تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-07-2017

جمشید دستی کے نعرے، مولوی کی دھمکیاں

مظفرگڑھ کے جمشید دستی کو پولیس وین میں روتے دیکھ کر ایک نہیں کئی دن یاد آئے‘ اگرچہ جمشید دستی میرے پسندیدہ کبھی نہیں رہے۔ وجوہات بہت ہیں لیکن اس وقت وہ مشکل میں ہیں لہٰذا ان کی خامیوں پر پھر کبھی لکھ لیں گے۔ 
خیال آیا انسان کتنی جلدی بدل جاتے ہیں۔ انسان کے اندر بھول جانے کی خوبی خدا نے نہ رکھی ہوتی تو شاید پاگل ہو جاتا۔ یہ بھول جانے کا ہی کمال ہے کہ انسان اپنے دکھ بھی بھول جاتا ہے بلکہ جن دکھوں سے گزرا ہوتا ہے وہ دوسروں کو دے کر خوش ہوتا ہے۔ حکمران خاندان بھی بھول گیا ہے‘ خود کیسے مصیبتوں سے گزرے اور آج وہ پوری قوت سے مخالفین سے بدلے لے رہے ہیں۔ 
مجھے یوں لگا‘ پچھلے دس برسوں کی جمہوریت کے اثرات ایک لمحے میں ختم ہو گئے ہیں۔ ہم واپس جنرل مشرف دور میں چلے گئے ہیں‘ جب صدیق الفاروق کے بارے میں کہا گیا کہ ہم انہیں بند کرکے بھول گئے تھے۔ جنرل ضیاء دور میں شاہی قلعے میں سیاسی ورکرز اور صحافیوں پر بھیانک تشدد‘ بھٹو دور میں سیاسی مخالفین کی زندگیاں اجیرن کرانے کی خوفناک کہانیاں یا پھر جنرل ایوب دور میں نواب کالا باغ کے ظلم و ستم کی داستانیں۔ دستی پر مبینہ تشدد ہمیں ایک لمحے میں پچاس ساٹھ برس پیچھے لے گیا۔ ہم نے سمجھ لیا تھا کہ اب شاید نواب کالا باغ، بھٹو، جنرل ضیا یا جنرل مشرف کا دور لوٹ کر نہیں آئے گا۔ ویسے کوئی کمی بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے بھی نہیں چھوڑی تھی‘ جب نصرت بھٹو پر مقدمات بنے اور پھر میاں شریف کو گرفتار کیا گیا یا شیخ رشید پر مقدمات قائم کرکے انہیں دس برس سزا دلوا کر بہاولپور جیل بھیج دیا گیا تھا۔ تاہم پچھلے دس برسوں میں‘ جب سے عدلیہ آزاد ہوئی، میڈیا کا کردار بڑھا اور سیاسی عمل کچھ مضبوط ہوا ہے‘ توقع تھی اب ایسے مناظر دیکھنے کو نہیں ملیں گے‘ لیکن حکومت نے ایک لمحے میں سب کو غلط ثابت کر دیا۔ انہی یادوں میں کھوئے، مجھے دس ستمبر دو ہزار سات کا دن یاد آیا جب لندن سے اسلام آباد سفر کے دوران نواز شریف صاحب کو یقین دلا دیا گیا تھا لاکھوں کا ہجوم ہو گا‘ جو ایئرپورٹ کی دیواریں توڑتا ہوا جہاز سے ہی انہیں کندھوں پر اٹھا کر لے جائے گا اور جنرل مشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک بھی ورکر یا لیڈر ایئرپورٹ لینے نہیں آیا۔ نواز شریف صاحب کو پولیس کمانڈوز جدہ جہاز پر بٹھا آئے۔ سب کچھ میری، ارشد شریف اور لندن سے آئے اظہر جاوید کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اس سلوک پر پرویز رشید کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ جیسے گزشتہ روز جمشید دستی کی آنکھوں میں تھے۔ فیصل آباد کی دھرتی کا سپوت‘ برطانیہ سے ساتھ آئے مشہور بیرسٹر امجد ملک تن تنہا نواز شریف کے مقدمات لڑ رہا تھے۔ نواز شریف کے دو تین ساتھیوں نے مجھے طعنے دیے: دیکھ رہے ہیں ملک کے سابق وزیر اعظم کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ مجھے لگا شاید اس دن وزیر داخلہ آفتاب شیرپائو کی جگہ میں تھا‘ لہٰذا مجھ سے ان کا گلہ بنتا تھا۔ وہی شیرپائو بعد میں نواز شریف کے وزیر اعظم ہائوس کے مستقل مہمان بنتے رہے‘ جن کے حکم پر نواز شریف صاحب کو ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ 
پھر ایک اور دن یاد آیا‘ جب جنرل مشرف دور میں خواجہ سعد رفیق اور عابد شیر علی نے قومی اسمبلی میں اس طرح دھواں دھار تقریریں کیں جیسے جمشید دستی نے کی۔ انہیں بھی اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ ان پر بھی تشدد ہوا جیسے اب دستی پر ہوا ہے۔ عابد شیر علی، خواجہ سعد رفیق کا جرم بھی وہی تھا جو جمشید دستی کا تھا کہ حاکم وقت پر تنقید کیوں کی؟
پھر ایک اور دن یاد آیا جب نواز شریف صاحب ڈیل کرکے جدہ چلے گئے تھے‘ تو رانا ثناء اللہ نے اسمبلی میں اسی طرح دھواں دھار تقریر کی جیسے جمشید دستی نے کی تھی۔ فوری طور پر انہیں اغوا کر لیا گیا۔ تشدد کے بعد ان کے بال، مونچھیں اور بھنویں تک صاف کر دی گئی تھیں۔ 
ایک اور کہانی یاد آئی۔ جاوید ہاشمی اور تہمینہ دولتانہ کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل لے جایا گیا۔ ایک صاحب نے وہاں تہمینہ دولتانہ کی تلاشی لینے کے کوشش کی تو ملتان کا مخدوم بھڑک گیا کہ بھلا ایک مرد کیسے خاتون کی تلاشی لے سکتا ہے۔ تکرار بڑھی تو مخدوم نے ایک تھپڑ دے مارا۔ پھر ساری رات ملتانی مخدوم پر تشدد ہوتا رہا۔ جن کے لیے وہ لڑ رہا تھا‘ وہ جدہ بیٹھے گرم سوپ پی رہے تھے۔ ویسے حیران ہوتا ہوں کہ جاوید ہاشمی کی جنرل مشرف دور میں کی گئی مزاحمت اور جدوجہد کیسے ضائع گئی؟ جو ان پر تشدد کرانے اور ایئرپورٹ پر نواز شریف صاحب کے ساتھ بدسلوکی کے ذمہ دار تھے وہی نواز شریف دور میں وزارتوں پر فائز کئے گئے۔ جاوید ہاشمی ملتان کی گلیوں میں مرزا کی طرح آوازیں دیتا پھرتا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتی‘ اس سے کہاں غلطی ہوئی۔ ساری عمر سیاست میں گزارنے کے باوجود سیاست کے گُر نہ سیکھ سکا۔ کشور کمار کا وہ دکھ بھرا گیت یاد آتا ہے... ''گھنگھرو کی طرح بجتا ہی رہا ہوں میں‘‘۔ جاوید ہاشمی بھی اس طرح جمہوریت کے نام پر بجتے ہی رہے ہیں۔ کبھی ادھر تو کبھی ادھر۔ کمال صبر اور حوصلے سے جاوید ہاشمی نے جنرل مشرف کی قید بُھگتی لیکن سیاست کی شام کیا کیا بھیانک غلطیاں کر بیٹھے۔
جشمید دستی کا رونا دیکھ کر خواجہ آصف یاد آئے جن کی آنکھیں وہ واقعہ سناتے وقت تقریبا گیلی ہو گئی تھیں‘ جب وہ تھانے میں بند تھے اور ان کی بیٹی نے بیرون ملک پڑھنے جانا تھا جبکہ انہیں خطرہ تھا کہیں اسے ایئرپورٹ پر نہ روک لیا جائے۔ انہیں بیٹی سے ملنے تک کی اجازت نہ دی گئی۔ بڑی مشکل سے کسی کا منت ترلا کرکے دور باڑ کے قریب سے ان کے بچے آئے، وہیں سے باپ کو ہاتھ ہلایا اور چلے گئے۔
پھر نواز شریف یاد آئے جو جنرل مشرف کے مظالم کی کہانیاں سناتے۔پھر ایک اور دن یاد آیا جب شہباز شریف صاحب کی صاحبزادی کی پاکستان میں شادی کے موقع پر بچے جدہ سے لاہور ایئرپورٹ اترے۔ انہیں پوچھ گچھ کے لیے روک لیا گیا۔ اس پر جو ہنگامہ مچا اور ہم میڈیا والوں نے مچایا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ 
پھر وہ دن یاد آیا جب نواز شریف صاحب نے تیسری دفعہ وزیر اعظم بننا تھا اور اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ اس روز خواجہ آصف، چوہدری نثار علی خان اور سعد رفیق جمشید دستی کے آگے بچھے بچھے جا رہے تھے کیونکہ نواز شریف صاحب کے لیے ان کا ووٹ لینا تھا۔ اور وہی جمشید دستی سرائیکی تھاپ پر جھمریں مارتا نواز شریف کو ووٹ ڈال رہا تھا۔ ووٹ مل گیا تھا اور پھر کسی نے مڑ کر دستی کو دیکھا تک نہیں۔ دستی کو اندازہ نہ ہوا کہ بس اتنا ہی استعمال ہونا تھا اس نے۔ 
مجھے جمشید دستی کے طریقہء سیاست پر اختلاف رہا ہے۔ اسے اسلام آباد جس کام کے لیے بھیجا گیا تھا وہ چھوڑ کر وہ لوگوں کی اخلاقیات درست کرنے پر لگ گیا تھا۔ شراب کی بوتلیں لے کر وہ ٹی وی پروگراموں میں پہنچ گیا۔ وہ بھی جاوید ہاشمی کی طرح یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ اس نے سیاست کس ڈھنگ سے کرنی ہے۔ 
ہمیں وہ پسند ہے یا نہیں لیکن اس وقت وہ سرائیکی علاقوں میں تخت لاہور کے خلاف ایک مزاحمتی کردار بن کر ابھر رہا ہے۔ سرائیکی سیاستدانوں کی خوشامدانہ سیاست سے تنگ لوگ اب کسی بھی تنکے کو سہارا سمجھ کر اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جمشید دستی کا اتنا بڑا کردار یا صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر کسی بڑی تحریک کو لیڈ کر سکے لیکن یہ ضرور ہے کہ رنجیت سنگھ کے خلاف ملتانی نواب مظفر خان کے بعد تخت لاہور کے خلاف مزاحمت کا نشان ضرور بن رہا ہے۔
یاد آیا‘ دستی کو غالباً نواز شریف کے خلاف قومی اسمبلی میں نعرے لگانے اور شہباز شریف اور ان کی پولیس کے خلاف تقریر کرنے پر سزا دی جا رہی ہے۔ مجھے ایک مولوی صاحب کا جمعہ کا خطبہ یاد آیا جس میں انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو ہندوئوں کی دیوالی کے تہوار کے موقع پر کراچی جانے پر بہت برا بھلا کہا تھا۔ ان کے خلاف فتویٰ تک دیا۔ سن کر دکھ ہوا۔ ایک وفاقی وزیر کو وہ ویڈیو کلپ بھیجا اور پوچھا: کہاں گیا نیشنل ایکشن پلان؟ کچھ ان کے خلاف بھی ایکشن ہو گا؟ جواب ملا: نواز شریف صاحب میں بہت صبر ہے‘ وہ ایسی باتوں کا برا نہیں مناتے۔ وہ پروا نہیں کرتے۔
نواز شریف صاحب بہت سمجھدار ہیں۔ انہیں پتہ ہے مولوی کی بات کا برا نہیں منانا۔ ہاں جمشید دستی نے اگر قومی اسمبلی میں نعرے لگائے تو اس کے خلاف ایکشن لینا ہے۔ سرائیکی کہاوت ہے: پانی ہمیشہ ڈھلوان کی طرف ہی بہتا ہے۔نواز شریف صاحب کی دیوالی سے ناراض مولویوں کے فتووں پر خاموشی اور جمشید دستی کے نعروں پر بدترین تشدد کا نشانہ بنوانا۔ بس یہی فنکاری ہے، یہی سیاست ہے۔ یہ فن ہے۔ یہ گر ہیں۔ پاکستانی سیاست کے راز ہیں۔ طاقتور سے معافی تلافی کرکے پتلی گلی سے نکل جائو‘ لیکن طاقت ملتے ہی بے رحم بن جائو۔ مشکل میں ہو تو پائوں پکڑ لو، اقتدار ملے تو گلا!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved