تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     24-06-2017

شادی

اس روز نصیر الدین اور امینہ محمود کے درمیان کیا بات ہوئی تھی ، یہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ ہاں، اس کا جو نتیجہ برآمد ہوا، وہ انتہائی حیران کن تھا۔ 
نصیر الدین کا پسِ منظر بہت دلچسپ تھا۔ پہلے دن جب وہ ہاسٹل آیا تو ایک بڑا سا کیلنڈر اس نے اٹھا رکھا تھا۔مختلف تاریخوں اوردنوں پر اس نے دائرے لگا کر نوٹس لکھ رکھے تھے ۔ وہ لائبریری سے کتابیں لاتا، ان سے مواد اپنے پاس نقل کرتا رہتا۔ ہم جماعت دلچسپی اور حیر ت سے اسے اپنے کام میں مگن دیکھتے ۔ ان حالات میں اندازہ یہ تھا کہ وہ بہت غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔جب پہلے سیمیسٹر کا نتیجہ آیا تو وہ بمشکل پاس ہوا تھا ۔کچھ لوگوں نے اسے ملا نصیر الدین کہنا شروع کیا لیکن یہ نام کچھ جچا نہیں ۔ وہ ایک مضحکہ شخص نہیں تھا۔ وہ مکمل طور پر سنجیدہ شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا تھابلکہ اس کی کارکردگی سے متعلق اندازے ہم نے خود ہی قائم کیے تھے ۔کچھ لوگوں نے کہا : نام بڑے درشن چھوٹے۔ کسی نے کہا : دکان پکوڑوں کی اور باتیں کروڑوں کی لیکن اس کے بعد پھر وہی سوال اٹھا کہ کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا تھا ؟ کسی کے سامنے کوئی ڈینگ ماری تھی ؟ 
میں اس کے زیادہ قریب تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک بے حد محنتی نوجوان تھا۔ احساسِ ذمہ داری کے بوجھ تلے دبا ہوا ۔لیکچر لینے کے بعد وہ اپنی موٹر سائیکل پر دو لڑکوں کو ٹیوشن پڑھانے جاتا تھا ۔ اپنی تمام تر محنت کے باوجود اگر وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک بے حد معمولی دماغ کا مالک تھا۔ دوسری طرف یہ بات بھی صاف ظاہر تھی کہ اپنی کمزوریوں کو خاطر میں لانے کی بجائے وہ شدید محنت پر یقین رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کی اس بڑی یونیورسٹی میں وہ داخلہ لے سکا۔ جس کام کو شروع کرنے کا وہ ارادہ کر تا، اس میں سردھڑ کی بازی وہ لگا دیتا۔یہ الگ بات کہ سر دھڑ کی یہ بازی اسے بمشکل پاس ہونے تک ہی لے جا سکتی تھی ۔ 
اس کا دوسرا مظہر وہ تھا، جب انتظامیہ کی طرف سے وادی ء کاغان کی سیر کا اعلان ہوا ۔اس نے انٹرنیٹ سے نقشے ڈھونڈ نکالے۔ وہاں کون کون سی جھیلیں ہیں، کو ن کون سی اہم جگہیں ، سب کے نام لکھے ۔ بعد میں یہ دورہ منسوخ ہو گیا ۔ اس صورتِ حال سے سب خوب محظوظ ہوئے لیکن میں نوٹ کر رہا تھا کہ وہ کس قدر سنجیدگی سے ہر معاملے میں کام کر تا ہے ۔ ایک فرض شناس سپاہی کی طرح، اپنے مورچے پرجو مستقل مزاجی کے ساتھ ڈٹ جاتاہے ۔ 
امینہ محمود ہماری ہم جماعت تھی ۔ انتہائی خوبصورت اور انتہائی امیر پسِ منظر رکھنے والی ۔ اس کا باپ فوت ہو چکا تھا ۔ اس کی غیر معمولی خوبصورتی اکثر اس کے لیے مشکلات کا باعث ہوتی تھی ۔ شاعر نے جس کے بارے میں کہا ع
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے 
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی 
کئی لڑکوں نے اس سے فلرٹ کی کوشش کی اور ناکام رہے ۔ اس نے کسی کو منہ ہی نہیں لگایا۔ دوسیمیسٹر گزر چکے تھے ، جب اکائونٹنگ کے پروفیسر نے نصیر الدین اور امینہ محمود کو ایک ہی گروپ میں یکجا کر دیا۔ غالباً اس روز پہلی بار نصیر الدین نے امینہ محمود کو غور سے دیکھا ۔ پھر وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اکثر و بیشتر پھر وہ اسی کو دیکھتا رہتا۔ ان دنوں میں وہ بے حد کنفیوژ تھا۔ شدید محنت کے بعد بمشکل وہ اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرپاتا تھا ۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے ٹیوشن پڑھانا ہوتی تھی ۔ ان حالات میں ایک کروڑ پتی لڑکی سے شادی کا خواب وہ کیسے دیکھ سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شدید کنفیوژن کا شکار تھا۔ وہ ایک سپاہی کی زندگی گزار رہا تھا ، اپنی ساری زندگی جسے کبھی اس قدر مشکل محاذ سے واسطہ نہ پڑا تھا ۔ کئی مہینے وہ سوچ میں گم رہا۔ پھر اس نے امینہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ امینہ کو اس کی سہیلیاں نصیر الدین کے نام سے چھیڑا کرتی تھیں ۔ وہ خود بھی ہنس دیا کرتی ۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ دو الگ دنیائوں کے لوگ تھے۔ 
مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ نصیر الدین امینہ سے بات کرنے جا رہا ہے ۔ اس نے اس کنفیوژن کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا بات کرے گا۔ اس روز میں نے دیکھا کہ نصیر الدین اس کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔ اس نے کوئی بات کی۔ امینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ کچھ دیر وہ سکتے کے عالم میں اسے دیکھتی رہی ۔ پھر اس نے کوئی مختصر سا جواب دیا ۔ نصیر الدین وہاں سے چلا گیا ۔ پھر جب ہم لوگ امینہ کے پاس گئے تو وہ زارو قطار رو رہی تھی ۔ سب حیران تھے اور کسی قدر غصے میں کہ نصیر الدین نے بدتمیزی کی کیا بات اس سے کی ۔ امینہ نے کہا کہ اس نے بدتمیزی نہیں کی ۔ وہ بس روئے چلی جارہی تھی۔ چند روز کے بعد معلوم ہوا کہ امینہ محمود نے نصیر الدین سے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ یہ اتنی بڑی خبر تھی کہ پورا کیمپس ہل کے رہ گیا ۔ 
بعد میںامینہ نے مجھے بتایا کہ نصیر الدین نے اس روز یہ سوال کیا تھا : امینہ اگر تم مجھ سے شادی کرو تو حق مہر کتنا لوگی ۔ امینہ نے بتایا کہ اسے زندگی میں فلرٹ کی بے شمار درخواستیں موصول ہو ئی تھیں ۔ بہت سے لوگ دولت کے لیے اس سے شادی کے خواہشمند تھے لیکن اس قدر شدید احساسِ ذمہ داری میں دبے ہوئے کسی شخص نے پہلی بار اس سے محبت کا اظہار کیا تھا۔اپنے حالات کے باوجود اس نے اس شادی کے لیے جدوجہد کا ارادہ کر لیا تھا ۔آغاز اس نے حق مہر سے کیا تھا۔ اسے حق مہر کا بندوبست کرنا تھا۔ وہ ایک سپاہی تھا، جو اپنے مورچے میں ڈٹے رہنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ پھر فتح اس کے ہاتھ آئے یا موت، وہ اس کے لیے تیار تھا۔ 
گناہ اور دولت کے چکر میں امینہ کو ستانے والے بہت تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ یہی وہ محافظ ہے ، جس کی اسے ضرورت تھی ۔ جو کبھی مورچہ چھوڑ کر نہ بھاگے گا۔ رہی دولت اور عقل تو وہ امینہ کے پاس خود بہت تھی ۔ اسے صرف ایک محافظ کی ضرورت تھی ۔ نصیر الدین کی شکل میں اسے ایک ایسا مرد نظر آیا ، جو سراپا ذمہ داری تھا ۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد امینہ نے اس سے کہا کہ حق مہر میںاسے پچاس ہزار روپے چاہئیں ۔ وہ نصیر الدین کو پچاس ہزار روپے کے لیے جدوجہد کرتا دیکھنا چاہتی تھی ۔ 
اس شام نصیر الدین نے مجھے بتایا کہ اس کے پاس 35ہزار روپے پہلے ہی سے موجود ہیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved