عید اِس بار محرم بن کر گزری۔ احمد پور شرقیہ میں دو سو (کے لگ بھگ) افراد اُلٹ جانے والے آئل ٹینکر میں بھڑک اٹھنے والی آگ سے جل کر بھسم ہو گئے، کئی ابھی تک موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ سڑک اور کھیتوں میں بہہ جانے والے تیل کو بہتی گنگا سمجھ کر اشنان کرنے والوں نے اس کی وہ قیمت ادا کی ہے کہ اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا حادثہ تھا کہ اس سے پہلے کوئی آئل ٹینکر اس طرح آگ کا بم بنتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ اس نوعیت کے چھوٹے واقعات تو پیش آ چکے، لیکن اس شدت اور وسعت سے پاکستان کی سڑکوں، محکموں اور شہریوں کو پہلی بار سابقہ پڑا۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف شتابی سے بہاولپور پہنچے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے لندن میں نمازِ عید ادا کرکے بھاگم بھاگ اِدھر کا رخ کیا۔ جاں بحق افراد کے ورثا کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دس دس لاکھ روپے پیش کئے اور زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے کی مرہم لگائی، لیکن زخم ہیں کہ برسوں مندمل نہیں ہوں گے۔ اس سانحے کی ذمہ داری کا تعین آسان نہیں ہے۔ ہائی وے پولیس کے چند اہلکاروں کو معطل کرکے آنکھوں میں دھول تو جھونکی جا سکتی ہے، ان کا پانی خشک نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا کے کئی بزرجمہر حسبِ سابق جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی مبینہ کہانیاں سنانے لگ گئے کہ نفرت اور تعصب پھیلانے کا کوئی موقع یہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ المیہ یہ ہے کہ سڑکوں پر روز درجنوں افراد لقمہ ٔ اجل بنتے، بے شمار عمر بھر کے لیے اپاہج ہو جاتے ہیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اربابِ اقتدار کو اِس کی فکر ہے، نہ اُن سیاست دانوں کو جو بات بے بات دھرنے دیتے اور سڑکوں کو لوگوں سے بھر دینے کی دھمکیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ میڈیا کو بھی اس طرح کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، وہ بے یقینی، الزام تراشی اور بیان بازی کے گرما گرم پکوڑے تلنے کو اپنے کاروبار کے لئے مفید سمجھنا اور اس کے متعلقین انہی حوالوں سے ریٹنگ بڑھانے میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان کی سڑکیں موت کا کنواں بن چکی ہیں۔ ان پر دوڑنے والے ٹینکروں، ٹرکوں، بسوں اور ٹرالوں کے باقاعدہ چیک اپ کا کوئی انتظام نہیں، ڈرائیوروں میں سے کتنوں کے لائسنس جعلی ہیں، اور کتنوں نے رشوت دے کر انہیں حاصل کر رکھا ہے، اس کا حساب کسی کے پاس نہیں۔ کون سی سڑک ٹوٹ چکی ہے، کس پر گڑھے پڑ گئے، اور کون سی ٹریفک کے قابل ہے، یہ بھی کسی کا دردِ سر نہیں۔ کس ٹینکر میں کتنا تیل ہونا چاہیے، کس ٹرک پر کتنا سامان لدنا چاہیے، ڈرائیور کو کتنے گھنٹے متواتر سفر کرنا چاہیے، سینکڑوں میل کے سفر کے لیے کتنے افراد کار مقرر ہونے چاہئیں، کراچی سے پشاور تک جاتے ہوئے کتنی دیر کے لیے اور کہاں کہاں آرام لازم ہونا چاہیے۔ یہ سب سوچنا ہمارے کسی محکمے کے بس میں نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہائی ویز پر ہر چند کلومیٹر بعد چیک پوسٹیں بنانے کا منصوبہ ترک کیا جا چکا۔ پنجاب کی حد تک چودھری پرویز الٰہی نے اس پر کام کیا تھا‘ لیکن اسے طاق نسیاں کی نذر کر دیا گیا۔ ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف ہسپتالوں کا فقدان ہے، اولاً تو ان کی تعداد ناکافی ہے، اور جو موجود ہیں، ان میں مطلوبہ ادویات موجود ہیں نہ ڈاکٹر، عملہ نہ آلات۔
یہ مانا کہ پاکستان ایک کم وسیلہ مُلک ہے، لیکن اہلِ اختیار کے اللے تللّے تو سعودی عرب کے شاہی خاندان کی طرح ہیں۔ ان کے طور طریقے اگر امریکی صدر یا برطانوی وزیر اعظم بلکہ بھارتی وزیر اعظم تک اختیار کر لے تو شام سے پہلے پہلے کان سے پکڑ کر نکال باہر کیا جائے۔ سسٹم اسے قبول کرنے سے انکار کر دے۔ لیکن پاکستان میں ہر ادارے کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اس کے ذمہ
داران کے لیے عشرت کا سامان ہونا چاہئے۔ اس کی مراعات میں اضافہ ہوتے رہنا چاہئے۔ اس کے لیے کوٹھیوں، کاروں اور چوبداروں کا بندوبست ہونا چاہیے۔ اس کی تنخواہ لاکھوں میں ہونی چاہیے۔ اسے ریٹائرمنٹ پر کروڑوں کا ''جہیز‘‘ لے کر رخصت ہونا چاہئے۔ اس کے بچوں کے لیے بیرون مُلک تعلیم کا اہتمام ہونا چاہیے۔ پاکستان میں برہمن کا روپ دھارنے والے ان شودروں نے اپنی بستیاں الگ بسا لی ہیں، اپنے ہسپتال الگ کر لیے ہیں، اپنے بچوں کے لیے درس گاہیں الگ مختص کرا لی ہیں، اور تو اور اپنے لیے قبرستان بھی الگ بنوانا شروع کر دیے ہیں۔ آبادی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے، بے روزگار اور جاہل غول در غول دندناتے پھر رہے ہیں۔ انسان نما مویشیوں کی تعداد روز افزوں ہے۔ ان کے لیے چھت ہے، نہ فرش، سکول ہے، نہ ہسپتال، کارخانہ نہ کاروبار۔ یہ وہ جناتی مخلوق ہے جو بالآخر ان سب کے گلے دبوچ لے گی، جو آج چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ لیکن کوئی اس طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کو اس ایٹم بم سے بچانے کی فکر نہیں کرتا جسے چلانے کے لیے کسی دشمن کو بٹن آن کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو گی۔
حکمرانوں کا ماتم ہمارا قومی شعار بن چکا ہے، لیکن اپوزیشن میں بیٹھے سیاست دانوں، مذہبی پیشوائوں اور سول سوسائٹی کے رہبروں کی حالت بھی مختلف نہیں ہے۔ ایک ایک شخص، ایک ایک سو بلکہ، ایک ایک ہزار افراد کے حصے کے وسائل تناول کر رہا ہے اور ڈکار بھی لینے پر تیار نہیں ہے۔ احمد پور شرقیہ کے مردہ و نیم مردہ مکین بھی ہمیں جھنجھوڑ نہیں پائیں گے۔ پارا چنار میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے درجنوں افراد بھی ہماری نیند میں خلل نہیں ڈال سکیں گے، بلوچستان میں بہتا ہوا خون بھی ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کر سکے گا کہ ہم کوئی سبق سیکھنے پر تیار ہی نہیں ہیں۔ المیے سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پارا چنار کے کشتگان کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے کئی روز دھرنا دینا پڑا۔ صدرِ مملکت، وزیر اعظم، گورنر یا کسی وزیر نے ان کا رخ نہیں کیا، آرمی چیف (بالآخر) پہنچے اور ان کی فریاد سنی۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہاں شہیدوں کے پسماندگان کے لئے دس لاکھ روپے اور زخمیوں کے لئے پانچ لاکھ روپے کا اعلان ہوا، جبکہ احمد پور شرقیہ میں یہ نذرانہ مختلف تھا۔ مانا کہ وہاں پنجاب حکومت نے بھی اپنا حصہ ڈال کر اسے دوگنا کر دیا تھا، لیکن پارا چنار میں تو وفاقی حکومت براہِ راست معاملات کی ذمہ دار ہے۔ اسے یہاں صوبائی حکومت کا حصہ بھی خود ہی ادا کر دینا چاہیے تھا۔ اس میں تاخیر کر کے قومی یکجہتی کو جو صدمہ پہنچایا گیا، کیا یہ نفسیاتی نکتہ سمجھانے کے لیے بھی سپریم کورٹ کے کسی بنچ یا جے آئی ٹی کی ضرورت ہے۔
پس تحریر: آج سیاسی حالات اور پاناما کیس کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات اور اثرات پر گفتگو نہیں ہو سکی۔ فضا میں بہت کچھ سونگھا جا سکتا ہے، بارودی دھواں بھرنے والے تجزیے بھی سنائی اور دکھائی دے رہے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ دستوری عمل میں کوئی رخنہ نہیں پڑنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاست شطرنج کا کھیل ہے اسے جنگ کا میدان یا کشتی کا اکھاڑہ قرار دینے کی ضرورت نہیں۔ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنا اور ممکنات کا جائزہ لے کر منصوبہ بندی کرنا ہوش و خرد کا اولیں تقاضا ہے۔
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اس شعر کا پہلا مصرع نادیدہ قوتوں کی نذر ہے:
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)