تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     03-07-2017

قطر تنازع سے متعلق اشکالات

عرب ریاستوں نے قطر کو 13 مطالبات پورا کرنے کی خاطر 10 روز کی جومہلت دی تھی‘ وہ گزشتہ رات ختم ہو چکی۔ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے قطر کو ایک فہرست ارسال کی تھی جس میں الجزیرہ ٹی وی کو بند کرنے‘ ایران کے ساتھ تعلقات میں کمی اور قطر میں ترک فوجی اڈے کو بند کرنے سمیت 13 مطالبات شامل تھے۔عرب ممالک نے قطر سے مطالبہ کیا تھا کہ بحران کے حل کیلئے اسے اخوان المسلمون، داعش، القاعدہ، حزب اللہ اور جبہۃ الفتح الشام سمیت تمام دہشت گرد، نظریاتی و فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے ہوں گے اور ان دہشت گردوں کو حوالے کرنا ہوگا جنہیں اس نے پناہ دی ہوئی ہے۔ ان چار ممالک نے قطر سے اپنے اندرونی و خارجہ امور میں مداخلت بند کرنے اور ان ممالک کے شہریوں کو قطری شہریت دینے کا سلسلہ بند کرنے کے بھی مطالبات کیے۔اس کے جواب میں قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ ان کا ملک اس وقت تک چاروں عرب ممالک سے مذاکرات نہیں کرے گا جب تک وہ قطر پر سے اپنی پابندیاں اٹھا نہیں لیتے۔قطر کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل دنیا کا نظام ڈیڈ لائنز پر نہیں چلایا جا سکتا بلکہ وہ اس بارے میں مذاکرات سے مسئلے کا حل نکالنے کے لئے تیار ہیں۔ اس دوران سوشل میڈیا کی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ نادیدہ عالمی قوتیں بھی حرکت میں آ گئیں اور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے اس اقدام کو منفی رنگ دینا شروع کر دیا۔یہ بھی کہا گیا کہ سعودی عرب نے قطری شہریوں پر عمرے اور حج کی پابندی لگا دی ہے۔اس طرح کی منظر کشی کی گئی کہ سعودی عرب نے قطر کا گھیرائو کر لیا ہے اور وہاں کے عوام فاقوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔ 
گزشتہ روز سعودی سفارتخانے کے ناظم الامور اور قائم مقام سفیر مروان بن رضوان کے ساتھ سینئر کالم نگاروں کی ایک نشست میں پاک سعودی تعلقات ‘قطر بائیکاٹ اور دیگر ایشوز پر بہت سے اشکالات دور ہوئے۔ مروان بن رضوان خوش گفتار اور وسیع 
النظرشخصیت کے مالک ہیں۔ وہ بھارت‘ بنگلہ دیش سمیت درجنوں ممالک میں تعینات رہے اور خطے کی صورتحال پر گہری نظر اور ٹھوس موقف رکھتے ہیں۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ اپنے ملک کے پرچم کے ساتھ کھڑے ہیں‘ وہ کسی سنی اور کسی شیعہ کے مخالف نہیں بلکہ ہر اس شخص کے خلاف ہیں جو انتشار پیدا کرتا ہے اور خطہ عرب میں بربادی پھیلانے کے درپے ہے چاہے وہ اپنا ہو یا پرایا۔ انہوں نے کہا کہ صبر کی ایک حد ہوتی ہے۔ قطر نے سعودی عرب کے ساتھ کیا گیا 2014ء کا معاہدہ توڑا جس کے بعد ہم نے قطر کا بائیکاٹ کیا۔ آج بھی خلیجی ممالک ایک ہیں۔ ہماری منزل ایک ہے۔ قطر آج بھی اگر 2014ء کے معاہدے کی پاسداری کرے تو اس کے ساتھ تعلقات بہترہو سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اختلافات ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اب بھی لگ رہا ہے کہ بائیکاٹ کا کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مکہ اور مدینہ سمیت تمام مقدس مقامات پر ہم غیر مسلموں کے علاوہ کسی کو منع نہیں کرتے ،قطر سمیت پوری دنیا کے مسلمان وہاں آ سکتے ہیں۔ سعودی عرب ہمیشہ سے داخلی و خارجی طور پر دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ 34 ملکی اسلامی اتحاد دہشت گردی کے خلاف ہے کسی خاص ملک کے خلاف نہیں۔ ایران اورقطر کامعاملہ مختلف ہے،قطرکی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی مدد کی جارہی ہے تو دوسری جانب قطری میڈیا یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں فوجی اتحاد کے خلاف غلط رپورٹیں جاری کررہا ہے۔سعودی عرب پر دہشت گردی کی سپورٹ کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن سعودی عرب تو خود دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔داعش کا فتنہ وہاں پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔مسجد نبویؐ اور بیت اللہ الحرام کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ نائن الیون واقعہ میں بھی سعودی عرب کے ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے ستون پگھل
گئے لیکن سعودی پاسپورٹ اسی طرح محفوظ پڑے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون کو بہانہ بنا کر سعودی عرب کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ قطر پچھلے بیس برس سے عرب عوام کو نقصان پہنچا رہا تھا ۔اس دوران قطر کو بار بار سمجھایا گیا تاہم وہ اپنی روش سے باز نہیں آیا۔سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر قطر کابائیکاٹ کر کے اسے احساس دلانا چاہتے ہیںکہ وہ دوسرے ملکوں میں دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی سپورٹ کرنا بند کرے۔ قطر نے 2014ء میں باقاعدہ معاہدہ کیا تھا کہ اس کی سرزمین دہشت گردوں کو فنڈنگ اور سپورٹ کیلئے استعمال نہیں ہو گی لیکن اس نے اپنے اس معاہدہ کی پاسداری نہیں کی ۔ قطر کے سفارتی بائیکاٹ کے بعد پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ غزہ کی طرح اس کا محاصرہ کر لیا گیا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ وہاں غذائی بحران کی باتیں بھی درست نہیں اگر ایسا ہوتا تو اب تک وہاں لوگ انقلاب کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے اور پوری دنیا کا میڈیا یہ مناظر براہ راست دکھا رہا ہوتا۔ قطر کی فضائی حدود بھی کھلی ہیں۔مختلف ملکوں کے طیارے سعودی عرب کی حدود سے گزر کرقطر جارہے ہیں ہم نے انہیں روکا نہیں ہے۔ اسی طرح جن کی جوائنٹ فیملیاں ہیں اور ایک دوسرے کے ملکوں میں شادیاں ہوئی ہیں‘ انہیں بھی آنے جانے کی کھلی اجازت ہے۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے بے بنیاد پروپیگنڈ اکیا گیا کہ سعودی عرب نے قطری شہریوں کے عمرہ وغیرہ پرپابندی لگا دی ہے۔ یہ انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔ سعودی عرب نے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ قطری ان دنوں بھی حرمین شریفین کی زیارت اور عبادات کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ ہم نے حرمین کو اس مقصد کیلئے کبھی استعمال نہیں کیا۔ یہاں آنا اور حج و عمرہ وغیرہ کرنا ہر مسلمان کا حق ہے۔ کوئی انہیں کیسے روک سکتا ہے۔ اس رمضان المبارک میں بھی بڑی تعداد میں قطری شہریوں نے عمرہ کی ادائیگی کی ہے۔مروان بن رضوان نے کہاکہ قطر کے بائیکاٹ کے حوالہ سے انہوںنے پاکستان کی مصالحتی کوششوں کے وجود سے انکارنہیں کیا لیکن چند دن قبل ان کی سینئر صحافیوں سے ملاقات کے حوالہ سے ایک انگریزی اخبار نے ان کی گفتگو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور بعض لوگوںنے گفتگو کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کی جو کہ قطعی طور پر درست نہیں ۔ قطری ہمارے بھائی ہیں۔ اصل مسئلہ تو معاندانہ کارستانیوں اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت سے پیدا ہوا ہے۔اس سے نہ صرف خلیج بلکہ خلیج سے مصر اور لیبیا سے دوسرے ممالک تک کیلئے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔تاہم کچھ لوگ ایسے ہیں جو سچ کو مسخ کرنے اور گمراہ کن تشریحات کی کوشش کررہے ہیں۔قطری بائیکاٹ کے سیاسی مسئلہ کو محاصرے کا نام دیکر انسانی حقوق کا معاملہ بنا کر پیش کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ 
جناب مروان بن رضوان سے دیگر امور پر بھی بات ہوئی۔ مجیب الرحمن شامی صاحب نے اہم نکتہ اٹھایا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حکومتی اور نجی سطح پر کاروباری سرگرمیاں بڑھنی چاہئیں۔ جناب رئوف طاہر نے کہا کہ جس طرح ریسٹورنٹس میں چائینیز‘ اٹالین اور فرنچ کھانے دستیاب ہیںاسی طرح سعودی کھانے بھی متعارف کرائے جانے چاہئیں۔ سعودیہ میں فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ''البیک‘‘ بہت معروف ہے‘ اس کی برانچز پاکستان میں کھلنی چاہئیں۔ اسی طرح پاکستان سے بڑی مقدار میں پولٹری سعودی عرب کو برآمد کی جاتی ہے‘ یہ سلسلہ وسیع ہونا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کی معیشت مضبوط ہو اور ان کے عوام کے درمیان اخوت اور محبت میں مزید پختگی آ سکے۔مروان بن رضوان نے کھلے دل کے ساتھ ان تجاویز پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی بلکہ صحافیوں کے تند و تیز سوالات کا بھی خندہ پیشانی اور استدلال سے جواب دیا۔ 
قطر تنازعے میں پاکستان کا کردار مصالحتی اور انتہائی اہم ہے‘جنگ و جدل کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن پاکستان سرزمین عرب اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کیلئے ہر دم تیار ہے۔ سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز نگاہ ہے۔ اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے اور اس پر حملوں کے اعلانات کرنے والے ممالک خود اپنے خلاف نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ قطر کو ایسے ممالک کا بغل بچہ بننے سے باز رہنا چاہیے۔ قطر اسرائیل تعلقات کسی سے مخفی نہیں۔ اسی طرح قطر سے جو امریکی جہاز اڑ کر شام میں معصوم عوام پر کیمیائی ہتھیاروں سے بمباری کر رہے ہیں،اس پر بھی عالم اسلام کو شدید تشویش ہے۔ ایک طرف قطر نے امریکی اتحادی افواج کو فوجی ہوائی اڈے دئیے ہوئے ہیں دوسری طرف یہ ترکی میں موجود شامی متاثرین کی امداد بھی کر رہا ہے‘ ایک ہاتھ سے یہ شامی عوام کو زخمی کررہا ہے اور دوسرے ہاتھ سے ان پر مرہم رکھ رہا ہے‘ یہ تضاد خود قطر کے تشخص اور خارجہ پالیسی پر کئی سوال اٹھا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عالمی سازش پنپتی نظر آ رہی ہے ‘خلیج میں ایک خلیج گہری ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور ظاہر ہے اس کا مقصد مسلم عرب ممالک کو کمزور اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا ہے‘ اس صورتحال میں تمام عرب ممالک کو اتحاد و اتفاق اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہو گا‘ اسی میں سب کی عافیت ہے۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved