تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-06-2017

عید است ودارد ہر کسے عزم تماشادہا دگر

عید گزر گئی لیکن اس کی خوشبو ابھی تک چل رہی ہے۔ ساہیوال سے ہمدم دیرینہ میاں محمد صدیق کا میانہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کا فون آیا۔کہنے لگے کہ شوال کا مہینہ پورے کا پورا عید کا مہینہ ہوتا ہے، اس کے ختم ہونے سے پہلے کسی بھی دن عید کی مبارکباد دی جا سکتی ہے۔ بہر حال، میں اپنی جگہ شرمندہ تھا کیونکہ وہ بھی سینئر ہیں اور پہلے فون مجھے کرنا چاہیے تھا۔ آپ لاء کالج تک میرے کلاس فیلو رہے ہیں۔ پرانے وقتوں کو یاد کرتے رہے ۔ آبِ رواں کو میری بہترین کتاب قرار دیا اور اس زمانے کے میرے چار شعر بھی سنائے جو نہ آب رواں میں شامل ہو سکے اور نہ میرے ریکارڈ میں موجود ہیں مطلع یاد رہ گیا ہے ؎
راتوں کو دل سے رہتی ہے تیری ہی گفتگو
نیندیں چرا کے بھولنے والے کہاں ہے تو
ان سے ایک دن پہلے برادر عزیز میاں جاوید اقبال ارائیں ایڈووکیٹ اور ان کے ساتھ میاںجہانگیر ایڈوکیٹ آ گئے ۔ کہنے لگے کہ آپ شکیلہ جبیں کی جو تعریف کرتے رہتے ہیں وہ بلاجواز نہیں۔ ینزیہ کہ سیالکوٹ ویسے بھی مردم خیز خطہ ہے جس کی مشاہیر خواتین میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی ہیںاور یہ بھی کہ سیالکوٹ چونکہ کشمیر سے ملحقہ علاقہ ہے ، اس لیے کشمیری خواتین کی خوبصورتی قدرتی طور پر یہاں بھی موجود ہے۔ پنجاب سے جو بھی افسر تبدیل ہو کر سیالکوٹ گیا، وہاں اس نے شادی ضرور کی۔ چاہے کنوارا ہو یا شادی شدہ ہو۔اسی لیے سیالکوٹ کو غلط یا صحیح طور پر ''سٹی آف ان لاز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اپنے ایک کو لیگ جمیل بھٹی کے بارے میں بتایا کہ ان کی اردو خاصی کمزور ہے۔ ایک بار ان کے گائوں کی طرف جا رہے تھے کہ وہاں ایک جوان لڑکی سرپر پانی کا گھڑا اٹھائے جاتی ہوئی نظر آئی تو ہم میں سے کسی نے کہا کہ دیکھو، وہ دوشیزہ جا رہی ہے۔ جس پر جمیل بھٹی نے حیران ہو کر کہا، تمھیں اس کا نام کس نے بتایا ہے ؟ جن دوستوں نے مبارکباد کے فون کیے، ان سب کا شکریہ، جن میں سے کئی حضرات کو جوابی میسج نہیں کر سکا۔
گوجرانوالہ سے اسلم عارفی بالعموم یاد کرتے رہتے ہیں ان کا ایک بہت خوبصورت شعر پہلے بھی آپ کے ساتھ شیئر کر چکا ہوں۔ اس دفعہ انہوں نے عید کی مناسبت سے یہ شعر بھیجا ہے؎
چلو عہدوفا کی اک نئی تجدید کرتے ہیں
چلو تم چاند بن جائو ، چلو ہم عید کرتے ہیں
ملتان سے رفعت ناہید جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ ان کی شاعری میں وقتاً فوقتاً آپ تک پہنچاتا ہی رہتا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر دو عدد بولیاں ارسال کی ہیں۔ ایک تو بے حد موقعہ کی مناسبت سے ہے؎
روزے داراں کولوں
لُک لُک لنگھدی
کڑی اوہ کھجور ورگی
............
ایویں پا نہ تریخاں لمیاں
سانوں ساڈی قید بول دے
ایک فارسی شعر کا مصرع ہے
ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے
جبکہ یہ عید تو سویوں کی ہوتی ہے اگر یہ کسی ایرانی شاعر کا مصرع ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ایران میں عید کے روز سویاں بنانے یا پکانے کا رواج نہیں ہے۔ اگرچہ حلوے کی بھی ممانعت نہیں ہے لیکن عید بہرحال سویوں ہی سے بنتی ہے جس کی مختلف ڈشیں رائج ہیں۔
عید کے روز یہ پنجابی غزل ہو گئی تھی، پیش ہے:
اکھ لڑ گئی اوہلے اوہلے 
نویاں گڈیاں، نویں پٹوہلے
آپے آئی ہوئی ہوا نے 
آپے ای دروازے کھوہلے
شام نے آن تماشا لایا
آسے پاسے رنگ وی ڈوہلے
بُھلیں تاں ربوں پے گئے آں
رج رج کے گائیے ڈھولے
چوراں نوں مگروں لاہیاتے 
آئوندے گئے ٹھگاں دے ٹولے
باہر دیاں نوں کجھ نہ لبھیا
چنگے رہ گئے وچ وچولے
منہ ای میٹ گئی ساری پرہیا
نہ کوئی ہسے، نہ کوئی بولے
کَھلے کَھلے ای، پیاں پیاں ای
اُونے ہو گئے بھرے بھڑولے
وچوں پورے سورے ظفراؔ
اتوں ای لگنے آں لوہلے
آج کا مقطع
آنکھوں میں سرخیوں کا سفر رک گیا، ظفرؔ
دیکھا تو ہم اسیر تھے نیلے گلاب کے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved