رات کی بارش سے فرش ابھی گیلا تھا اس لیے واک نہ ہو سکی ، تاہم کمرے سے نکل کر باہر جا کر بیٹھنا بہتر لگا۔ تازہ اور ٹھنڈی ہوا ائیرکنڈیشنر کی ہوا سے زیادہ ٹھنڈی بھی تھی اور خوشگوار بھی۔ پرندے غائب تھے، پھر بھی چند چڑیاں اورشارکیں سینہ تانے اس ہوا کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد رم جھم ہونے لگی اور تقریباً ایک گھٹنے تک ہوتی رہی۔ ہم انتہائی خوش قسمت ہیں کہ دنیا کے اس خطے میں رہتے ہیں جہاں سرما، گرما ،برسات، بہار اور خزاں جیسے موسموں کی ورائٹی موجود ہے۔
بُوندا باندی، پھوار‘ رم جھم اور مُوسلادھار، بارش کے یہ کئی درجے اور رنگ ہیں اور ان الفاظ کے مُوجد کیا لوگ ہوں گے۔ مُوجد اس لیے لکھا کہ یہ زبان بجائے خود کسی ایجاد سے کم نہیں ہے۔ ہم نے شاید ہی کبھی سوچا ہو کہ یہ زبان تخلیق کرنیوالے کون لوگ تھے اور ہمیں ان کا کس قدر شکر گزار ہونا چاہیے۔ بوندا باندی ہی کیا خوبصورت ترکیب ہے جو بُوند سے نکلا اور پھر اس کے بعد باندی لگا دی گئی۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز کا پہلے کوئی نام نہیں تھا۔ یہی نہیں کہ چیزوں کو نام دیئے گئے بلکہ زبان کی پوری عمارت تعمیر کر کے دکھا دی گئی۔ زبان اور اس کی تاریخ کی کتابوں میں ہمارے ان محسنوں کے نام ضرور درج ہوں گے لیکن کہاں تک؟ اور زبان کی اس تشکیل نے کتنا فاصلہ طے کیا ہو گا۔ اگر زبان نہ ہوتی تو یہ فکشن، شاعری اور گفتگوئیں کیا ہوتیں۔
زبان ہی کے حوالے سے ہم ضرب المثل اشعار کی طرف آتے ہیں جن کے اکثر خالق ہمارے لیے اجنبی ہیں۔ نہ ہی ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے حالانکہ ہم انہیں اپنی تحریروں اور تقریروں میں استعمال کر کے انہیں سجاتے ہیں ۔ یقینا اس موضوع پر کتابیں بھی موجود ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ان کتابوں سے مدد لینے کی کبھی ضرورت محسوس کی ہو۔
ہمارے دوست فرہاد احمد فگار اس ضمن میں ہماری معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پہلے یہ شعر دیکھیے:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گُل وگلزار ہوتا ہے
اس کے خالق سید محمد عالم مست خاں کلکتوی ہیں۔ ایک اور شعر دیکھیے جسے ہم میرؔ کے حوالے سے نقل کرتے رہتے ہیں جو کہ نواب محمد یار خاں امیر رامپوری کا ہے :
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
اگلا شعر جس کے خالق مرزا علی اکبر مضطرب ہیں، یہ رہا ؎
وصالِ یار سے دونا ہُوا عشق
مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی
اور یہ شعر مرزا صادق شررؔ کا ہے جو 1825 ء میں صفحہ ہستی پر موجود تھے ؎
گئے دونوں جہان کے کام سے ہم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ، نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اگلا شعر سعید احمد ناطق لکھنوی کا ہے؎
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
اور پھریہ شعر سید محمد جعفر حیات امروہوی 1912-1948 ء چاٹگام کا ہے؎
زندگی کا ساز بھی کیا سازہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
اور اب کچھ غیر ضرب المثل شاعری کی طرف آتے ہیں ۔ مجھ سے یہ بھی سوال کیا جاتاہے کہ آپ شعر کیوں لکھتے ہیں ؟ حالانکہ یہ ایسا ہی سوال ہے کہ آپ کھانا کیوں کھاتے ہیں، پانی کیوں پیتے ہیں یا سانس کیوں لیتے ہیں۔ غالباً یہی کہہ دنیا کافی کہ مجھے شعر کی بھوک یا پیاس لگتی ہے ۔ بسیار گوئی کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے جبکہ میراؔ جی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں روزانہ ایک نظم لکھ کر سوتا ہوں۔ پھر یہ کہ میں شعر کہتا ہوں تو اس کامزہ بھی لیتا ہوں کہ کبھی کوئی اچھا شعر بھی نکل آتا ہے۔اور ، اب حسبِ معمول خانہ پری کے طور پریہ تازہ غزل:
نظر جو آ نہیں سکتا نظر سے دور نہیں
کہ خواب دور بھی ہو تو خبر سے دور نہیں
یہ ہو تو سکتا ہے تیری نگاہ پڑ جائے
جہاں پڑے ہیں تری رہگزر سے دور نہیں
کچھ اس میں تیرا اشارہ بھی چاہیے، ورنہ
جبین شوق ترے سنگ در سے دور نہیں
کسی کے ہو گئے ہیں اور خوش بھی ہیں، لیکن
یہی وہ نفع بھی ہے جو ضرر سے دور نہیں
ہماری وضع ہی کچھ اور ہے ، ہم آپ کے پاس
ادھر سے آ نہیں سکتے جدھر سے دور نہیں
ہم اپنی اپنی انا کے اسیر ہیں، ورنہ
تمھارا گھر بھی کوئی میرے گھر سے دور نہیں
اگرچہ دھوپ بہت تیز ہے، مگر دیکھو
ہوا میں ہے جو پرندہ شجر سے دور نہیں
تمام ڈُوبے ہُوئے ہیں کسی خیال میں ہم
اگرچہ نائو ہماری بھنور سے دور نہیں
بدل بھی سکتی ہے ساز سخن کی لے، کہ ظفر
یہ عیب ہی سہی لیکن ہنر سے دور نہیں
آج کا مطلع
دوبدو آ کر لڑے گا جس گھڑی‘ جانیں گے ہم
دور کی ان دھمکیوں سے کس طرح مانیں گے ہم