ہم تو مجبور ہیں۔ کوئی آپشن نہ بچا ہو تو جو کچھ بھی مل جائے اُسے قبول کرتے ہوئے اللہ کا شکر اور مسرّت کا اظہار کرنا چاہیے۔ دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ ہر طرح کی صورتِ حال میں ہوش و حواس قابو میں رکھتے ہوئے ممکنہ بہترین فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ خسارے کا امکان کم سے کم رہے اور معاملات اِتنے نہ بگڑیں کہ اُنہیں درست کرنا حدِ امکان سے باہر کی بات ہو جائے۔
بڑی طاقتیں جو کچھ چاہتی ہیں وہ ہمارا معاملہ نہیں۔ اور ہمارے بس میں بھی نہیں۔ ہم تو بہت حد تک تماشائی ہیں۔ پاکستان کے پاس کتنے آپشن بچے ہیں؟ حق تو یہ ہے کہ اب دوسروں کی مرضی کے مطابق چلنے ہی کا آپشن رہ گیا ہے۔ مگر ہاں، اِس معاملے میں بھی ہمیں اپنے بہترین مفاد میں، یہ تو طے کرنا ہی پڑے گا کہ کس کی مرضی کے مطابق چلنا ہے!
اسلام آباد نے ہوا کا رخ سمجھ لیا ہے اور اُسی کی مناسبت سے سمت کا تعین بھی کر رہا ہے مگر نئی دہلی اب تک ''میں نہ مانوں‘‘ کی روش پر گامزن دکھائی دے رہا ہے۔ بیجنگ اور ماسکو کی نیت اور ارادوں کے بارے میں دنیا بھر کے تحفظات کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ نئی دہلی کسی بھی بڑے علاقائی دارالحکومت سے بات بنانے کے بجائے اب تک اِسی کوشش میں ہے کہ واشنگٹن سے پینگیں بڑھائے اور ''عقلِ عمومی‘‘ کے خلاف جائے! نریندر مودی نے اب تک ''انکاری قبیلہ‘‘ اپنایا ہوا ہے یعنی خطے میں، اپنے آس پاس رونما ہونے والی انتہائی واضح تبدیلیوں پر متوجہ ہونے کے بجائے بالکل مخالف سمت سفر کے ذریعے نئی منزلوں کی تلاش کا ''مشن‘‘ شروع کیا ہے۔ بڑی طاقتوں کے کھیل پر نظر رکھنے والے حیران ہیں کہ مودی کیا اور کیوں کر رہے ہیں۔ شنگھائی میں ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس سے غیر حاضر رہ کر نریندر مودی نے خدا جانے کیا پیغام دینے کی کوشش کی، کیا ثابت کرنا چاہا۔ اِس کے بعد اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گلے لگ کر مودی نے ایک بار پھر اعلیٰ سطح پر بھونڈے پن کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ اوباما کے بھی گلے لگے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ نئی دہلی نے بیجنگ، ماسکو، اسلام آباد، انقرہ وغیرہ کو چھوڑ کر واشنگٹن کی دُم سے بندھنے کا عمل تیز کردیا ہے۔
روسی قیادت بھی بھارت کی اِس روش کو دیکھ کر حیران ہے۔ ماسکو نے عشروں تک نئی دہلی کو گلے لگائے رکھا۔ سرد جنگ کے دور میں ماسکو نے نئی دہلی کو دل و جان سے اپنایا جبکہ تب بھی واشنگٹن سے پینگیں بڑھانے میں نئی دہلی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کریملن کے پالیسی میکرز کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد مہاراج یوں نظریں پھیریں گے کہ طوطے بھی شرمندہ ہو کر بغلیں جھانکتے پھریں گے!
نئی دہلی اب بھی ہر اہم علاقائی دارالحکومت چھوڑ کر صرف واشنگٹن کے دربار سے وابستہ رہنے پر بضد ہے۔ نریندر مودی نے حالیہ دورۂ امریکا میں خطے کو یہ پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ جنوبی، جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہتا بلکہ انہیں ناکام بھی بنانا چاہتا ہے!
یہ سب کیوں ہے؟ نئی دہلی اب تک انکاری قبیلے کا جوانِ رعنا بنے رہنے پر کیوں بضد ہے؟ نریندر مودی پالیسیوں میں وہ تبدیلیاں کیوں نہیں لا رہے جو خطے کے حالات کی روشنی میں لازم ہیں؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ نئی دہلی کے پاس بھی اعلیٰ اذہان کی کمی نہیں۔ ملک کے لیے سوچنا بچوں کا کھیل نہیں۔ مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت سامنے کی بات دکھائی دیتی ہے نہ سمجھ میں آتی ہے۔ اِس وقت نئی دہلی کا مخمصہ کچھ اِسی نوعیت کا ہے۔ وہ اب تک اپنے بڑی منڈی ہونے اور نالج ورکرز کی فوجِ ظفر موج کا حامل ہونے کے زعم میں مبتلا ہے۔ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ اپنی جگہ اور مہا راج کی مرضی اپنی جگہ۔ مہا راج چاہتے ہیں کہ خطے میں ابھرنے والے نئے امکانات میں انہیں lion's share دیا جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نئی دہلی خود کو شیر سمجھ رہا ہے مگر شیر وہ ہے نہیں۔ اور دوسری طرف یعنی اُس کے مقابل ''اصلی تے نسلی‘‘ شیر موجود ہیں!
بیجنگ نے چار عشروں کی محنتِ شاقہ کے بعد اِتنی سکت پیدا کی ہے کہ امریکا سمیت کسی بھی عالمی قوت کو جواب دے سکے۔ اور پھر ماسکو نے بھی موافقت کے واضح اشارے دے کر بیجنگ کی الجھنیں کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ حقیقی ترقی یافتہ ملک ہے۔ ملک کے طول و عرض میں معیارِ زندگی معقول حد تک بلند ہے۔ کرپشن ہے مگر ایسی نہیں کہ سب کچھ داؤ پر لگ جائے۔ سوا ارب سے زائد آبادی والے ملک میں تقریباً یکساں معیارِ زندگی کا اہتمام کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔ دوسری طرف بھارت کا یہ حال ہے کہ چند بڑے شہروں میں بسنے والے (مجموعی طور پر) سات آٹھ کروڑ افراد کو معیاری زندگی بسر کرنے کے وسائل میسر ہیں۔ باقی پورا ملک شدید افلاس کی چکّی میں پس رہا ہے۔ مذہب، رنگ، نسل، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کا عمل اب تک جاری ہے۔ ایک طرف انتہا پسند ہندو مسلمانوں سے شدید نفرت کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری طرف خود ہندوؤں میں بھی ذات پات کی بنیاد پر واضح تقسیم موجود ہے۔ بھارتی معاشرے میں عدالتی سطح پر کسی حد تک انصاف کا اہتمام ہے مگر معاشرتی سطح پر انصاف کا تصور ناپید ہے۔ ایک طرف مودی سرکار مِرّیخ پر کمند ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف انتہا پسند ہندوؤں کو گائے کی حفاظت کے نام پر مسلمانوں سے کسی بھی نوع کی بدسلوکی کا پروانہ دیا جا چکا ہے۔ دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے اور بھارت اب تک ڈھائی ہزار سال پہلے دور میں سانس لے رہا ہے۔
طرح طرح کی پستیوں کو خیرباد کہنے کی توفیق بھی اب تک میسر نہیں ہوئی اور بلندیوں کی خواہش بھی توانا سے توانا تر ہوئی جاتی ہے۔ بھارتی قیادت اپنے معاشرتی، معاشی اور سیاسی تضادات ختم کرنے کی طرف نہیں جا رہی اور خطے میں سب سے آگے بھی نکلنا چاہتی ہے۔ دو کشتیوں کا سفر بھی کبھی ممکن ہوا ہے؟
بھارت کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ انکاری قبیلے کا ''جوانِ رعنا‘‘ بنے رہنے کی روش ترک کرے یعنی انکاری قبیلے سے تعلق ختم کرکے اقراری قبیلے میں آئے۔ اڑوس پڑوس کی حقیقتوں سے صرفِ نظر کرکے دور دراز کی طاقتوں سے دوستی پائیدار ثابت ہو سکتی ہے‘ نہ سود مند۔ اِس معاملے میں بھارت کو کسی اور سے نہیں، یورپ سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے جو حالات کی نزاکت کو بھانپ لینے پر اب امریکا سے فطری سی رفاقت کو بھی الوداع کہنے کا عمل شروع کر چکا ہے۔ لے دے کر ایک برطانیہ اب تک امریکا کا ''پُوڈل‘‘ بنا ہوا ہے مگر وہ بھی کب تک حقیقت سے نظر چُراتا رہے گا؟