سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد اور وزیر داخلہ سمیت کئی عہدے داروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ شاید یہ بہت زیادہ حیران کن نہیں۔ اس کی بنیاد گزشتہ چند برسوں سے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ اور اس سے جنم لینے والا معاشی بحران ہے جو خطے کی دوسری بادشاہتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ آٹھ دہائیوں سے برسر اقتدار السعود شاہی خاندان کے اندرونی مسائل منظر عام پر آ رہے ہیں۔ شاہ سلمان کی جانب سے اپنے بھتیجے کی جگہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کرنا بھی انہی مسائل کا اظہار ہے۔
یہ یک لخت تبدیلی ایک ایسے وقت پر کی گئی‘ جب سعودی حکومت کو قطر اور ایران کے ساتھ کشیدگی اور یمن کی جنگ میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے پھر سے زور پکڑنے کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بھی معاشی اور سماجی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ 31 سالہ محمد بن سلمان کے ولی عہد نامزد ہونے سے اس کے پاس معیشت، خارجہ امور اور خطے میں جاری تنازعات میں بلا کسی روک ٹوک مداخلت کرنے کی طاقت آ گئی ہے۔ اس رسمی نامزدگی سے پہلے بھی دفاع، معیشت اور تیل کی پالیسی نیا ولی عہد ہی چلا رہا تھا، جس میں ریاستی تحویل میں دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کی نجکاری بھی شامل ہے۔
تیل کی آمدن میں کمی اور بڑی حد تک بالائی درمیانے طبقے کی خاطر ریاستی شاہ خرچیوں کے باعث ملکی بجٹ کا خسارہ ریکارڈ سطح پر جا پہنچا ہے۔ تین برسوں میں تیل کی قیمتوں میں 60 فیصد کمی سے نمٹنے کے لیے حکومت کو بانڈ مارکیٹ سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے اور بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے پندرہ فیصد پر جا پہنچا ہے۔ نئے ولی عہد شہزادہ محمد ''وژن 2030ء‘‘ منصوبے کے تحت معیشت کو دوسرے شعبوں تک پھیلانا چاہتے ہیں‘ لیکن یہ انتہائی مشکل ہے۔ معیشت کے دیگر شعبوں کو ترقی دینے کے لیے درکار بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے لیے آرامکو اور دیگر ریاستی اداروں کی نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم نا کافی ہو گی۔ گزشتہ برس اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ خاصا مایوس کن رہا‘ اور تیل کے علاوہ معیشت کی شرح نمو تقریباً صفر تھی اور حکام تسلیم کر رہے ہیں کہ 2017ء میں یہ شاید 0.5 فیصد تک ہو گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ولی عہد اور اس کے مہنگے مغربی مشیر ایک ایسے عہد میں ملک میں صنعت کاری کرنا چاہ رہے ہیں جب عالمی سطح پر سرمایہ کاری بری طرح سے زوال پذیر ہے۔ جب چین تک میں پیداوار گر رہی ہے اور مغربی سرمایہ دار ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے پیسے نہیں ہیں تو ایک مرتے ہوئے نظام میں سعودی عرب کے وسیع صحرائوں کو جدید صنعتی سماج میں نہیں بدلا جا سکتا۔ شہزادے کی 'اصلاح پسندی‘ دراصل نیو لبرل معاشیات ہے جو 2008ء کے کریش کے بعد سے مغربی ممالک کو برباد کر رہی ہے۔
تیل کی عالمی منڈی میں سعودی عرب کی اجارہ داری امریکہ میں شیل(Shale) کے طریقہ کار سے تیل نکلنے سے کمزور ہوئی ہے۔ گزشتہ برس اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کیا تھا جس سے قیمتیں بڑھنے کی امید تھی۔ لیکن امریکیوں نے شیل آئل کی پیداوار بڑھا دی اور قیمتیں نیچے ہی رہیں۔ تیل کی کم قیمت اور یمن میں جنگ کے بڑھتے اخراجات سے سعودی معیشت کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے‘ جس سے ریاستی اخراجات میں کٹوتیاں کرنا پڑ رہی ہیں، یہاں تک کہ ریاستی ملازمین کی تنخواہوں اور سہولیات میں کمی کی جا رہی ہے، تعلیم اور صحت کے شعبے میں نئی فیسیں لاگو کی جا رہی ہیں، تیل، پانی اور بجلی میں دی جانے والی سبسڈی میں کٹوتیوں سے کھپت میں کمی
اور معاشی چکر محدود ہوا ہے۔ 2016ء میں بجٹ خسارہ 100 ارب ڈالر تھا۔ 2014ء میں تیل کی قیمتیں گرنے کے بعد سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 25 فیصد سے زیادہ کمی آ چکی ہے۔ غیر ملکی بینکوں سے لیے جانے والے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور حکومت عالمی بانڈ اور مالیاتی منڈی سے مزید قرضے لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
حکومت نے اچانک سے تعمیراتی منصوبوں کو ختم کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ٹھیکے دار مزدوروں کو برطرف کر رہے ہیں۔ پاکستانی اور دوسرے غریب ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن محنت کش اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں‘ جو اکثر ریاست کے جبر کی وجہ سے پُر تشدد ہو جاتا ہے۔ اپریل میں پانی کے بل اتنے بڑھ گئے کہ لوگوں کے رد عمل کی وجہ سے حکومت کو پانی اور بجلی کے وزیر کو برطرف کرنا پڑا۔
1990ء کے بعد سے سعودیہ کی آبادی دگنی ہوئی ہے۔ نصف سے زیادہ لوگ 25 سال سے کم عمر ہیں۔ خلیجی ریاستوں میں ہر سال تین لاکھ لوگ افرادی قوت میں شامل ہوتے ہیں۔ حکومتی اخراجات میں کمی سے شرح نمو میں کمی اور روزگار کے مواقع مزید کم ہوں گے۔
غیر ملکی محنت کشو ں کی جگہ مقامی لوگوں کو رکھنا اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ مقامی سعودیوں کے نسبتاً بڑے درمیانی طبقات کے پاس کام کرنے کا کوئی زیادہ تجربہ نہیں ہے اور وہ سخت اور نوکری چاکری کے کام کرنے پر آمادہ بھی نہیں ہوں گے۔ 'سعودائیزیشن‘ کی پالیسی کی کوششیں تین دہائیوں سے جاری ہیں اور مسلسل ناکام ہو رہی ہیں۔ 1980ء کی دہائی سے تارکینِ وطن محنت کشوں کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ ہو چکی ہے۔ غیر ملکی محنت کشوں کی اجرت کم اور انتہائی برے حالات میں طویل اوقات کار ہوتے ہیں، چنانچہ کارپوریٹ کمپنیاں زیادہ منافعوں کے لیے انہیں ترجیح دیتی ہیں۔
اگرچہ سعودیہ عرب کے پاس دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں لیکن اس کی فی کس آمدن تیل کے عروج (1981ء) میں 18,000 ڈالر سے گر کر 2001ء میں 7,000 ڈالر ہو چکی تھی۔ سعودی خطِ غربت یعنی17 ڈالر یومیہ سے نیچے رہنے والے مقامی سعودیوں کی تعداد کا اندازہ 12.7 فیصد سے25 فیصد ہے۔ ولی عہد کی برطرفی کے شاہی حکم نامے میں کچھ سماجی اور معاشی مراعات بھی دی گئی ہیں جن کا مقصد سماج میں سلگتی ہوئی بے چینی کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ حکم نامے کے مطابق 'سول سرکاری ملازمین اور فوجی اہلکاروں کے منسوخ اور معطل شدہ تمام الائونس اور بونس بحال کر دیے گئے ہیں‘۔
قلیل آبادیوں کو بڑے پیمانے کی مراعات دے کر عرب ممالک کی 2011ء کی عوامی تحریکوں سے بچ جانے والی خلیجی بادشاہتیں اب پرانے طریقوں سے نہیں چل سکتیں۔ سطح پر نسبتاً خاموشی کے باوجود تضادات پنپ رہے ہیں جو جلد ہی پھٹ سکتے ہیں۔ کٹوتیاں اور اخراجات میں کمی ان بغاوتوں کے لیے جنگاری ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایران، مصر، اسرائیل اور خطے کے دوسرے ممالک میں نام نہاد استحکام بہت نازک ہے اور سماج میں کسی بھی واقعہ سے پھٹ سکتا ہے۔ جنگیں عام طور پر انقلابات کو جنم دیتی ہیں۔ ایران، سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے حکمران اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ چنانچہ وہ پراکسی جنگوں کے ذریعے اپنی لڑائیاں دوسرے ممالک کی سر زمین پر لڑ رہے ہیں۔ اس کیفیت میں مراکش سے اردن تک ابھرنے والی کوئی بھی تحریک 2011ء کی نسبت کہیں تیزی سے سارے خطے میں پھیل سکتی ہے۔ سرمایہ داری کے ڈوبتے عہد میں مشرق وسطیٰ کے عوام ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ان بربادیوں کے موجب نظام کو تبدیل کر سکتے ہیں۔