زندہ لیڈر زندہ معاشروں ہی کو نصیب ہوتے ہیں ۔ جیتے جاگتے انسانوں کو، ہوش و خرد کے ساتھ جو اپنے آنے والے کل کی ترجیحات طے کر سکیں ۔ بھیڑوں کے گلوں کو نہیں ۔ انہیں چرواہے درکار ہوتے ہیں ۔
مائل بہ فربہی ،سبکدوش کرنل محمد ریاض لاہور میں ایک کالج کے پرنسپل ہیں ۔ وہ ایک بڑے باپ کی اولاد ہیں ۔ سیاست اور اقتدار کی کراہت آمیز دنیا الگ ، پاکستانی فوج نے ایسے بے شمار سپوت جنے ہیں کہ ان کی کہانیاں لکھی جائیں تو دنیا دنگ رہ جائے ۔ کرنل ریاض کے مرحوم والد ان بہترین لوگوں میں سے بھی بہترین سمجھے گئے ۔ 1970ء کے عشرے میں فوجی افسروں نے بغاوت کا منصوبہ بنایا تو جنہیں زمامِ کار سونپنے کا خواب دیکھا ریٹائرڈ بریگیڈئیر محمد رفیق ان میں سے ایک تھے ۔ بریگیڈئیر نے انکار کر دیا اور سرپھروں کو مہم جوئی سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ دو صخیم کتابیں ان پر لکھی جا چکی ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ کوئی کتاب ان کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتی ۔ مستقبل کے شہ سواروں کو پالنے والے پاکستان کے کیڈٹ کالجوں کواب بھی دنیا میں امتیاز حاصل ہے ۔ بریگیڈئیر محمد رفیق ان میں سے دو کالجوں کے سربراہ رہے ۔ اعلیٰ ترین میں سے اعلیٰ ترین ۔ ایک سچے استاد کی امانت داری ، سلیقہ مندی اور ریاضت کے امین تو وہ تھے ہی ۔ جری بھی ایسے کہ ہمیشہ ان کی مثال دی جاتی ۔ جب وہ ملٹری کالج جہلم کے کمانڈنٹ تھے توفیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو ملاقات کے لیے انتظار کرنا پڑا تھا کہ وقت سے پہلے آن پہنچے تھے ۔ اسی کالج میں صبح پریڈ میں سلامی کے ہنگام آغامحمد یحییٰ خان کو انہوں نے ٹوک دیا تھا کہ وہ ڈھنگ سے نہ کھڑے تھے ۔ جتوئی خاندان کے ایک فرزند کو کالج بدر کیا توسفارش کرنے والے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو انہوں نے بتایا : اگر آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی تو کالج برباد ہو جائے گا ۔ بعد ازاں گھوڑا گلی کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے یہی جملہ انہوں نے جنرل اختر عبد الرحمٰن سے کہا جب اپنے فرزند غازی خاں کے لیے انہوں نے چھٹی کی فرمائش کی ۔
پینتیس برس ہوتے ہیں ،بریگیڈئیر محمد رفیق کا اکلوتا فرزند کرنل ریاض عید کی تعطیل پر گھر پہنچا ۔ کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی اور ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ۔ باپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا : ریاض ، کیاعید منانے تمہارے جوان گھروں کو چلے گئے ۔ گھنٹوں فوجی جیپ بھگا کر گھر پہنچنے والا کرنل چند لمحے خاموش کھڑا رہا، پھر اس نے نفی میں جواب دیا ۔ '' تم کیسے افسر ہو ، تہوار پر اپنے بچوں کو تنہا چھوڑ آئے ۔ کرنل نے بات کو پالیا، باپ سے معافی مانگی اورفوراً ہی اپنے سپاہیوں کے ساتھ عید منانے کے لیے واپس روانہ ہو گیا ۔ قیادت سہل نہیں ۔ اس امانت کا بار وہ اٹھائے ، جو ایثار کی استطاعت رکھتا ہو ۔ اقبالؔ نے کہا تھا : سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا /لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ۔ یہ بھی کہا تھا ؎
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے '' سید القوم خادمہم‘‘ قوم کا سردار وہ ہوتاہے جو اس کا خدمت گزار ہو ۔ جزوی طور پر ہی سہی ، مغرب نے اصول کو سمجھ لیا ہے ۔ کسی اور کو شاید وہ معاف کر دیں ، اپنے کسی لیڈر کو کبھی نہیں ۔ ذرا سی نالائقی یا دھوکہ دہی کا وہ مرتکب ہو تو اسے اٹھا پھینکتے ہیں ۔ مشرق ، خاص طور پہ عالمِ اسلام کے المیے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لیڈر نہیں ، ہم شہزادے پالتے ہیں ۔ من مانی کرنے والے بادشاہ ، اپنی قوم کو جو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ درباری پالتے ، اپنی قوم کے ساتھ پیہم فریب دہی کرتے اور معاشرے کا تانا بانا تباہ کرنے پر تلے رہتے ہیں ۔
پاکستان کے طول و عرض میں ، ہزاروں آدمی ہر ماہ یرقان کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ بیس پچیس برس سے پورا ملک اس وبا کی زد میں ہے ۔ایک صدی پہلے کے پسماندہ عہد میں گائوں گائوں ایک ایک کنویں میں دوائی ڈالی جاتی تھی کہ پینے کا پانی جراثیم سے پاک رہے ۔ آج بڑے بڑے شہروں میں بھی پانی کے ٹینکوں کی صفائی کا کوئی تصور نہیں ۔زیرِ زمین گٹر اور صاف پانی کے پائپ ایک دوسرے کو چھوتے ہوئے گزرتے ہیں ۔ انسانی زندگی کی اساس صاف ہوا اور صاف پانی ہے ۔ ہمارا شیر شاہ سوری مگر یہ کہتا ہے کہ پہلے مجھے میٹرو بس ، اورنج ٹرین اور چئیر لفٹ بنانے دو ۔ کبھی نہ کبھی اجلا پانی بھی تمہیں مل جائے گا ۔ پہلے کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانے نصب کرنے دو ، کبھی نہ کبھی صاف ہوا بھی تمہیں مل جائے گی ۔
قائدِ اعظم ثانی ، وزیرِ اعظم میاں محمد نوا ز شریف عید منانے لندن چلے گئے ۔ ہر سال چلے جاتے ہیں۔مدتوں سے یہی اب ان کا شعار ہے ۔ اپنے وطن ، اپنی قوم میں ان کا جی نہیں لگتا ۔ چند ہزار درباریوں کے سوا ، جس نے ان کی قدر نہیں پہچانی ۔ ان کی عظمت کا ادراک ، ان کی قربانیوںکا وہ فہم نہیں رکھتی ۔ فضا میں بارود کی بو پھیلتی ہے ، انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑتے ہیں ۔ مایوسی ، افراتفری اور چیخ و پکار سے فضا بھر جاتی ہے ۔ قوم کا لیڈر آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ۔ اپنے حال میں وہ مگن رہتاہے ۔ یہ شکایت کرتا ہوا پایا جاتاہے کہ اس کے خاندان پہ ظلم ہو رہا ہے اور قوم تماشہ دیکھتی ہے ۔ درباری ادھر چیختے ہیں کہ ان کے آقا کی تکریم کیوں ملحوظ نہیں رکھی جاتی۔ اخبار ،عدالتیں اورعساکر ظلِ الٰہی کے حضور مودب کیوں نہیں رہتے ۔
اور اب ایک دوسرا بادشاہ عنانِ اقتدار سنبھالنے پر آمادہ ہے ۔ میدانوں میں گرمی کی لہر اٹھے تو وہ پہاڑوں کا رخ کرتاہے کہ مغل جہاں داروں کی یاد تازہ کرے ۔ اقتدار کے لیے اب وہ بے تاب ہوا جاتاہے ۔ اتنا بے تاب کہ ایک کے بعد دوسرے بدنامِ زمانہ سیاسی جنرل کو اپنے لشکر میں مدعو کرتاہے۔ کوئی اعتراض کی جسارت کرے تو اس کے فدائین چیختے ہیں ۔ اس طرح برہم ہو کر چیختے ہیں کہ بس چلے تو جسارت کرنے والوں کو تہ تیغ ہی کر ڈالیں۔ کیسی عجیب قوم ہے اور کیسے عجیب لیڈر ۔ عہدِ قدیم کے جاگیر دار کیا ان سے مختلف تھے ، جن کے مزارع ان کی باہمی جنگوں میں جھونک دئیے جاتے ۔ اور پھر سرکارؐ کا وہی فرمان یاد آتا ہے :برائی کو جب روکا نہیں جائے گااور بھلائی کی جب ترغیب نہیں دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے ۔ وہ تمہیں سخت ترین ایذا دیں گے اور تب تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی ۔
زندہ لیڈر زندہ معاشروں ہی کو نصیب ہوتے ہیں ۔ جیتے جاگتے انسانوں کو، ہوش و خرد کے ساتھ جو اپنے آنے والے کل کی ترجیحات طے کر سکیں ۔ بھیڑوں کے گلوں کو نہیں ۔ انہیں چرواہے درکار ہوتے ہیں ۔
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے '' سید القوم خادمہم‘‘ قوم کا سردار وہ ہوتاہے جو اس کا خدمت گزار ہو ۔ جزوی طور پر ہی سہی ، مغرب نے اصول کو سمجھ لیا ہے ۔ کسی اور کو شاید وہ معاف کر دیں ، اپنے کسی لیڈر کو کبھی نہیں ۔ ذرا سی نالائقی یا دھوکہ دہی کا وہ مرتکب ہو تو اسے اٹھا پھینکتے ہیں ۔ مشرق ، خاص طور پہ عالمِ اسلام کے المیے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ لیڈر نہیں ، ہم شہزادے پالتے ہیں ۔ من مانی کرنے والے بادشاہ، اپنی قوم کو جو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔