تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-07-2017

سفر نامہ مقبوضہ ہندوستان از سید انیس شاہ جیلانی

... میں تو ایک طرح سے رئیس صاحب کا یوں کہو مہمان ہی تو تھا۔ میرا جی اُچاٹ تو بے طرح ہوا لیکن طرح دے کر رہ گیا۔ چپ چاپ رہا ۔ طے کر لیا کہ میرا ان کا ساتھ چلے گا نہیں۔ مجھے کہیں اور منتقل ہو جانا چاہئے ۔ انتظار کی تاب نہ لا کر بوتل اختر فیروز نے بادل نخواستہ نکال ہی لی۔ ساقی نا رنگ دھوکا دے گئے۔ وہ ایک پیک ہی پئے تھے کہ کنور صاحب آگئے اور ہمیں لاد کر ساقی نارنگ کے بنگلے پر لے گئے۔ سفیر پاکستان عبد الستار کی بہت تعریف کرتے تھے ۔ سفیر اس طرح بولتے تھے سب سمجھ جاتے تھے کہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ساقی نارنگ کے ہاں ساحر ہوشیار پوری ان کے ایک شاگرد مشہور طنزو مزاح نگار فکر تونسوی اور پاکستان کے سفارت خانے کے حسن عسکری ، ان کی بیگم اور افراد خانہ مرد و زن ، کوئی درجن بھر کا اجتماع ۔ صاحب سلامت ہوتے ہی گلاس اور بوتل گردش میں آگئے ۔ سبھی غریق نائو نوش ہو گئے ۔ میں اور ساحر محمود صاحب بے نیاز ، ساحر کو ڈاکٹروں نے پینے سے روک رکھا تھا۔ رئیس صاحب ، لاکھ صاحب ہوش و حواس سہی لیکن عام طور پر مجلس آرائی کے دھنی کبھی نہیں پائے گئے ۔ بالکل سطحی، بے وزن، اوٹ پٹانگ ا ور عامیانہ گفتگو ، اسلوب بیان غیر معتبر ، سننا زیادہ پسند کرتے ہیں وہ بھی کوئی عالمانہ گفتگو نہیں۔ اس کے برعکس کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی گفتگو فصیح و بلیغ ، مجلس آرائی کا گُر جانتے ہیں۔ لچھے دار باتیں،جوں جوں شیشے کی پری کو دل کے آئینے میں اتارتے جائیں گے ۔ زبان کی موہنی بڑھتی جائے گی۔ اشعار کی آمد بھی ایک بات ہے لیکن وہاں تو برستے ہیں شعر اور کنور صاحب کا ایک انداز بھی ہے شعر سنانے کا۔ رئیس صاحب نے تو ایک آدھ ہی شعر سنایا۔ بیدی صاحب کا یہ حال کہ بات بات پر شعر ، بات بات پر رباعی اور قطعہ۔ میں نے نقل کرنے کی کوشش کی لیکن محفل کے آداب اور رنگ کو دیکھتے ہوئے اپنی اس حرکت سے باز آیا۔ جو کچھ آنکھ بچاکے لکھا۔ غلط سلط اور ادھورا وہ یہ رہا ۔؎
روک دے گردش زمانہ کو 
تیرے ہاتھوں میں جام ہے ساقی
مے کا پینا حرام ہو کہ نہ ہو
نہ پلانا حرام ہے ساقی 
آپ کے حق میں یہ گناہ سہی 
ہم پئیں تو ثواب بنتی ہے 
سو غموں کو نچوڑنے کے بعد 
ایک قطرہ شراب بنتی ہے 
طالب انتقام ہوں کہ نہ ہوں 
عمر خود انتقام بنتی ہے 
بے پئے ہی شراب سے نفرت
یہ جہالت نہیں تو پھر کیا ہے
زُہدکے بدلے خُلد میں حوریں
یہ تجارت نہیں تو پھر کیا ہے 
باری باری ساحر ہوشیار پوری ، اختر فیروز ، ساحر کے شاگرد نے غزلیں سنائیں۔ کنور صاحب کی باتوں کا آبشار رواں دواں تھا۔ کنور صاحب مجھے ہر جگہ معزز اور محترم باوقار و وضع دار اور طرحدار نظر آئے ۔ رئیس صاحب کی شخصیت دب کر رہ جاتی تھی۔ کنور صاحب نے ضرب الامثال سے بھی محفل کو گرمایا۔ فرمایا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ سکھ ہونے کی رعایت سے سرمنڈاتے ہی اولے پڑے اور شاید چور کی داڑھی میں تنکا وغیرہ بھی۔ جوش مرحوم سے بڑی محبت ہے کنور صاحب کو ۔ ان کے قصے لے بیٹھے ۔ نہرو بڑے قدر دان تھے جوش کے ۔ جوش نہرو مراسم کی تفصیلات میں پڑ گئے کنور صاحب ۔ مختلف واقعات ، کچھ بھول گئے چند ایک یاد ہیں۔ مہاراجہ ملیر کوٹلہ اورٹونک کی جائیداد کا کوئی الٹ پھیر تھا۔ مہاراجہ ملیر کوٹلہ کنور صاحب کو وزیراعظم سے ملنے کا زینہ بنانے آئے ۔ کنور صاحب نے مشورہ دیا اور بتایا کہ پنڈت جی کی ایک چابی ہے میرے پاس۔ جس طرح قصے کہانیوں میں سنتے چلے آئے ہیں ...
اور اب اس ہفتے کی تازہ غزل: 
دل کی خاک اڑاتی ہیں 
ایسی آندھیاں آتی ہیں 
آوازیں سی اِدھر اُدھر
آتی ہیں اور جاتی ہیں 
کبھی پٹختی ہیں نیچے 
اوپر کبھی اُٹھاتی ہیں 
نیند کی پریاں رہ رہ کر 
جھوٹے خواب دکھاتی ہیں 
یہ چُپ چاپ ہوائیں بھی
کوئی بات بتاتی ہیں 
تصویریں دیواروں پر 
روتی ہیں اور گاتی ہیں 
شام و سحر میرے آگے 
بھینسیں بین بجاتی ہیں 
ٹر ٹر کرنے دو ان کو 
یہ مینڈک برساتی ہیں 
دل تو ہے خاموش ظفر ؔ
آنکھیں شور مچاتی ہیں 
آج کا مطلع
کیا پُوچھ رہے ہو نام اُس کا 
بس دیکھتے جائو کام اُس کا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved