئلہ انہیں بھی درپیش ر ہتا، جسے وہ ریاضت ، تحمل اور تدبیر سے نمٹاتے۔
ترکوں کے تجربے کا حوالہ بھی بار بار دیا، قوم کے اجتماعی مزاج کو ، جنہوں نے ملحوظ رکھا۔ تنظیم پر توجہ دی اور عام آدمی سے جڑی رہی۔ استنبول کے بلدیاتی انتخابا ت سے لے کر عام الیکشن تک ، معاشرے کے کمزور طبقات کو ترجیح دی۔ قومی خود داری کی حفاظت کی اور کامرانی کے بعد معیشت استوار کرنے پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ ان کا ہر امیدوار یا اس کے کارکن پانچ بار ووٹر کا دروازہ کھٹکھٹایا کرتے۔سیاست فقط نعرہ بازی کا نام نہیں۔ مرحلہ وار حکمت عملی اور خون پسینہ ایک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ صورت حال پہلے سے اب بہتر ہے‘ دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں مگر حال اب بھی پتلا ہے ۔ تحریک انصاف کا میڈیا سیل شاید تمام قابل ذکر جماعتوں سے کمزور ہے۔ بعض لوگوں کو شاید اس پر حیرت ہو کہ ان کی طرف سے ، کبھی ایک ٹیلی فون‘ اس اخبار نویس کو کبھی موصول نہیں ہوا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ آخر کیوں؟ اس سوال کو کوئی جواب نہیں ملتا۔
کبھی ترتیب اور سلیقہ مندی کے ساتھ کام انہوں نے کیا ہی نہیں۔ ایسا نہیں کہ عمران خان میڈیا کی اہمیت سے واقف نہ ہوں۔ ایک کھلاڑی کی حیثیت سے ، برطانوی اخبار نویسوں سے ان کا واسطہ رہا۔ آسٹریلیا کے ایک اخبار کے لئے ، کرکٹ پروہ لکھا بھی کرتے ۔ بعض اوقات برطانوی پریس کے لئے بھی، کرکٹ کے سوا بھی ۔ اکتوبر 2005 ء میں کشمیر اور پختون خوا کے زلزلے پر ایک مضمون وہ لکھ رہے تھے ۔قدرے ہیجان کے ساتھ کہ بروقت مکمل کرسکیں۔ پوچھا : کتنے روپے ملیں گے ؟ بولے ، ایک ہزار پائونڈ۔ ملازموں کی ایک ماہ کی تنخواہیں ادا ہو جائیں گی۔ لاہور کے ایک انگریزی اخبار کے لئے بھی۔ یاد ہے کہ ایک سیریز کیلئے غالباً دو لاکھ روپے وصول کئے تھے ۔
کھلاڑی کے طور پر مقبولیت اسے جلد ملی اور بے پناہ ۔ برطانوی اخبار نویس بہت اہمیت اسے دیا کرتے ۔بعض سے اس کی دوستی ہوگئی ۔ایک عشرہ قبل الطاف حسین کے خلاف ، اس کی مہم میں ، انہوں نے خان کی مدد کی۔ یہ الگ بات کہ برطانوی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی کارندے کی حفاظت پر تلی تھی۔ 
تحریک انصاف کے دفتر میں تنظیم اور ترتیب کار فرما نہیں۔ ذمہ داریوں کا تعین خان خود کرتا ہے ۔ لجاجت کے ساتھ کرنے والوں کی درخواست قبول کر لی جاتی ہے ۔ نالائقی ، خود غرضی اور بے وفائی کرنے والے اکثر بچ نکلتے ہیں۔ ایک بار تفصیل سے ، میں نے اس کے ساتھ بات کی کہ مرکزی دفتر کو ایک بااختیار منتظم کی ضرورت ہے ۔ '' چیف آف جنرل سٹاف ‘‘ قسم کے آدمی کی ۔ ایک نام بھی میں نے تجویز کیا ۔ ڈاکٹر شعیب سڈل جیسا ایک آدمی کہ جس کام میں وہ ہاتھ ڈالتے ہیں ، بروقت اور بہترین انداز میں تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ یہ الزام مضحکہ خیز ہے کہ ارسلان افتخار کو انہوں نے بری کر دیا تھا۔ بالکل برعکس انہوں نے اسے 5 کروڑ روپے ٹیکس چوری کرنے کا مرتکب ٹھہرایا تھا۔ سپریم کورٹ نے معاملے کو ٹال دیا۔
پاکستانی میڈیا بہت پھیل گیا ہے۔ اس کا اپنا مزاج ہے۔ اخبار نویس یوں بھی انفرادیت پسند ہوتے ہیں۔ ہر آدمی کو الگ سے دیکھنا پڑتا ہے ۔ محض اختلاف یا تنقید کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کا مخالف ہے یا کرائے کا کارندہ ۔ سر راہے یہ کہ بھاڑے کے ٹٹو، کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آزاد اخبار نویسوں سے بدگمانی مگر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اکثر وہ کسی قدر اناگیر ہوتے ہیں۔ نصرت جاوید ایک مثال ہے ۔ خیالات الگ ، کم ہی اس سے اتفاق ہوتا ہے مگر ہم اسے دیانت دار پاتے ہیں، ایسا کہ مقبولیت کی پروا بھی نہیں کرتا۔ آج کل کچھ اور آزاد اخبار نویسوں بھی تحریک انصاف والے برہم ہیں ۔انہیں وہ ''لفافی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بالکل ناروا ہے ۔ لفافے والوں کو لوگ پہچانتے ہیں۔ تنقید بلا جواز ہوسکتی ہے پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی بات نہ سننے پر ناراض ہو یا کارکنوں کی طعنہ زنی پر‘ مگر ''لفافی‘‘ کیا معنی؟
سننے اور پڑھنے والے اندھے نہیں۔ وہ ہر ایک کوپہچانتے ہیں۔ سیاست صبر، حکمت اور تحمل کا کھیل ہے ۔ اور وہ جو اقبالؔ نے کہا تھا : سخت کوشی سے ہے ، جام زندگانی انگبیں۔ اس آخری نکتے پہ تحریک انصاف کے جذباتی کارکن اور لیڈر کبھی غور نہیں کرتے، ذرا سا بھی نہیں۔ شاعر نے کہا تھا:
عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے 
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں 
شاعری الگ ، جلد بازوں کا کبھی بھلا نہیں ہوتا۔ زندگی تحمل اور ضبط کا مطالبہ کرتی ہے ۔ یہ احساس انہیں ہونا چاہئے کہ 22 کروڑ کا ملک جنہیں چلانا ہو، وہ سطحیت کے مرتکب نہیں ہوسکتے ۔ جہاں تک ایک میڈیا گروپ کے بائیکاٹ کا تعلق ہے ،انہیں میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ بہت دنوں سے سوچی سمجھی مخالفانہ مہم وہ چلا رہا ہے ۔ اگرچہ آزاد اخبار نویس بھی اس میں موجود ہیں ۔
خدا کے بندے ہوتے ہیں اور درہم و دینار کے بھی۔اب ایسا گدھے اور گھوڑے کا فرق جو نہ پہچانے اسے کیا کہا کہیے ؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved