تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     01-07-2017

خاک اور خمیر کا تعلق

آج کے کالم کا عنوان جس جانے پہچانے مصرعے سے لیا گیا ہے وہ آپ نے ضرور سنا اور پڑھا ہوگا ۔؎ 
پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
اگرہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری خاک کہاں پہنچی تو اس کا ایک آسان طریقہ مذکورہ مصرعے میں بتایا گیا ہے۔ ہم نظر دوڑائیں اور یہ پتہ کریں کہ اس خاک کا خمیر کہاں سے اُٹھا؟ خاک بھی ہماری اور خمیر بھی ہمارا۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ ہم اپنے خمیر کا انتخاب بڑی احتیاط سے کریں چونکہ وُہی ہماری خاک کی آخری آرام گاہ ہے۔ خمیر کے معانی کے بارے میں ذہن میں سوال اُٹھا تو میں نے حسب معمول آکسفورڈ اُردو انگریزی لغت سے رُجوع کیا۔ صفحہ نمبر552 کے دُوسرے کالم میں یہ لفظ پندرہویں نمبر پر تھا۔ ایک تو وہ خمیر ہے جس کا تعلق روٹی سے ہے۔دُوسرے خمیر (جو زیادہ اہم اور توجہ طلب ہے) کے معنی ہیں ''ترکیب‘ اندرونی ساخت‘ مزاج اور فطرت۔‘‘ اتنی لمبی تمہید کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ 26 مئی کو امریکہ میں ایک شخص دُنیا سے رُخصت ہوا۔ پورا نام تھا۔ Zbigniew Kasimierz Brzezinski ۔ 89 سال عمر پائی۔ شیطان صفت‘ انسان دُشمن‘ سامراجی ذہن اور اسی وجہ سے ایک ایسے چہرے کا مالک جس پر نحوست اور خباثت چھائی ہو۔ امریکہ میں سفید فام نسل پرست اور قابل رحم لوگوں کی کوئی کمی نہیں‘ انہی کے ووٹوں سے ٹرمپ جیسا شخص امریکہ کا صدر بنا۔ مگر جب بھی امریکی حکمران طبقہ سیاہ فاموں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرتے ہوئے انہیں بڑے عہدے دیتا ہے۔ (مثلاً جنرل پاول اور صدر بش کی سیکرٹری آف سٹیٹ ۔Condoliza Rice) یا یوروپی مہاجرین کی اگلی نسل کو کلیدی اسامیوں پر مقرر کرتا ہے (مثلاً جرمن نسل کے Henry Kissinger او رپولینڈ میں پیدا ہونے والا برزنسکی) تو بدقسمتی سے مذکورہ بالا حُدود اربعہ والے افراد نے شرافت‘ بقائے باہم‘ عالمی امن‘ قانون کی حکمرانی اور انسان دوستی کی بجائے غنڈہ گردی‘ بین الاقوامی قانون کی پامالی (مثلاً ویت نام‘ افغانستان‘ عراق اورلیبیا میں) اندھی طاقت کے وحشیانہ استعمال‘ جمہوری راہنمائوں کو سازش اور بدمعاشی سے راستے سے ہٹا کر آمروں (بشرطیکہ وہ امریکی حاشیہ بردار اور کٹھ پتلی ہوں) کی سرپرستی کی پالیسی کو اپنایا۔ اپنے آقائوں کو اپنے انسان دُشمن نظریات کی پٹی پڑھائی اور اُنہیں اُس طرف دھکیلا جہاں ایک مغرور‘ طاقت میں بدمست اور کوتاہ اندیش قیادت جانا چاہتی ہے۔ دُوسرے الفاظ میں امریکی صدر کو وُہی مشورہ دیا جو وہ سننا چاہتا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل Ramsay Clark کا نام اس اندھیرے میں روشن ستارے کی طرح چمکتا ہے۔ کالم نگار امریکی سیاست کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا مگر ایک بات ضرور جانتا ہے کہ یہ ہونہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ امریکہ سے اتنے ناراض ہوں کہ اُنہوں نے اُسے ریمزے کلارک ، پروفیسر نوم چومسکی (یہودی ہونے کے باوجوداسرائیل مخالف) پروفیسرRosenbergs (جس جوڑے کا مرثیہ فیض صاحب نے لکھا) Elizabeth Warren‘Bernie Sanders اور Senators کے علاوہ کوئی اور اچھا اور نیک دل اور انسان دوست جج یا قانون ساز پروفیسر یاسیاست دان نہ دیا ہو۔
برزنسکی نے 1955 ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وائٹ ہائوس میں امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی سے فارغ ہونے کے بعد وہ کولمبیا یونیورسٹی میں John Hopkins School میں بین الاقوامی اُمور پڑھانے لگا مگر ہارورڈ یونیورسٹی نے اُسے اپنے ہاں مستقل ملازمت (بطور پروفیسر) نہ دی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ویت نام جنگ میں امریکی مداخلت کا حامی تھا۔ 1977 ء میں جمی کارٹرنے امریکی صدر کے عہدہ کا حلف اُٹھایا تو وہ وائٹ ہائوس میں اُن کا خارجی اُمو ربارے مشیر اعلیٰ بن گیا۔ 1979 ء میں افغانستان میں رُوس کی فوجی مداخلت کے صرف ایک ماہ بعد وہ پاکستان آیا تاکہ ''مجاہدین‘‘ میں امریکی ڈالر اور امریکی اسلحہ کی تقسیم کا نظام تشکیل دے سکے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اُس نے امریکی حکومت کو اس بات پر قائل کر لیا کہ وہ اُسامہ بن لادن کو بہت بڑی رقم دے کر رُوس کے خلاف جنگ میں اپنا آلہ کار بنالے۔ امریکی جاسوسی ادارے CIA کے دفاتر میں جس ''جہاد‘‘ کا خاکہ تیار کیا گیا اُس کے مطابق ہر امریکی کٹھ پتلی (نام نہاد مجاہدین) کو نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کی مکمل سرپرستی حاصل تھی بلکہ اُس پر امریکی ڈالروں اور ہتھیاروں کی بارش کر دی گئی۔ 
میرے قارئین کی بڑی تعداد نے عملی زندگی میں یہ مشاہدہ کیا ہوگا کہ بہت سے لوگ اُن افراد کو اپنے قریب لاتے ہیں۔جو مزاج ‘ کردار‘ اخلاق اور اُفتاد طبع کے اعتبار سے اُن سے بالکل مختلف ہوں‘ اتنے مختلف کہ متضاد۔ یہ مشاہدہ ہمارے ہاں مقبول عام ہونے والے ایک مفروضہ کی نفی کرتا ہے جس کے مطابق ہر شخص اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ غالباً شیخ سعدی نے ہمیں یہ پٹی سب سے پہلے پڑھائی تھی کہ ہر پرندہ اپنے ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتا ہے اور اُنہوں نے شعر کے ردیف اور قافیہ کا خیال رکھتے ہوئے کبوتر اور باز کی مثال دی تھی۔ یہ کالم نگار حق گوئی اور بے باکی (اور بقول اقبال لومڑی کی بجائے اللہ کا شیر بن جانے کی کاوش) کے جتنے بھی بلند بانگ دعوے کر لے وہ شیخ سعدی کی تردید کرنے کی گستاخی ہر گز نہیں کر سکتا۔ کبوتروں اور بازوں کے معاملہ میں تو میں اورآپ شیخ سعدی کے فرمان کو آخری حرف سمجھیں مگر جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے میں آپ کو اپنے مندرجہ بالا مشاہدہ کے بیانیہ میں شریک کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کئی بار دیکھتے ہیں کہ ایک نیک فطرت شخص نے بد فطرت شخص کو اپنا دوست بنا رکھا ہے۔ کئی ازدواجی رشتے محض اس وجہ سے کامیاب رہے کہ خاوند اور بیوی کے مزاج بالکل متضاد تھے۔ ایک خلوت پسند اور دُوسرا مجلسی۔ ایک کم گو اور دُوسرا بسیارگو۔ ایک کا دھیما مزاج اور دُوسرے کا تند و تیز۔ معافی چاہتا ہوں کہ میں نے اتنی لمبی تمہید صرف یہ بیان کرنے کے لئے لکھی کہ صدرکارٹر جتنے نیک دل‘ امن پسند اور شریف طبع تھے (زندہ ہونے کی وجہ سے اب بھی ہیں) اُن کے مشیر خاص (برزنسکی) کی ذہنی اُفتاد اتنی مختلف تھی کہ اُسے بعد المشرقین کہا جا سکتا ہے۔ یہ شخص جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ کا صدر بن جانیوالے جنرل Eisenhower کی سوویت یونین کے ساتھ تعلقات میں اپنائی جانیوالی پالیسی (یوروپ سے امریکی پسپائی تاکہ تیسری جنگ عظیم نہ چھڑ جائے)پر سخت تنقید کرتا رہا۔ پولش ہونیکی وجہ سے وہ رُوس او رجرمنی (جو بار بار پولینڈ پر قابض ہوتے رہے) دونوں کیخلاف شدید جذبات رکھتا تھا۔ صدر کارٹر کے دور حکومت کو تین بڑے بحرانوں نے ہلا کر رکھ دیا۔ عرب ممالک کی طرف سے عائد کردہ Oil Embargo (تیل کی پیداوار پر پابندی)۔ ایران میں انقلاب اور امریکی سفارت خانہ کے عملے کی طویل نظر بندی اور افغانستان میں رُوس کی مداخلت۔ اُمور خارجہ پر لکھی جانیوالی کتابوں میں کئی محققین نے یہ سنگین الزام بھی عائد کیا ہے کہ در پردہ برزنسکی نے سوویت یونین کو افغانستان میں فوجی مداخلت پر اُکسایا اور اُس کی حوصلہ افزائی کی اور اس شیطانی چال کا مقصد سوویت یونین کو افغان دلدل میں پھنسا کر ذلیل و خوار کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ برزنسکی ہمیشہ اس الزام کی پرُ زور تردید کرتا رہا۔ مرنے سے پہلے برزنسکی کو یہ دیکھ کر خوشی ملی ہوگی کہ اُس کے نظریات سے سو فیصدی متفق ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر بن گیا ہے۔ اب برزنسکی وہاں پہنچ گیا ہے‘ جہاں اُسے اپنے اعمال کا حساب دینا پڑیگا۔ برزنسکی کا ذہنی خمیر جہنم سے اُٹھا۔ اب اُسکی خاک وہاں پہنچی ہوگی تو مکافات عمل کا ایک مظاہرہ مکمل ہوا اور یہ عمل غالباً اس کے لیے زیادہ خوشگوار نہ ہوگا۔ جو برُے لوگ اس دُنیا کوجہنم زار بنانے میں زندگی گزار دیتے ہیں‘ ایک نہ ایک دن اُن کی خاک آخر اُسی جہنم کی آگ میں مل جاتی ہے۔ اسلئے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں۔ع
پہنچی وہاں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved