تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     01-07-2017

مریم نواز کی طلبی اور سرور روڈ کا پلاٹ

کیا اب بھی کسی کو پاناما جے آئی ٹی کی فرض شناسی پر کوئی شک و شبہ ہے ؟ یہ احساس فرض شناسی ہی تو تھا کہ جے آئی ٹی نے عید الفطر پر صرف ایک چھٹی کی اور دو چھٹیاں عظیم قومی کازپر قربان کر دیں۔ اس سے پہلے اس نے حسین نواز کو بھی چھٹی کے روز طلب کر لیا تھا (اتوار، 28 مئی کو حسین کی پہلی پیشی) اور اس آپا دھاپی میں جے آئی ٹی کے 2 ارکان لباس شب خوابی ہی میں چلے آئے تھے۔ حسین نے جے آئی ٹی کے حوالے سے اپنے تحفظات پر مشتمل ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی تھی جس کی سماعت کے لیے فاضل عدالت نے پیر 29 مئی کی تاریخ مقرر کررکھی تھی اور یہ توقع بے جانہ تھی کہ جے آئی ٹی اپنی کارروائی جاری رکھنے کی بجائے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کرے گی۔ صرف ایک دن کی تو بات تھی لیکن احساس فرض اتنا غالب تھا کہ جے آئی ٹی نے اس معروف اخلاقیات کو نظر اندار کرنا ہی مناسب سمجھا۔
اب عید کی چھٹیاں تھیں۔ اخبارات بند تھے ۔ ٹی وی چینلز نے بھی اپنے بیشتر عید سپیشل شوز کی پہلے سے ریکارڈنگ کر رکھی تھی۔ لیکن عید کے دوسرے روز جے آئی ٹی سرگرم تھی، اس نے مریم نواز کو 5 جولائی کو طلب کر لیا تھا۔ 20 اپریل کو پانچ رکنی بنچ کے فیصلے میں جے آئی ٹی کے لیے درجن بھر نکات کا جو ایجنڈا تجویز کیا گیا، اس کے Respondents میں مریم نہیں تھی۔ اب ان کی طلبی ''ٹاک آف دی ٹائون‘‘ بن گئی۔ افغان جہاد کے دنوں کے آئی ایس آئی کے سٹار انٹیلی جنس افسر، میجر عامر نے اس بار عید لاہور میں منانے کا فیصلہ کیا (وہ اسے اہل لاہور سے اظہار یک جہتی قرار دے رہے تھے) شامی صاحب نے ان کے لئے عید ملن لنچ کا اہتمام کیا تھا۔ شامی صاحب کی سیاسی ونظر یاتی کمٹ منٹ اپنی جگہ ، لیکن وہ اسے اپنے سماجی تعلقات میں حائل نہیں ہونے دیتے اور یوں مختلف نقطہ نظر کے حامل احباب کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں، اس عید ملن لنچ میں بھی اس کی جھلک نمایاں تھی۔ یہاں بھی جے آئی ٹی کی طرف سے مریم کی طلبی کا سمن زیر بحث رہا۔ ہمارے استاد محترم الطاف حسن قریشی کی عمر کی سنچری میں بارہ تیرہ سال کم ہیں۔ اس عمر میں بھی وہ ذہنی طور پر جو انوں کی طرح توانا ہیں، البتہ گھٹنوں کے مسائل کے باعث آنا جانا کم ہے۔ ایسے میں پیاسے خود سمندر کے پاس چلے آتے ہیں۔ عید پر ان کے ہاں بھی نیاز مندوں کا آنا جانا لگا رہا۔ میجر عامر لاہور آئے تھے تو الطاف صاحب سے ملے بغیر کیسے واپس چلے جاتے ، چنانچہ اپنے ہیوی شیڈول میں سے انہوں نے بھی ڈیڑھ دو گھنٹے بزرگ اخبار نویس کے لیے نکال لئے، یہاں بھی وہی مریم کی طلبی کی بات تھی۔ یاسر پیر زادہ کے ہاں دوسری شب کی عید ملن اب ایک طرح کا معمول بن چکی ہے۔ اس نے اپنے حلقہ احباب میں ہمیں بھی شامل کر رکھا ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ دلچسپ معاملہ یہ ہوا کہ نماز عید کی ادائیگی (اور قبرستان سے واپسی) کے بعد پہلا کام دوست احباب کو واٹس ایپ، ایس ایم ایس اور فیس بک کے ذریعے مبارک سلامت کہنے کا کیا اور اس کے بعد موبائل فون سے ناتہ صرف کال کی وصولی تک رکھا، سینکڑوں عید مبارک کی '' وصولی ‘‘ فارغ وقت پرا ٹھا رکھی۔ یاسر کے عیدملن ڈنر کا ایس ایم ایس بھی اسی کی نذر ہو گیا۔ چنانچہ ہم تو حاضر نہیں تھے، لیکن دوستوں نے بتایا کہ وہاں بھی مریم ہی موضوع بحث تھیں۔ گزشتہ شام قاسمی صاحب نے ایک ہوٹل میں عید ملن ہائی ٹی کا اہتمام کر رکھا تھا۔ حلقہ احباب کی وسعت کے حوالے سے ان کا معاملہ بھی شامی صاحب کا سا ہے، موضوع یہاں بھی وہی تھا۔ (سیاسی مخالفین کے ہاں بھی یہ گفتگو کا لذید موضوع تھا) ۔
اس وقت پاکستانی سوسائٹی سیاسی لحاظ سے Highly Polarized ہے۔ لیکن ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر چیزوں کو دیکھتے اور ایونٹ ٹو ایونٹ اپنی رائے رکھتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی کی اپنی اخلاقی ومعاشرتی اقدار ہیں ، کہنے والے انہیں ''مڈل کلاس Virtues‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہاں مریم نواز کے حوالے سے ہمدردی کی ایک لہر سی اٹھی اور پھیلتی چلی گئی۔جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے اختیار کردہ طریق کار، اور پھر خود اس کے اپنے رویے کے حوالے سے پہلے ہی متعدد سوالات موجود تھے۔ رحمن ملک کی گواہی بھی تفنن طبع کا موضوع بن گئی۔ ذوالفقار مرزا انہیں وہ ''عادی جھوٹا کہا کرتے ‘‘،فون پر گفتگو میں پوچھو، کیا ہو رہا ہے تو جواب ملے گا، کیلے کھا رہا ہوں۔ حالانکہ موصوف سیب کھا رہے ہوں گے۔ گزشتہ شب مسجد سے نکلتے ہوئے، ہم آٹھ دس پڑوسیوںمیں جے آئی ٹی زیر بحث تھی۔ مریم کی بات آئی تو کینیڈا والے شیخ الاسلام کے ایک عقیدت مند بھڑک اٹھے، ''ڈاکٹر صاحب نے تو اس روز لاہور ائیر پورٹ پر اترتے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ جے آئی ٹی دراصل مسلم لیگ ن کا الیکشن سیل ہے۔ یہ 2018 کی الیکشن مہم ہے جس کا آغاز ہو گیا ہے۔‘‘ ان کا اشارہ مریم نواز کی طلبی پر عوام میں اٹھنے والی ہمدردی کی لہر کی طرف تھا۔ سنا ہے، اب بیگم صاحبہ کو طلب کرنے کا بھی سوچا جا رہا ہے ۔ ایک دل جلے نے کہا، کوئی جے آئی ٹی والوں کو یاد دلائے کہ میاں صاحب کی والدہ محترمہ بھی اللہ کے فضل سے سلامت ہیں، ایک نوٹس انہیں بھی ہو جائے۔ اور ہاں ! میاں صاحب کی چھوٹی صاحبزادی اسماء (اسحاق ڈار کی بہو) بھی تو ہیں، حسین کو چھٹی بار اور حسن کو تیسری بار طلب کر لیا گیا ہے، تو لگے ہاتھ اسماء کو بھی بلالو۔ (میاں صاحب کے کزن طارق شفیع کو تیسری بار بلایا گیا ۔) حسین نے پانچ پیشیوں میں جے آئی ٹی کچھ نہیں نکال سکی تو اب چھٹی پیشی پر کیا نکال لے گی؟
جے آئی ٹی میں تازہ گواہ جنرل امجد تھے، 2اکتوبر1999 کے بعد جنرل مشرف کے نیب کے پہلے سربراہ کہا جاتا ہے، ڈکٹیٹر نے نیب کو سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ، تو جنرل امجد نے شائستگی سے معذرت کر لی، جسے قبول کر لیا گیا اور جنرل امجد نیب سے واپس چلے گئے۔ ان ہی دنوں ایک اور خبر بھی شائع ہوئی تھی۔ لاہور کینٹ کی سرور روڈ پر ایک پلاٹ کی الاٹ منٹ کی خبر۔ یہاں امرودوں کے ایک باغ کو ایک ایک کنال کے چار پلاٹوں میں تبدیل کر کے چار جرنیلوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یہ کہانی بھی سننے میں آئی اور اخبارات میں بھی شائع ہوئی کہ ان میں جنرل امجد بھی تھے۔ ایک پلاٹ کی سرکاری قیمت 5 لاکھ روپے تھی۔ انہوں نے یہ پلاٹ انہی دنوں 45 لاکھ روپے میں ایک سویلین کو فروخت کر دیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ قواعد اور ضرورت کے مطابق ہوا ہو مگر عام لوگوں کو یہ منطق سمجھانا مشکل ہوتا ہے ۔
اس وقت پاکستانی سوسائٹی سیاسی لحاظ سے Highly Polarized ہے۔ لیکن ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر چیزوں کو دیکھتے اور ایونٹ ٹو ایونٹ اپنی رائے رکھتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی کی اپنی اخلاقی ومعاشرتی اقدار ہیں ، کہنے والے انہیں ''مڈل کلاس Virtues‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہاں مریم نواز کے حوالے سے ہمدردی کی ایک لہر سی اٹھی اور پھیلتی چلی گئی۔جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے اختیار کردہ طریق کار، اور پھر خود اس کے اپنے رویے کے حوالے سے پہلے ہی متعدد سوالات موجود تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved