تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     29-06-2017

مجھے ’بھی‘ ہے حکم اذاں

دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے کی بات ہے کہ ایک روز مجیب الرحمٰن شامی صاحب کا فون آیا کہ آج ''نقطہء نظر‘‘ میں مولانا ظفر علی خان کی صحافتی خدمات کے حوالے سے بھی بات کریں گے۔ فون پر بحث کرنا مجھے ہمیشہ سے کچھ نامعقول سی بات لگتی ہے اس لیے شامی صاحب کی تجویز سن کر میں میں خاموش ہوگیا اور سوچا کہ جب وہ پروگرام کے لیے دنیا ٹی وی کے دفتر آئیں گے تو بات کرکے اس موضوع پر اپنے تحفظات سے انہیں آگاہ کردوں گا۔ شامی صاحب اپنے وقت پر دفتر پہنچے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ مولانا ظفر علی خان کی صحافتی خدمات پر بات کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ سیاستدان تھے، جلسے کرتے تھے، سیاسی جماعتوں کا حصہ تھے اخبار تو ان کے سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ تھا، اس لیے بات کرنی ہیں تو پورے مولانا ظفر علی خان پر کریں، انہیں صرف صحافی مت کہیں۔ شامی صاحب نے میری بات سنی اور بولے، ''صحافی خلا میں کام نہیں کرتا بلکہ اپنے معاشرے کے مسلّمات کو سامنے رکھ واقعات کے خبر ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، جو چیز اسے معاشرے کے تسلیم شدہ معیار سے ہٹ کر نظر آئے گی اس پر گرفت کرے گا اور جو چیز اس دائرے کے اندر ہو گی‘ وہ اس کے لیے قابل قبول ہو گی۔ اس پیمانے پر مولانا ظفر علی خان کی صحافت کو جانچ کر حکم لگا دیجیے‘‘۔ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہا، ''اب کیا کہتے ہیں علماء کرام بیچ اس مسئلے کے؟‘‘۔ پروگرام کے دوران وقفہ آیا تو میں نے شامی صاحب سے پوچھا ، '' آپ کے نزدیک پاکستانی معاشرے کا تسلیم شدہ معیار کیا ہے؟‘‘۔ ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر کے بغیر بولے، ''انیس سو تہتر کا دستور اور یہ دستور ہی میرے تجزیے کی بنیاد ہے، جو سرگرمی اس سے ہٹے گی وہ میرے لیے ناقابل قبول ہو گی اور جو اس کے مقرر کردہ دائرے کے اندر ہوگی، میں اسے تسلیم کروں گا خواہ وہ میرے لیے کتنی ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو‘‘۔
کچھ عرصے بعد کسی غیبی اشارے پر عمران خان اور طاہرالقادری اپنے اپنے دھرنے لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تو اپنے ہی طے کردہ معیار پر شامی صاحب کے امتحان کا وقت آ گیا۔ اوّل اوّل شامی صاحب واحد صحافی تھے جو ڈنکے کی چوٹ ان دھرنوں میں چھپے غیر آئینی طوفانوں کی خبر دے رہے تھے۔ انہوں نے بلا خوف ملامت یہ موقف اختیار کیا کہ ایک جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لیے اگر دھرنا بازی کا سہارا لیا گیا تو اس کے بعد کوئی جمہوری حکومت رہے گی نہ جمہوریت۔ ہوسکتا ہے کئی اور لوگ بھی وہی بات کررہے ہوں جواس وقت شامی صاحب کررہے تھے مگر میرے سامنے وہی پہلے آدمی تھے جو ان دھرنوں کو چلانے والی آسیبی قوتوں کو عوام کے سامنے لا رہے تھے۔ وہ اتنا کڑا وقت تھا کہ سیاست پر بات کرنے والا ہر صحافی گویا تلوار کی دھار پر چل رہا تھا۔ وہ جو کچھ کہہ رہے تھے ، سوچ سمجھ کر اور سنبھل سنبھل کر کہہ رہے تھے مگر پھر بھی انہیں اس کی قیمت اداکرنا پڑی۔ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر غلاظت بھری مہم چلی، ان کی مفروضہ جائیدادوں کی کہانیاں پھیلائی گئیں، حتیٰ کہ تحریک انصاف کے ایک جلسے میں شیخ رشید ان کے خلاف پھٹ پڑے مگر انہوں نے اس طوفانِ بدتمیزی کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک بار لاہور میں تحریک انصاف کے جلسے کی کوریج کے دوران مجھے دیکھ کر کچھ کارکن غصے میں آ گئے اور انہوں نے شامی صاحب کے ساتھ میرا نام لے لے کر گالیاں دیں۔ مجھ سے کچا پن ہوا کہ میں نے اگلی صبح اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ واقعہ بیان کر دیا۔ اتفاق سے شامی صاحب بھی ٹی وی دیکھ رہے تھے، پروگرام کے دوران ہی مجھے فون کرکے حکماًَ کہا، '' اب آپ اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں کریں گے‘‘۔ میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر انہوں نے سختی سے مزید کچھ نہ کہنے کا حکم دہرایا اور فون رکھ دیا۔ میرے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ خاموش ہو جاؤں سو ہو گیا۔ لیکن اس واقعے سے اتنا ضرور سمجھ گیا کہ پاکستان میں دستور کی بالا دستی کی بات کرنا اتنا آسان نہیں، اس کے نتیجے میں منظم انداز میں آپ کی کردار کُشی ہوگی، آپ پر اتنا گند اچھالا جائے گا کہ لوگ آپ کی بات کو ملکی مفاد نہیں بلکہ ذاتی مفاد کے تناظر میں دیکھیں۔ دستور کی حرمت یا نظام کی عزت کی بات کرنے والوں کو ہمیشہ یہی بھگتنا پڑا ہے ۔ دھرنا ختم ہوا ، یہ بات بھی ختم ہوگئی مگر شامی صاحب کی خطا معاف نہ ہوئی۔
جب پاناما کا معاملہ عدالت میں پہنچا اور آگے بڑھنے لگا تو ایک بار پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم سب دستور کا سبق دہرائیں۔ شامی صاحب نے یہ نعرہء مستانہ اپنی مثالی شائستگی کے ساتھ سب سے پہلے بلند کیا تو ان کے خلاف وہی لوگ متحرک ہو گئے جو دھرنے کے دنوں میں تھے۔ ایک تو وہی تھا غیر ملکی شہریت رکھنے والا چالاک اور اس کے ساتھ ملے ہوئے دو احمق جو پروگرام کی ریٹنگ کے لیے کسی حد تک بھی گرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان کے حرکت میں آتے ہی کوئی پراسرار ہاتھ سوشل میڈیا پر بھی سرگرم ہوا اور شامی صاحب کی فرضی جائیدادوں کی تفصیل بھی سامنے آ گئی، جن کے بارے میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ بھائی وہ آپ سامنے لائے ہیں، آپ ہی رکھ لیں۔ دستور کی بات جیسے جیسے بلند ہوتی گئی، گندگی پھیلانے کا دائرہ بھی بڑھتا چلا گیا اور اس کا نشانہ بننے والے لوگ بھی روز بروز بڑھتے گئے۔ ہر وہ شخص جو جمہوریت کی دہائی دیتا ہے اسے ایک سکیم کے تحت بدعنوانوں کا پشت پناہ قرار دے کر بے وزن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کسی کے نام جائیدادیں ، کسی کے نام بینک اکاؤنٹ اور کسی کے نام گاڑیاں ڈال کر سوشل میڈیا پر پھیلا دینے اور پھر اسے ٹی وی اسکرین پر لہرا دینے سے ان لوگوں کا خیا ل ہے کہ سچ کو چھپایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی پاناما کیس پر چڑہائے ہوئے سازشوں کے ردّے کمزور پڑنے لگتے ہیں ، یہ لوگ سچ دکھانے والوں کے خلاف مزید سرگرم ہو جاتے ہیں۔
لطف کی بات ہے جو لوگ کیچڑ اچھالتے ہیں ان پر ایک چھینٹ بھی پڑتی ہے تو روتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''حکومت مخالف صحافیوں کی کردار کشی کی جا رہی ہے‘‘۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے، پہلے تو خود کو حکومت مخالف قرار دے کر حریت پسند قرار دیا اور اس حریت پسندی سے اپنے لیے پاکیزہ کردارکی سند بھی تراش لی ۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صحافی کے لیے حکومتوں کا آنا جانا اہم نہیں ہوتا بلکہ نظام کو لاحق خطرات کا ادراک کرکے ملک کے مالکوں یعنی عوام کو آگاہ کرنا اہم ہوتا ہے۔ یہ لوگ ہر اس شخص کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو یہ کام کررہا ہو۔ 
کسی کے کہنے پر بہتان باندھنے والے میڈیا کے ان نابغو ں کو برّصغیر پاک و ہند میں صحافت کی تاریخ معلوم ہوتی تو وہ یہ بھی جانتے کہ اپنے ملک اور اس کے نظام کا تحفظ قلم بیچ کر نہیں جانفروشی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کاش کوئی انہیں بتا دیتا کہ اٹھارہ سو ستاون میں انگریزی فوج نے دہلی پر قبضہ کرتے ہی جس پہلے شخص کو بے دردی سے قتل کیا تھا وہ مولوی محمد باقر نام کا ایک صحافی تھا، اور اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے ہفت روزہ ''دلی اردو اخبار‘‘ کے ذریعے جو ہندوستان کی آزادی اور اس کے نظام کے بقا کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مخالفت کرتا تھا۔ اپنے ملک کے نظام کی حفاظت کے لیے بر وقت آواز اٹھانا ہر صحافی کے ایمان کا حصہ ہوتا ہے۔ قدرت کا نظام ہے کہ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی کمپنی بھی پیدا ہو جاتی ہے جو ملک کے دستوری نظام کو ٹھکانے لگا کر اپنی ٹھگی کا کوئی انتظام کرنا چاہتی ہے اور ان کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی مولوی محمد باقر بھی آ جاتا ہے جو کسی الزام یا دشنام کی پروا کیے بغیر اپنا کام کیے چلے جاتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved