بلوچستان کی سرکاری پارٹی کے ایم پی اے کی گاڑی نے معصوم بچوں اور لاوارث بیوہ کے واحد کفیل کو کوئٹہ میں روند کر بے رحمی سے برسرِ عام قتل کر دیا۔ مقتول ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ کے پیٹی بند بھائی قاتل کو بچانے دوڑ پڑے۔ دن دِیہاڑے In the line of duty ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ کے دہشت گردانہ قتل کی واردات ویڈیو ٹیپ پر موجود ہے‘ مگر بزدل قیادت کے بزدل اہلکاروں نے پرچہ نامعلو م کر دیا۔ گاڑی رکنِ اسمبلی کی ہو یا پہاڑ میں چُھپے کسی نان سٹیٹ ایکٹر کی‘ ہر مقتول کے خون کا قانون قصاص مانگتا ہے۔ دفعہ 302 تعزیراتِ پاکستان پڑھ لیں۔ یہ لیڈر ہیں یا قصائی کہیں کے۔ اپنے ہی محافظوں کو قتل کرنے والے۔ پہلے مارتے ہیں پھر کہتے ہیں: مالک کی رضا یہی تھی۔ قاتل کو فوراً سزا ہونی چاہیے۔ اس پر بات نہیں کرتے۔
احمد پور شرقیہ میں پاکستان کے 200 کے قریب بے گناہ شہری شعلوں میں جل کر راکھ ہو گئے۔ 200 سے زیادہ پٹرول میں تلے گئے اور عمر بھر کے لیے معذور ہوئے۔ حکمران اشرافیہ کہتی ہے لالچی لوگ ''بھوکے ننگے سرائیکی علاقے کے پکھی واس‘‘ پٹرول کی ہوس میں مارے گئے۔ ان کا پہلا نوحہ بھی سرائیکی زبان میں یوں لکھا گیا:
عید منا تو لندن اِچ
اساں سڑ گئے ہاں تے کیا تھیِ گئے
اساں ملک ترے دے کملے، کوجھے
اساں پکھی واس کٹان کمی
ساڈا جیون کیا ساڈا مرن کیا
کوئی ٹینکر روڈ تے ساڑ ڈیوے
کوئی بم دھماکہ مار ڈیوے
کوئی چوک چراہے چ ایم پی اے
ساکو کار تے ہیٹھ لتاڑ ڈیوے
کوئی عید‘ بکر عید محرم ہِے
ہر جشن تے ساڈا ماتم ہِے
اساں لوک جو جمدو مرنڑ کیتے
یا خان دی چاکری کرنڑ کیتے
توں خوش تھی لندن عید مَنا
تیرا قوم دے نال تعلق کیا؟
تیرے حسن حسین دی خیر ہووے
تیری مریم بی بی راج کرے
اَساں رُل گئے ہاں، توں فکر نہ کر
اساں کہڑِے یار قطار اچ ہائیں۔۔۔؟؟؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب نے کوئٹہ کی اس دہشت گردانہ واردات کا سُوو موٹو نوٹس لے لیا ہے۔ تین دن میں سپریم کورٹ کے روبرو مقدمے کی تفتیش آئے گی۔ تب قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ صاحب ہوں گے۔ فوجداری قانون کی باریکیاں اور نازکی خوب سمجھنے والے۔ اسی عدالتِ عظمیٰ نے کوئٹہ قتل کیس سے پہلے شاہ رخ جتوئی کے مقدمے میں سُوو موٹو نوٹس لیا۔ بعد ازاں ایک بھرپور فیصلے کے ذریعے ملک کی آخری عدالت نے قرار دے دیا کہ دہشت گردی کے مقدمات میں راضی نامہ ممکن نہیں۔ چلئے اس مقدمے کا ریکارڈ دیکھے بغیر فرض کر لیتے ہیں کہ ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ قتل کیس میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ مجریہ 1997 کی دفعہ7 نہیں لگائی گئی۔ تب بھی فاضل عدالتِ عظمیٰ کے سامنے 2 راستے کھلے ہوں گے۔ پہلا قانونی آپشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے مشرف کیس کے فیصلے کی نظیر سے کھلتا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر کے خلاف جج حضرات کو معطل کرنے کا مقدمہ درج ہوا۔ جرم قابلِ ضمانت تھا۔ وکیل صاحب نے قابلِ ضمانت جرم میں ضمانت قبل از گرفتاری مانگی تو ہائی کورٹ کے روبرو کیس کی سماعت ہوئی۔ فاضل جج ہائی کورٹ نے مقدمے میں قانون دہشت گردی کی دفعہ 7 کے اضافے کا حکم جاری کر دیا۔ اس مقدمے کا ٹرائل آج بھی چل رہا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے سُوو موٹو نوٹس کی سماعت کے دوران شا ہ رخ جتوئی اور آن ڈیوٹی رینجرز اہلکاروں کے مقدمے میں بھی ایسے ہی احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے سامنے دوسرا راستہ مقدمے کی تفتیش کی مانیٹرنگ کا ہے تاکہ رُول آف لا اور قانون کے بے باک، شفاف استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے بھی تازہ ترین عدالتی نظیر موجود ہے۔ یہی کہ کے پی کے صوبے کی بی کے یونیورسٹی نوشہرہ کے طالب علم مشال خان کے قتل کا مقدمہ سپریم کورٹ کی میز پر پڑا ہے۔
یوں تو برابری، انصاف، مساوات، بے رحمانہ احتساب، انصاف تک رسائی، عام اور خاص آدمی سے یکساں سلوک، فوری اور سستا انصاف، غریب کے دروازے پر کے نعرے ملک کی ایگزیکٹو، جوڈیشری اور مقننہ سے اکثر سننے کو ملتے ہیں‘ مگر حقیقت میں یہ خوش نما نعرے رنگ گورا کرنے والی بیوٹی کریم جیسے ہیں۔ آپ اسے قتل کے مقدمے میں ملوث بڑے لوگوں کی طرف سے چھوٹے مظلوموں کو ''نقد ادائیگی والی کریم‘‘ کہہ لیں۔ بلوچستان حکومت نے گورنر کے قریبی عزیز کو اس مقدمے سے چھڑوانے کے لیے کالے کو گورا کرنے والی یہی کریم استعمال کی۔ قومی پریس گواہ ہے‘ کراچی کی ایک ماں کو بچے کا لہو بیچنے کا طعنہ دیا گیا تھا۔ درد کی ماری دُکھیاری ماں نے رپورٹر کو جواب دیا: میری ایک نوجوان بیٹی بھی ہے۔ بااثر قاتلوں کو معاف نہ کروں تو پھر وہ میری بیٹی تک پہنچ جائیں گے۔ وہی پرانا کراچی‘ یہ دراصل تاریخی دیبل کا شہر ہے جہاں ساحل کنارے کسی بیٹی کی چیخ پر محمد بن قا سم کِھچا چلا آیا تھا۔ لاہور میں بھی ایسا ہی ہوا۔ بااثر قاتل اپنے عزیزوں کی رہائی کا پروانہ قومی خزانہ لوٹ کر بنائی گئی کرپشن کی کمائی سے لنڈے کے بھائو خرید لیتے ہیں‘ مگر کوئٹہ کے ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ قتل کی لُوٹ سیل والا گِروہ تو سب سے آگے نکل گیا۔ بے حمیت اور بے رحم نظام کا ہر نمائندہ جوتے اتار کر جرم کی پشت پناہی میں جُت گیا۔ کوکھ جلی پارلیمنٹ، کرپٹ سیاسی اشرافیہ، گونگا، لنگڑا، لُولا نظام، بے وارث آئین، سرمایہ داری، جاگیرداری، چور بازاری کا راج، مر گیا قانون۔ انصاف ہجرت میں ہے۔ مساوات کتابوں میں۔ صوبائی اسمبلی کا حکومتی رکن گرفتار ہو تو بھی وی وی آئی پی ہے۔ ایئرکنڈیشنڈ SUV ہیں۔ غریب جمشید دستی کے لیے مجرموں والا ٹرک، ہتھکڑی، بِچّھو، سنپولیے، لِترول، بھوک اور جبری جاگتے رہنا۔ یہاں آ کر قلم ٹوٹ جاتا ہے۔ فیض نے ایسے ہی لدّنی مرثیہ نہیں کہا۔
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کی پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پے وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے جہاں تک لائے قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیل غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تا ریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہِجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے