تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     29-06-2017

قربانی کا بکرا کون بنے؟

بھارت میں صدر کے چنائو میں رام ناتھ کووند کی جیت میں ذرا بھی شک نہیں۔ بھاجپا اتحاد کے پاس ووٹوں کی واضح اکثریت ہے۔ جونہی کووند کے نام کا اعلان ہوا‘ کئی صوبائی پارٹیوں نے ان کی طرف داری میں اپنی حمایت ظاہر کر دی۔ جو پارٹیاں ابھی فیصلہ نہیں لے پائی ہیں ان میں سے بھی کئی پارٹیاں حمایت کرنے کی سوچ رہی ہیں۔ جو پارٹیاں اکثر بھاجپا کے خلاف ووٹ کرتی ہیں یا ہر مدعہ پر بھاجپا کے خلاف رویہ اختیار کرتی ہیں‘ وہ بھی رام ناتھ کووند کے معاملے میں نرم پڑ گئی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کووند بلا مقابلہ ہی صدر منتخب ہو جائیں گے۔ اگر کووند بنا مقابلہ کے چنے گئے تو اس کا مطلب ہو گا کہ بھاجپا اپوزیشن کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ یوں بھی صدارتی انتخاب کو لے کر نتیش‘ ملائم‘ مایاوتی‘ محبوبہ‘ چوٹالہ وغیرہ اپنے روایتی رویہ سے الگ رخ لے رہے ہیں۔
ایسے میں کانگریس بیچاری کیا کرے؟ کانگریس کی مجبوری ہے۔ نریندر مودی نے ایسا داؤ مارا ہے کہ مخالفین کی سٹی گم ہو گئی ہے۔ وہ جگ جیون رام کی بیٹی اور سابق لوک سبھا سپیکر میرا کرمار اور سابق وزیر داخلہ سشیل کمار شندے کو پٹا رہے ہیں تاکہ بھاجپائی دلت کے خلاف کانگریس دلت کھڑا کر دیں۔ وہ جس دلت کو بھی کھڑا کریں گے‘ اس کی شکست طے ہے لیکن ایسا نہ کرنے پر کانگریس پر دلت مخالف ہونے کا ٹھپہ لگے گا۔ کانگریس کی کوشش یہ بھی ہے کہ میٹرومین شری دھرن یا زرعی ماہر سوامی ناتھن یا گاندھی جی کے پوتے گوپال گاندھی میں سے کسی کی بلی چڑھوا دے۔ لیکن یہ لوگ بلی کے بکرے کیوں بنیں گے؟ اپنے اپنے ڈھنگ سے یہ بڑے لوگ ہیں۔ ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کے لیے یہ لوگ اپنی عزت دائو پر کیوں لگائیںگے؟ ہاں‘ کانگریس پارٹی کا ہی کوئی لیڈر اس قربانی کے لیے آگے آنا چاہیے۔ جنہوں نے زندگی بھر ملاحی کاٹی ہے وہی ہمت کریں اس کشتی کو سہارا دینے کی۔ صدر کے چنائو کے بہانے ہمارا حزب اختلاف‘ جیسا بھی لولا لنگڑا ہے‘ اسے ایک ہونے اور مودی پر روک لگائے رکھنے کا موقع ملے گا۔ جمہوریت کی اچھی صحت کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔
صحافیوں کی آزادی اور ساکھ 
گزشتہ روز دلی کی پریس کلب میں صحافیوں کا بڑا جماوڑہ ہوا۔ کچھ دن پہلے این ڈی ٹی وی کے سلسلے میں بھی ہوا تھا۔ میں نے ایسا جماوڑہ پورے 42 سال پہلے یہاں دیکھا تھا۔ 26 جون 1975ء کو ایمرجنسی کا اعلان ہوا تھا اور اس کے دو تین دن بعد ہی شری کلدیپ نیر کی پہل پر ہم دو تین سو صحافی جمع ہو گئے تھے۔ ایمرجنسی کے خلاف تقاریر کے بعد جب کلدیپ جی نے کہا کہ ایمرجنسی اور سنسرشپ کے بل پر سب دستخط کریں تو دیکھتے دیکھتے ہی نصف ہال خالی ہو گیا۔ میں نے اور بھائی پربھاش جوشی نے سب سے پہلے دستخط کیے۔ کل مجھے پھر لگا کہ اس پروگرام کی نوجوان انتظامیہ نے ایمرجنسی کے وارننگ دینے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ لیکن لگ بھگ آدھا درجن ترجمانوں نے اس عنوان پر زور دیا کہ ''صحافت کی سطح کو کیسے بہتر بنائیں‘‘۔ وہاں لگ بھگ سبھی ہندی صحافی تھے۔ شری رام بہادر رائے کے اس مشورے کی میں نے صدارتی خطاب میں مکمل حمایت کی۔
میں ملک کے سب سے بڑے اخبار اور سب سے بڑی نیوز ایجنسی کا ایڈیٹر رہا‘ لیکن کیا کبھی کسی وزیر اعظم کی ہمت ہوئی کہ وہ مجھے کوئی ہدایت دے سکے؟ میں نے گزشتہ ساٹھ برس کی صحافت کی زندگی میں ایک بار بھی اپنی باطنی آواز کے خلاف ایک لفظ تک نہیں لکھا۔ ایمرجنسی کے دوران صحافت کی ایک 1300 صفحات کی کتاب کا افتتاح صدارتی محل میں ہوا۔ میں اس کتاب کا مصنف اور اس تاریخی پروگرام کا منتظم تھا۔ میں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو کئی دبائوں کے باوجود مدعو نہیں کیا تھا۔ انہیں معمولی کارڈ تک نہیں بھیجا جبکہ صدر‘ نائب صدر سبھی وزرا اس پروگرام میں شامل ہوئے تھے۔ میرا کس نے کیا بگاڑ لیا؟ جو آزاد رہنا چاہتا ہے‘ اسے دنیا کی کوئی طاقت غلام نہیں بنا سکتی۔ ملک میں ڈر کا نقلی ماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ اس سرکار کو داغدار کیا جا سکے۔ میں نے نوجوان صحافیوں سے کہا کہ وہ سرکار سے بالکل بھی نہ ڈریں۔ سرکار میں بیٹھے لوگ ہمارے بٹھائے لوگ ہیں۔ وہ عوام کے خادم ہیں۔ ان کے حیثیت نہیں کہ وہ تمہاری آزادی پر ہاتھ ڈال سکیں۔ جس ملک میں 'نیا انڈیا‘ جیسا روزانہ اخبار نکل رہا ہے اور جس میں ایڈیٹر شری ہری شنکر ویاس اور میرے جیسے لوگ ہر روز لکھ رہے ہیں‘ اس ملک میں صحافت کی آزادی خطرے میں ہے یہ کہنا بالکل بے معنی ہے۔ اگر بڑے بڑے اخبار اور ٹی وی چینل آج کل جھکنے کی پوزیشن میں ہیں تو یہ ان کی کمزوری ہے۔ انہیں اپنی آزادی کی پروا نہیں ہے۔ اور ان کی ساکھ بھی گرتی جا رہی ہے۔ بھارت میں جو میڈیا مالک پیسوں کے غلام ہیں اور جن صحافیوں کی سانسیں ان کی نوکری میں ہی بسی ہوئی ہیں‘ ان کے لیے آزادی اور ساکھ‘ دونوں ہی فضول ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved