تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-06-2017

دولہا منڈی

ایک مشہور قوّالی میں ٹیپ کا مصرع تھا ع 
بولو جی، تم کیا کیا خریدو گے؟ 
یہ دنیا بھی اس مصرع کے مصداق ہے۔ یہاں کیا ہے جو نہیں بکتا؟ آپ صرف سوچیے... جو کچھ آپ سوچیں گے وہ کہیں نہ کہیں بکتا ہوا ملے گا۔ دام دیجیے اور خرید لیجیے۔ 
بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے 38 اضلاع میں مدھوبنی بھی شامل ہے۔ اِس ضلع میں میتھلک برہمنوں کا ایک میلہ یا بازار لگتا ہے جس میں دولہا فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں! یہ دولہا منڈی ''سوراٹھ سبھا گاچھی‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ ''درخشاں‘‘ روایت سات سو سال پرانی ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں کے علاوہ بیرون ملک سے بھی لوگ اِس نو روزہ میلے میں اپنی بیٹیوں کے لیے مناسب بر ڈھونڈ کر چٹ منگنی پٹ بیاہ کے فارمولے پر عمل کرتے ہیں۔ 
دولہوں کی خرید و فروخت؟ بات عجیب سی لگتی ہے نا۔ ویسے بھارت اور پاکستان دونوں ہی معاشروں میں لڑکوں کو بالعموم فروخت ہی کیا جاتا ہے۔ جہیز کے نام پر لڑکے والے اپنے مال کی بولی ہی تو لگاتے ہیں۔ اور لڑکی والے بیٹی کا گھر بسانے کے نام پر دراصل دولہا کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ مگر ہمارے خیال میں یہ سب زائد از ضرورت ہے۔ لڑکے کے والدین جگر کا ٹکڑا چاہے جتنے لاکھ میں بیچیں، وہ بے چارہ تو بن دام بکتا ہے! کسی بھی دولہا کو خریدا جائے یا نہ خریدا جائے... ہر دو صورت میں نتیجہ ایک ہی برآمد ہوتا ہے۔ یعنی چُھری کے مقابل شامت خربوزے ہی کی آتی ہے! 
اس پورے خطے کی عمومی معاشرت یہ ہے کہ مرد خود کو مرد نہیں بلکہ گدھا سمجھے اور زندگی بھر دُم دبائے اپنی مادہ یعنی اہلیہ محترمہ کی خدمت کرتا رہے! ایک شادی شدہ آدمی زندگی بھر بھگتان ہی تو کرتا ہے۔ جہیز میں کچھ ملا ہو نہ ملا ہو، اُسے تو زندگی بھر دینا ہی ہے۔ ہم جب بھی رضاکارانہ زن مریدی کے حوالے سے گدھے کی مثال دیتے ہیں تو ہمارے بہت سے شادی شدہ دوست ناراض ہو جاتے ہیں۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ ہم مثال دینے کے لیے کوئی اور جانور منتخب کر لیں مگر یقین کیجیے کہ ازدواجی زندگی میں خدمت کے جذبے کو بیان کرنے کے لیے ہمیں گدھے سے زیادہ موزوں جانور دکھائی نہیں دیتا، بالخصوص اطاعت اور فرماں برداری کی مثال دینے کے حوالے سے! اور جناب، سچ تو یہ ہے کہ شادی شدہ افراد بازی لے گئے ہیں۔ آپ سوچیں گے وہ کیسے؟ تو وہ ایسے کہ اصلی گدھے تو تھوڑا بہت رینک کر احتجاج بھی کر لیتے، یہ بے زبان (دولہا) تو بے چارے ع 
مجبور ہیں اُف اللہ، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے! 
مدھوبنی میں دولہا منڈی لگانے والوں کو اب کون سمجھائے کہ بے چارے دولہے تو بن دام بک جایا کرتے ہیں! اور سچی بات تو یہ ہے کہ یہ زندگی بھر بیوی بچوں کی جتنی خدمت انجام دیتے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے تو اِن کی کوئی قیمت آنکنا اِن کی صریح توہین ہے! لوگ بھلے ہی valueless سمجھیں، ہم تو اُنہیں invaluable ہی سمجھیں گے!
ہم نے جب دولہا منڈی والی خبر مرزا تنقید بیگ کو سُنائی تو چند لمحات کے لیے وہ خیالات کی دنیا میں گم ہو گئے۔ گُم تاڑا ختم کرنے کے لیے ہم نے کاندھا پکڑ کر جھنجھوڑا تو مرزا عالمِ آب و گِل میں واپس آئے۔ گم ہو جانے کا سبب پوچھا تو بولے ''میاں! ہم تو اِس دولہا منڈی کا سُن کر تصوّر کی دنیا میں اپنی بے قیمتی کا ماتم کر رہے تھے۔ جب دولہا بننے کی منزل میں تھے تب ہمیں اس منڈی کا علم کیوں نہ ہوا؟ دل کے بہلانے ہی کو سہی، ہم بھی وہاں جاکر اپنی قیمت کا تعیّن کرا لیتے۔ اور کچھ نہ سہی، آج اپنی بے توقیری کے دور میں اُس قیمت کو یاد کرکے کچھ دیر دل ہی بہلا لیا کرتے!‘‘ 
ہم نے یاد دلایا کہ مدھوبنی کی دولہا منڈی میں صرف وہی نوجوان قیمت پاتے ہیں جن میں کچھ ہوتا ہے! اُس منڈی میں لین دین کے تمام اصول بخوبی بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ جیسا مال ویسے دام۔ کچرا وہاں بھی کچرے ہی کے دام جاتا ہے! 
ہم نے تو یہ بات محض سمجھانے کی غرض سے کہی تھی مگر مرزا دل پر لے گئے یعنی آگ بگولہ ہو کر بم کی طرح ہم پر پھٹنے کو بے تاب ہوگئے! زبان سے ہاتھ کا کام لیتے ہوئے ہم پر چھپٹّا مارنے کے انداز سے مرزا نے کہا ''ہم تمہاری نہیں، اپنی بات کر رہے ہیں۔ تم جیسے قلم بازوں کے تو خیر مدھوبنی کی دولہا منڈی میں بھی کیا دام لگنے تھے؟ 
پورے یقین اور اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم دولہا منڈی میںکھڑے ہوتے تو تب بھی سوا لاکھ کے ثابت ہوتے۔ قیمت کا سرٹیفکیٹ ہی نکلوا لیتے تو آج تمہاری بھابی کا منہ بند کرنے کے کام آتا۔ وہ بات بات پر ہمیں دو کوڑی کا ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اِس بے توقیری نے کیا کیا دن دکھائے ہیں!‘‘ ہم مرزا کے بھولپن پر ہنس دیے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ دولہا منڈی میں کوئی بھی دولہا کسی بڑی قیمت پر کیوں بکتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، کسی نے دس بارہ لاکھ لگا کر میڈیکل کی ڈگری لی ہے تو وہ سستے میں کیوں جائے گا؟ ماں باپ تو یہی چاہیں گے ناں کہ بیٹے پر کی ہوئی سرمایہ کاری منافع کے ساتھ وصول ہو۔ ایسے میں مرزا جیسے کسی نام نہاد دولہا کی بھلا کیا قیمت لگنی تھی۔ ہم نے عرض کیا کہ مدھوبنی کی دولہا منڈی میں آپ نہ ہوئے تو اچھا ہی ہوا۔ مرزا نے حیران ہوکر پوچھا ''کیا مطلب؟ ہم اُس منڈی میں ہوتے تو ایسا کیا ہو جاتا کہ ہمیں شرمندہ ہونا پڑتا؟‘‘ 
ہم نے بہ صد خلوص، دست بستہ عرض کیا کہ اگر آپ اُس منڈی میں اپنی قیمت لگوانے جاتے تو لوگ الجھن میں پڑ جاتے کیونکہ اچھی خاصی مغز پاشی کے بعد بھی یہ طے نہ پاتا کہ آپ کی کوئی قیمت لگائی جائے یا منڈی میں آپ کی آمد کو سنگین مذاق سمجھ کر آپ کی دُھنائی فرمائی جائے! آپ کہتے ہیں کہ بھابی آپ کو دو کوڑی کا ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے خیال میں تو یہ اُن کی انتہائے سادگی ہے وگرنہ ایسی کسی کوشش کی کچھ خاص ضرورت تو نہیں! خیر، دولہا منڈی کا وجود بالکل اُسی کیفیت کو بیان کرتا ہے جو غالبؔ نے جنت کی حقیقت کے حوالے سے بیان کی تھی یعنی یہ کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔ لڑکی والے شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ بہت زیادہ جہیز دینا پڑتا ہے۔ اگر ایمان داری سے سوچیے اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ گھوم پھر کر فائدے میں لڑکی والے ہی رہتے ہیں یعنی یوں کہیے کہ لڑکی اُنہیں فائدے کے دائرے میں رکھتی ہے! دولہا اگر بڑی قیمت پا بھی لے تو اُس کے ہاتھ کیا آتا ہے؟ کچھ دن ماں اور بہن بھائی تھوڑے بہت مزے لُوٹتے ہیں اور بعد میں سارے مزے اہل و عیال لے اُڑتے ہیں۔ شادی شدہ مرد تو زندگی بھر ''سہولت کار‘‘ کا کردار ادا کرتا رہتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved