خاموشی کی جو سیاہ چادر ، جنرل شجاع پاشا نے برسوں سے اوڑھ رکھی ہے، اب انہیں اٹھا پھینکنی چاہئے۔ سنگین الزامات کا جواب دینا چاہئے، جو ان پر عائد کئے جارہے ہیں۔ ان کی توہین کی جارہی ہے اور ان کے توسط سے ، اس ادارے کی بھی جو ملک کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ در حقیقت اس عہد کی عسکری قیادت اور اس طرح افواج پاکستان کی۔ دہشت گردی اور استعمارکے اثرات محدود کرنے کے لئے ، جس نے ایک تاریخی جنگ لڑی ہے۔ جو ملک کو متحد رکھنے والی سب سے اہم قوت ہے۔ گزشتہ پندرہ برس میں ، جس کے جانبازوں نے مسلسل اور اہم قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی ہے ۔ ملک کو برباد ہونے سے بچا لیا ہے ۔
ہفتہ کی شام تک خیال یہ تھا کہ یہ کتاب ریمنڈ ڈیوس ہی نے لکھی ہے کچھ ناموری اور شہرت کے حصول اور اس سے زیادہ کچھ روپیہ کمانے کے لئے ۔ امریکی مارکیٹ میں اس طرح کی سنسنی خیز تصنیفا ت کی مانگ رہتی ہے ۔
چھن چھن کر جو حقائق سامنے آئے ہیں ، بہت سے سوالات ، ان سے پھوٹ پڑے ہیں۔ ان سوالات کے جواب سامنے آنا چاہئیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر یہ کتاب رائلٹی کے لئے لکھی گئی تو فوراً ہی انٹرنیٹ پر کیوں جاری کر دی گئی ۔ ایک مصنف کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ قارئین تک پہنچنے سے پہلے ہی کتاب کا متن عام ہو جائے۔ پھر یہ کہ سات ماہ تک اگر یہ سی آئی اے کے پاس پڑی رہی تو ٹھیک اس وقت ہی انٹرنیٹ پر کیوں جاری کی گئی، جب نریندر مودی کا سواگت کرنے والے صدر ٹرمپ ، پاکستان کو دہشت گردی کا مرتکب ٹھہرا رہے ہیں۔ جب اسلام آباد اور راولپنڈی کو پے در پے واشنگٹن سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکی انتظامیہ ، پاکستان کو بلیک میل کرنے پر تلی ہو۔ اس کی ترجیحات کے سامنے سپر انداز نہ ہونے والی قوم کو ، انتشار اور مایوسی کا شکار بنانے کا تہیہ کر چکی ہو۔ اگر ایسا ہے تو ایک خاص حد تک ، اپنا مقصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہے۔
کتاب کے اقتباسات سامنے آتے ہی ، خود ترحمی اور سینہ کوبی میں ہم لگے ہیں۔ بے چارگی کے ایک شدید احساس کے ساتھ ، اپنے آپ کو کوسنے میں ہم لگے ہیں۔ اپنی سول اور فوجی قیادت کو بھی ۔ دوسروں سے الگ تھلگ کرکے ۔
جنرل شجاع پاشا پر تبرّے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات نا قابل فہم ہے کہ امریکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آئی ایس آئی کے سربراہ نے اپنے طور پر کوئی فیصلہ کر لیا ہو۔ پھر اس پر عمل درآمد میں جُت گئے ہوں۔ جنرل پر کتنے ہی اعتراضات کئے جائیں مگر ایسی کوئی شہادت کبھی پیش نہیں کی گئی کہ سی آئی اے ،پاکستان میں امریکی سفارتخانے یا واشنگٹن والے ان سے کبھی شاد رہے ہوں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاک فوج میں اس طرح کے فیصلے ، اجتماعی سطح پر ہوتے ہیں۔ غور و فکر اور صلاح مشورے کے بعد ۔ استثنائی طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بری فوج کا سربراہ کور کمانڈروں کی رائے مسترد کردے۔ اس لئے کہ ذمہ داری اس کی ہوتی ہے ۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی سے بھی وہ معلومات حاصل کرتا ہے۔ سیاسی صورتحال ، عوامی جذبات کے علاوہ خارجہ تعلقات کو بھی اسے ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ اس قدر نازک معاملے میں مگر آئی ایس آئی کا سربراہ تنہا کوئی پالیسی اختیار نہیں کرسکتا۔ جس کے مضمرات اس قدر گہرے اور وسیع ہوں کہ سالہا سال ان کی بازگشت سنائی دیتی رہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ، اس موضوع پر براہ راست میری کبھی بات نہ ہوسکی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد چند ہفتے اس بریفنگ میں بہر حال میں شریک تھا ، پندر ہ بیس اخبار نویس جس میں مدعو تھے ۔ جنرل پاشا اور جنرل کیانی کے انداز فکر میں اس وقت ہم آہنگی پائی گئی۔ اپنے قائد کی موجودگی میں ، جنرل پاشا کسی اضطراب کا شکار دکھائی نہ دیئے۔ گویا ان کی خوشدلانہ سر پرستی انہیں حاصل تھی ۔
اسامہ بن لادن کی کہانی کے بعض پہلو، اب بھی شرح وبسط کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔ جنرل پاشا کو بہرحال یہ کہتے سنا گیا : امریکی اگر ہمیں اعتماد میں لیتے ۔ اس مہم میں اگر ہم شریک ہوتے تو دس برس تک، امریکہ میں کوئی ہم پر انگلی اٹھانے والا نہ ہوتا۔ جنرل کیانی کے برعکس جو دھوکہ دیئے جانے پر آزردہ تھے ۔ جنرل پاشا زیادہ رسان سے بات کررہے تھے ۔ جنرل کیانی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو فریب دہی اور خیانت روا نہیں رکھتے ۔ اور جب اس کا شکار ہوں تو رنج انہیں آلیتا ہے ۔ واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد جنرل کیانی نے مائیکل ملن سے یہ کہا تھا : اگر اس طرح کا ایک آدھ واقعہ اور ہوگیا تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہوا میں ہوں گے۔ فوجی قیادت نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر نظرثانی کے امکان کا جائزہ بھی لیا۔ آخری فیصلہ مگر یہ کیا کہ نازک حالات میں ، کوئی بڑا اقدام نہیں کیا جاسکتا۔
ابھی کچھ دیر پہلے ایک ذمہ دار فوجی افسر سے بات ہوئی۔ ان کے بقول ریمنڈ ڈیوس والے واقعہ کے بعد ، صدر زرداری نے جب جنرل کیانی کو امریکی جاسوس کی رہائی پر قائل کرنے کی کوشش کی تو صدر سے انہوں نے پوچھا : کون اس کی ذمہ داری قبول کرے گا؟ صدر زرداری صاحب کا جواب یہ تھا : میں کروں گا۔
پاک امریکہ تعلقات میں اونچ نیچ رہتی ہے۔ واشنگٹن کی بات کبھی مان لی جاتی ہے اور کبھی اس کی مزاحمت کی جاتی ہے۔ سلالہ کی چوکی پر حملے کے بعد سات ماہ تک افغانستان کے لئے رسد کی فراہمی روک دی گئی تھی۔ پاکستان میں ہر قابل ذکر آدمی کا دروازہ امریکی کھٹکھٹاتے پھر رہے تھے ۔ ان میں سے ایک میرے پاس بھی آیا۔ اس کی خواہش تھی کہ جنرل سے میں بات کروں۔ میں نے سنی ان سنی کر دی۔ یہ میرا کام نہیں تھا ۔ویسے جنرل کیانی اس وقت کسی کی بھی نہیں سن رہے تھے ۔ محتاط اور متعدل مزاج ہونے کے باوجود جب وہ ڈٹ جاتے تو ڈٹ جایا کرتے ۔ اسی لئے امریکی انہیں پسند نہ کرتے تھے ۔
دو نکات ،تجزیہ کرنے والے اکثر یہ بھلا دیتے ہیں کہ اول یہ کہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف فوراً ہی سپر انداز ہوگئے تھے ۔ صدر بش کی دھمکی کے جواب میں مزاحمت پر غور کیا گیا ۔ حالات مگر خراب تھے۔ قیمت اتنی زیادہ ہوتی ملک چکا نہ سکتا ۔ پھر زرداری اقتدار میں آئے تو قومی سلامتی کے سارے تقاضے نظر انداز کرکے ، سی آئی اے پر ملک کے دروازے چوپٹ کھول دیئے گئے ۔ چھچھورے حقانی کو واشنگٹن میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا، جو بلا تامل ویزے جاری کرتے رہے۔ ایک بار تو امریکی کارندوں سے بھرا ایک پورا جہاز ،نصف شب ،لاہور کے ہوائی اڈے پر اترا۔ ویزوں کے بغیر اور امیگریشن کے بغیر ہی وہ باہر نکل آئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بلیک واٹر کے بے شمار کارندے اسلام آباد میں تھے۔ اسلام آباد کے ساڑھے تین سو گھروں میں مقیم۔
چار دن سے جاری بحث میں ، اس پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد ان میں سے اکثر کو واپس جانا پڑا۔ پوری ذمہ داری سے میں عرض کرتا ہوں کہ سات سو افراد کو ۔یہ ایک بڑی کامیابی تھی اور اس امر کا مظہربھی کہ حالات سے فائدہ اٹھا کر جو کچھ حاصل کیا جا سکتا تھاکر لیاگیا۔ اس طرح کے الجھے ہوئے تعلقات اور اس طرح کی پیچیدہ صورت حال میں ، یہی بہترین انداز کار ہوتا ہے۔ فوجی افسر اس زمانے میں بہت مضطرب تھے ۔ واقعے کے فوراً بعد جنرل کیانی نے مجھ سے کہا : امریکیوں کو میں سمجھاتا رہا کہ تمہارے لوگوں کا طرز عمل ٹھیک نہیں۔ کسی دن کوئی بڑا حادثہ ہوجائے گا۔ جنرل کے بقول ، پاکستانیوں کی امریکی پروا نہ کرتے تھے ۔ انہیں اندیشہ ہوتا کہ کوئی پاکستانی افسر حقارت کے ساتھ پیش آنے والے کسی امریکی متکبرپہ گولی نہ چلا دے۔ پھر وہ بولے : مگر اب ایک اور طرح کا سانحہ پیش آیا لیکن مضمرات وہی ہیں۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر زرداری امریکیوں کے تابع فرمان تھے ۔ امریکیوں سے انہوں نے کہہ دیا تھا کہ ڈرون حملے وہ کرتے رہیں۔ فقط دکھاوے کے لئے اعتراض کر دیا کریں گے۔ سول اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی نہ تھی۔ صدر صاحب روپیہ بنانے میں لگے تھے ۔ بعد کے اندازے یہ ہیں کہ پانچ برس میں 1200 ارب روپے انہوں نے بٹورے۔ واشنگٹن سے جن امریکیوں کو ویزے جاری نہ ہوئے ، ان
باقی صفحہ 13 پر
کے لئے دبئی میں پاکستانی سفارتخانہ کھلا تھا۔ اس کا اہتمام زرداری صاحب نے خود کیا تھا۔ جہاں تک شریف برادران کا تعلق ہے ، بظاہر وہ امریکیوں کے باجگزار دکھائی نہ دیئے مگر جیسا کہ واقعات سے واضح ہوا کہ امریکیوں کو وہ ناراض بھی نہ کرنا چاہتے تھے ۔
ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری پر امریکی سخت تشویش میں مبتلا تھے ۔ ملزم تک وہ رسائی کے آرزو مند تھے ۔ ان کا اصرار تھا کہ اس کے لئے خورو نوش کا بندوبست وہ خود کریں گے۔ پاکستانی جنرلوں کو اندیشہ تھا کہ وہ زہر دے کر اسے موت کی نیند سلا سکتے ہیں۔ گاہے اس طرح سی آئی اے ایجنٹ سے چھٹکارا پا لیتی ہے۔ آئی ایس آئی کے افسر اس سے پوچھ گچھ کر رہے تھے ۔ امریکیوں کو خدشہ تھا کہ خفیہ معلومات پاکستان کے ہاتھ لگ سکتی ہیں۔
ایک کہانی یہ چھپی ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں امریکیوں نے ریمنڈ ڈیوس کو دی جانے والی خوراک سونگھنے اور چکھنے کے لئے تربیت یافتہ کتوں کا بندوبست کیا تھا۔ مجھے یہ طبع زاد لگتی ہے۔ امریکیوں سے زیادہ ، پاکستانی اس کی زندگی کے بارے میں حساس تھے ۔ ظاہر ہے کہ ریمنڈ ڈیوس سے معلومات حاصل کی گئیں اور ظاہر ہے کہ ا مریکیوں کے ساتھ سودے بازی میں وہ استعمال کی گئیں۔ پوری کہانی اگرچہ سامنے نہیں آئی۔ پاکستان میں کوئی بات نہیں کرتا اور امریکیوں نے بعض پہلو چھپا کر پروپیگنڈے کے لئے اپنی پسند کے نکات کو اجاگر کیا۔ اس کے لئے اپنی پسند کے وقت کا انہوں نے انتخاب کیا۔
معاملہ اس قدر سادہ بہر حال نہیں، جس طرح کہ سی آئی اے کی نگرانی میں لکھی گئی اور اس کے اہتمام سے جاری ہونے والی کتاب میں پیش کیا گیا۔ تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز بہر حال ہمیشہ کیلئے چھپا کر نہیں رکھتی۔ ہمارے دانشوروں اور لیڈروں نے مگر فتوے جاری کرنے میں تعجیل سے کام لیا۔ نکتہ یہ بھی ہے کہ معاشی اور اسلحی طور پر ، جب ایک ملک دوسرے کا دست نگر ہو‘ اس کی سیاسی قیادت امریکیوں کی دریوزہ گر ہو تو فوجی قیادت زیادہ سے زیادہ کس قدر سودے بازی کرتی۔ ا یک آدمی نے بہر حال ہمت دکھائی اور اسے داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، جس نے کہا : جھکنے کا نہیں ، یہ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ اپنا عہدہ اس نے قربان کر دیا اور پیپلزپارٹی کو بالآخر خیر باد کہہ دیا۔ اس کے دفتر عمل میں یہ بہر حال ایک روشن باب ہے۔
رانا ثناء اللہ ایسے عناد کے مارے تنگ نظر لوگوں کو چھوڑیے، جو فوج کو رسوا کرنے اور انتقام کے جذبے کو تسکین دینے کے در پے رہتے ہیں۔ اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ دیت کے لئے ، قرض کے طور پر 24 کروڑ کس نے فراہم کئے تھے ۔
جنرل پاشا کو بہر حال بات کرنی چاہئے۔ خاموشی کی جو سیاہ چادر برسوں سے انہوں نے اوڑھ رکھی ہے ۔ اب انہیں اٹھا پھینکی چاہئے۔ یہ ایک اجتماعی فیصلہ تھا۔ قصور وار تو سبھی ہیں وہ تنہا نہیں پھر گالیوں کا ہدف وہ کیوں بنیں ؟