تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-07-2017

ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا

تھوڑی سی عزت کے لئے، سیاست میں بہت سی مفاہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کا کاروبار ہے۔ اور ہر کاروبار کے اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں۔
دو نکات جمشید دستی کے بارے میں بالکل واضح ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ حکمران خاندان کے عتاب کا شکار ہے۔ ثانیاً‘ پرلے درجے کا وہ ایک محتاط شخص ہے؛ اگرچہ ووٹروں کی اکثریت اس کی پشت پر کھڑی ہے اور جاگیرداروں سے وہ نبرد آزما ہے۔ اپنے علاقے میں وہ بادشاہت کا آرزو مند ہے۔ کوئی بھی افسر یا سیاستدان اگر راہ میں آئے تو اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔
قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ زبان درازی کی سزا وہ بھگت رہا ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی شان میں پے در پے گستاخیاں اگر نہ کی ہوتیں تو عدالت سے ضمانت کے بعد ڈیرہ غازی خان جیل سے وہ رہا کر دیا جاتا۔ ایک دوسرے کیس میں فوری طور پہ گرفتار نہ کیا جاتا۔ شہر بہ شہر رسوا نہ کیا جاتا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ تشدّد اگر ہوا تو کس قدر اور کیا واقعی اسے بھوکا رکھا گیا۔ جس طرح ٹوٹ کر وہ رو پڑا۔ جس طرح اپنی کینسر زدہ ہمشیرہ اور بوڑھی ماں کو اس نے یاد کیا۔ اپنے کمزور خاندانی پس منظر کا ذکر کیا۔ آشکار ہے کہ بدسلوکی کی گئی اور توہین میں تو لازماً مبتلا کیا گیا۔ اسی بنا پر اپنی غربت کا اس نے تذکرہ کیا، حالانکہ معروف معانی میں اب غریب وہ ہرگز نہیں۔ معزز ایوان کے رکن کی حیثیت سے معقول تنخواہ پاتا ہے۔ اسی سادہ طرزِ زندگی کے ساتھ سوچ سمجھ کر جو اس نے اختیار کر رکھا ہے، اپنی تنخواہ اور مراعات اس کے لئے کافی ہیں۔
ووٹر ضرور‘ مگر کوئی منظم گروہ اس کی پشت پر نہیں۔ پیپلز پارٹی کو اس نے ترک کر دیا۔ نون لیگ اور تحریک انصاف اسے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو سکیں۔ اپنی طاقت کا غلط اندازہ اس نے لگایا اور ان سے جا بھڑا، جو اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ کہیں زیادہ ہنرمند۔ ؎ 
ہیولا برقِ خرمن کا ہے، خونِ گرم دہقاں کا 
مری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی 
وہ ایک نظام کا حصہ ہے مگر اسے ٹھکراتا بھی ہے، ٹھکراتا کیا، ٹھوکر پہ ٹھوکر مارتا ہے۔ اسی کی قیمت وہ چکا رہا ہے۔ اگر ادراک نہ کر سکا تو آئندہ بھی چکاتا رہے گا۔ اپنے علاقے میں وہ ایک طرح کا ''رابن ہُڈ‘‘ہے۔ امیروں سے چھین کر، غریبوں کو عطا کرنے والا۔ اپنی قیادت برقرار رکھنے کے لئے ، اپنے ووٹروں کے مفادات کی حفاظت کرنے والا۔ اس کے ووٹر اس کی فوج ہیں‘ جن کے بل پر‘ ایک وار لارڈ کی طرح وہ حکومت کرتا ہے۔ 
جاگیرداروں کے غلبے کی سر زمین میں ، دستی کی نمود اور اس کا فروغ کس چیز کا مظہر ہے ؟ پیر صاحب پگاڑہ شریف سے ، ایک بار پوچھا کہ عام لوگوں سے کس قدر رابطہ وہ رکھتے ہیں ۔ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کتنا وقت عوام کو دیتے ہیں ۔ بولے : مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ گھر کے دروازے پر کیا ہوتا ہے۔
عوامی نمائندگی کا مطلب یہ ہے کہ ایک طریق کار کے تحت قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر عام آدمی کے مسائل سے آگاہ رہے ۔ مقررہ وقت پہ کسی دفتر میں بیٹھ کر ان کی شکایات سنا کرے ۔ جو شخص کسی زیادتی کا شکار ہو، اس کے ایما پر تحریری یا زبانی طور پر متعلقہ حکام سے رابطہ کیا کرے۔ اس کی داد رسی کا اہتمام کرے ۔
ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے ۔ ہمارے لیڈروں کے انداز نرالے سے ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں ۔ اپنی شاہانہ زندگیوں میں وہ مگن رہتے ہیں۔ عام آدمی سے اِبا کرتے ہیں۔ اسی خلا میں دستی ایسے کردار ابھرتے ہیں اور کبھی تو ذوالفقار علی بھٹو ایسے رہنما بھی۔ عامیوں پر ، جس نے سیاست کا دروازہ کھولا اور ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔ 
سیاست دان کا ایک فرض یہ بھی ہے کہ عام آدمی کی تربیت اور رہنمائی کرے۔ اسے قومی زندگی میں حصہ لینے کے قابل بنائے ۔ بلدیاتی ادارے خاص طور پر معاشرے کو مہذب اور مستعد بنانے کے اس عمل کا ذریعہ ہوتے ہیں، ہمارے معزّز قومی لیڈروں کو جو کبھی گوارا نہ ہوئے۔ یہ لطیفہ بھی پاکستان ہی میں ہوا کہ بلدیاتی انتخابات رونما ہونے کے بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے ، شہری نمائندوں کو سال بھر انتظار کرنا پڑا۔ اوّل تو یہ الیکشن ہی منعقد نہ ہو سکتے ، اعلیٰ عدالتیں اگر مداخلت نہ کرتیں۔ اختیارات میں کسی کی شرکت ہمارے لیڈر گوارا نہیں کرتے۔ عجیب جمہوریت ہے جس کا رونا رویا جاتا ہے ‘ بلدیاتی ادارے اگر کبھی کچھ پنپے ہیں تو فوجی ادوار میں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد میں ، اتفاقاً ایک وزیر اعلیٰ سے ملاقات ہوئی تو وہ سوگوار سے تھے ۔ پوچھا: خیریت تو ہے ؟ فرمایا : بلدیاتی ادارے درد سر ہیں۔ اب انہیں بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ سیاست عام آدمی کے لئے ہوتی ہے ہمارے ہاں مگر اسی کو لا تعلق بنا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ع
طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
ایک غلیظ اور گلا سڑا نظام ، جس میں زیادہ سے زیادہ اختیارات سمیٹنے اور من مانی کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کی فرمائش پر ، وزیر اعظم پختون خوا کے چھوٹے چھوٹے قصبات میں ، بین ا لاقوامی ہوائی اڈے تعمیر کرنے کے احکامات صادر کرتے ہیں۔ آئندہ الیکشن کے لئے سندھ میں ماحول ہموار کرنے نکلتے تو اعلان کرتے ہیں: روپوں سے میری جیبیں بھری ہیں۔ ہر فرمائش پوری کرنے کے لئے میں تیار ہوں۔ قومی خزانہ لٹانے کے لئے آمادہ ، بشرطیکہ مجھے ووٹ دیا جائے ۔ بادشاہ انہیں برقرار رکھا جائے اور ان کے بعد ، ان کی اولاد کو ۔
ناکافی تعلیم اور سرکشی کے پیدائشی رجحان کی وجہ سے ، ماحول کے گنوار پن کا جس میں دخل ہے ، جمشید دستی ، نظاِم زر و ظلم کی باریکیوں کا ادراک نہیں رکھتے۔ اس غیر معمولی تائید کے بل پر ، جو انہیں حاصل ہے ایک تندی کے ساتھ وہ بروئے کار آتے ہیں۔ ظلم کا سامنا کس طرح کیا جاتا ہے اور بالآخر کس طرح اس کا تدارک ممکن ہے، ایک لیڈر کو کن اخلاقی صفات کا حامل ہونا چاہئے‘ وہ نہیں سمجھتے۔ سمجھیں بھی کیسے کہ پے بہ پے فتوحات نے نرگسیت کا انہیں شکار کر دیا ہے۔ بڑے بڑے اس کھیل میں ہار جاتے اور برباد ہوا کرتے ہیں، بے چارہ دستی کس کھیت کی مولی ہے ۔ میر صاحب نے کہا تھا۔ ؎
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں 
نے عشق کو ہے صرفہ، نے حسن کو محابا
بدلے ہوئے حالات میں، معاشرے کے تغیرِّ پذیر رجحانات کا علم شریف خاندان کو نہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ وطن سے ، ان کے خود اختیار کردہ ہجر کے دوران ، آزاد میڈیا کس قدر قوت بہم پہنچا چکا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت، ہمارے لیڈروں کا انداز فکر ہمیشہ یہ رہا کہ پریس کو دھمکایا جائے ۔ کبھی اشتہارات ٹھونس کر ان کے منہ بند کر دیئے جائیں خوف زدہ ہونے سے جو انکار کر دیں، ایک فوجی حکمران نے بہت سے نجی چینل قائم کرکے ، سماج کو ایک جست بھرنے کا موقعہ دیا۔ آزاد میڈیا کے پیدا کردہ ماحول سے ہم آہنگ ہونا ، شریف خاندان کے لئے مشکل ہے ۔ اپنے مزاج کے وہ قیدی ہیں۔ سرکار ؐ کے فرامین میں ایک یہ ہے : کوہ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے ، مگر عادت نہیں۔ صوفیا کہتے ہیں کہ تزکیہء نفس اصل میں ترک عادت ہی کا نام ہے۔ اپنے آپ سے برسر جنگ رہنے کا۔ پنجابی کے شاعر نے کہا تھا۔ ؎
وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں
بھاویں کریے پوریے پوریے نی 
احتجاج کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ بہت دن جمشید دستی اب گرفتار نہ رکھے جا سکیں گے۔ بہت دن اب انہیں اذیت نہ دی جا سکے گی۔ مگر آئے دن کسی ابتلا کا شکار وہ ہوتے رہیں گے، تاآنکہ کسی پارٹی کا حصہّ بن جائیں ۔ 
تھوڑی سی عزت کے لئے، سیاست میں بہت سی مفاہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کا کاروبار ہے۔ اور ہر کاروبار کے اپنے تقاضے ہوا کرتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved