یہ صدمہ مجھے برادرم میاں جاوید اقبال ارائیں ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کے ذریعے پہنچا کہ سید انیس شاہ جیلانی اب دنیا میں نہیں رہے۔ ان کے صاحبزادے ابوالکلام نے فون پر بتایا کہ پچھلے آٹھ دس روز سے علیل تھے کہ اچانک طبیعت بگڑ گئی اور راہی ملکِ عدم ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر پونے 79 سال تھی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ، سید صاحب سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان اور متعدد دیگر کتب کے خالق تھے۔ خاکہ نویسی سے خاص شغف بلکہ اس پر ملکہ حاصل تھا
انا لِلہ واِناّ الیہ راجعون
آپ ایک البیلے نثاَّر تھے۔ کوئی دس پندرہ برس پہلے ان کی مذکورہ بالا کتاب پڑھی اور ان کی نثرسے بے حد متاثر ہوا۔ تب سے ہی ان کے ساتھ ٹیلیفونک رابطہ استوار ہوا بلکہ انہی دنوں میں رحیم یار خاں میں ایک مشاعرے میں گیا تو بطور خاص ان سے ملنے کے لیے ان کے گائوں محمد آباد (صادق آباد) جا پہنچا۔ جہاں انہوں نے اپنے والد صاحب کے نام پر مبارک لائبریری قائم کر رکھی ہے ، جس میں گاہے گاہے میں بھی اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہوں۔ نہایت خوش طبع ، مؤدب اور مہذب انسان تھے۔بے حدصاف ستھری، سہل اور عمدہ نثر لکھنے والوں میں سے تھے۔ ملک کے ہراہم تخلیق کار کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے اور خط و کتابت کا سلسلہ باقاعدہ جاری تھا۔ مکاتیب کے کئی مجموعے بھی شائع کروا چکے تھے، جن میں ثمینہ راجا کے خطوط پر مشتمل کتاب کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ بظاہر ان کی صحت ٹھیک ٹھاک تھی اور لگتا نہیں تھا کہ اتنی جلدی داغِ مفارقت دے جائیں گے۔ رئیس امروہوی کے خصوصی مصاحبین میں سے تھے اور انہی اوصاف کی بناء پررئیس انہیں اتنا قریب رکھتے تھے۔ لائبریری مختلف نادر مخطوطوں اورمسودوں سے مزین ہے جو ان کے شوق فراواں کا مظہر ہے۔ متعدد مجموعوں نے دن کی روشنی نہیں دیکھی۔
''سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ میں نے اپنے کالم میں قسط وار چھاپنا شروع کیا تو بے شمار لوگ اس سے متاثر ہوئے اور مجھ سے پوچھتے تھے کہ یہ کتاب کہاں سے مل سکتی ہے۔ میرے پاس، بلکہ ان کے پاس بھی، اس کا ایک ہی نسخہ تھا ، جسے بک ہوم والے ہمارے دوست رانا عبدالرحمن نے چھاپا تھا۔ میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع کریں اور یہ کتاب وہ مجھ سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب بہت سے لوگوں کو مطلوب ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ بس واجبی حد تک۔ ان کے والد گرامی سید مبارک شاہ جیلانی خود ایک ادب دوست شخصیت تھے، جن کی زندگی میں ہی انہوں نے اس لائبریری کا ڈول ڈالا تھا جو اس دیہاتی علاقے میں ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے اور گردونواح سے لوگ آ آ کر اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ زیادہ وسائل کے بھی مالک نہیں تھے، ورثے میں چند ایکڑ زمین ہی پائی تھی لیکن کتاب اندوزی کا یہ مہنگا شوق بہر صورت اور ہمیشہ اپنے جوبن پر رہا۔ اکثر ہم عصر ادیب اپنی تصنیفات انہیں خود بھی پیش کر دیتے ۔
تخلیقی سطح پر ان کی پہچان خاکہ نگاری ہی تھی جس پر انہیں خود خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ خاکہ اڑاتے بھی نہیں تھے لیکن پوری تفصیل سے صاحبِ خاکہ کے عیب وہُنر سے شناسا بھی کرا دیتے تھے۔ طبعاً اختصار پسند تھے۔ خط بالعموم پوسٹ کارڈ پر لکھتے اور وہ بھی بالعموم ڈیڑھ یا زیادہ سے زیادہ دوسطری ہوتا۔ خط کا جواب دینے میں کبھی تاخیر سے کام نہ لیا۔ اسی لیے ان کے ہاں آئے ہوئے خطوں کا ایک انبار لگا رہتا۔ خوش وضع اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے، سانولے سلونے اور بارعب ہونے کے باوجود ایک دلکش ہستی۔ سفرنامے کی قسط چھپتی تو ہر بار مجھے فون کر کے شکریہ ادا کرتے بلکہ دوسرے لفظوں میں مجھے باقاعدہ شرمندہ کرتے اور میں کہتا کہ اصل قابل تعریف ہستی تو آپ ہیں جنہوں نے ایک گائوں میں رہ کر بھی اتنی رونق لگا رکھی ہے اور اپنے دیوانگان میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں۔ اتنی دوری کے باوجود میں نے ہمیشہ انہیں اپنے قریب ہی پایا ہے۔؎
حیف درچشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر ندیدیم وبہار آخر شد
جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے ، رئیس امروہوی کا بے حد ادب بھی کرتے لیکن ان کے بارے میں لکھتے وقت خاصے بے دید بھی ہوجاتے اور صاحب موصوف نے کبھی اس کا برا بھی نہیں منایا، آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ سفر نامہ کیا ہے دونوں ہمسایہ ملکوں کی ایک تاریخ ہی کا مزہ دیتا ہے۔ یہ 1982ء کی بات ہے اور اس وقت بھی ان کی اس تحریر سے پتا چلتا ہے کہ اہل بھارت پاکستان کے بارے بالعموم کیا رائے اور جذبات رکھتے تھے۔ اصل میں تو یہ کتاب رئیس امروہوی ہی کے گرد گھومتی ہے اور ان کی گونا گوں اور ہمہ پہلو شخصیت کے جلوے ہمیں دکھاتی ہے بلکہ رئیس کے پورے خانوادے ہی کی تصویر کشی اس میں موجود ہے ، جس میں ہمیں سید نقی ، جون ایلیا اور زاہدہ حنا بھی چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور ذہن میں بہت سی یادیں تازہ ہوتی چلی جاتی ہیں، پھر انداز تحریر اس قدربے ساختہ اور پرلطف ہے کہ کتاب ایک بار شروع کردیں تو چھوڑنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔
میں نے پچھلے سال اپنے دوست، اوررنگ ادب پبلی کیشنز کراچی کے کرتا دھرتا شاعر علی شاعرؔ سے اس کتاب کے طبع ثانی کی بات کی تھی اور وہ رضا مند بھی ہو گئے تھے ، نیز انہوں نے خود مرحوم کے ساتھ رابطہ بھی کیا تھا۔ تاہم ان کے ہاں پہلے ہی کتابوں کی ایک لائن لگی ہوئی تھی اور جیلانی صاحب کو بہت جلدی تھی۔ اس لیے وہ بات بیچ ہی میں رہ گئی۔ تاہم، بک ہوم سمیت جو بھی ادارہ یہ کتاب چھاپے گا ، گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ بلکہ ان کی کئی اور کتابیں اشاعت کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ جیلانی صاحب! آپ ہمیں بہت یاد آئیں گے !
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
دلی دعا ہے کہ خدا وند تعالیٰ انہیں انپے جوار رحمت میں جگہ دیں، آمین ؎
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
آج کا مطلع
مرنے والے مر جاتے ہیں
دنیا خالی کر جاتے ہیں