تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     03-07-2017

احمد پور شرقیہ کا سانحہ

25جون کو احمد پور شرقیہ میں ایک بڑا انسانی سانحہ رونما ہوا ۔ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پچاس ہزار لیٹر پیٹرول سے بھرا ہوا آئل ٹینکر حادثے کا شکار ہوا اور سارا پیٹرول بہہ نکلا۔مقامی لوگ بڑی تعداد میں بہتے ہوئے پیٹرول کو اپنے اپنے برتنوں میں جمع کرنے کے لیے لپک پڑے ، اسی اثنا میں کسی کی بے احتیاطی کے سبب پیٹرول میں آگ لگ گئی اور اخباری اطلاعات کے مطابق تقریباً دو سو افراد جل کر اذیت ناک موت سے ہمکنار ہوئے اور اتنی ہی تعداد میں زخمی ہوئے ،جو مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں اورکئی کی حالت تشویشناک ہے۔ حکومت نے آرمی کی مدد سے متاثرین کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا اور بروقت انہیں نقد امدادبھی پہنچائی اور علاج کی ذمے داری بھی اپنے ذمے لی، اس حد تک یہ بات قابلِ اطمینان ہے ۔اس سانحے میں بڑی تعداد میں کاریں اور موٹر سائیکل بھی نذرِ آتش ہوئے ۔
تاہم ہر ذی شعور شہری کے لیے اس سانحے کے کئی پہلو تشویش کا سبب ہیں ،بلکہ ذہنی اذیت کا باعث ہیں ۔ایسے سانحات کے موقع پرہمارے نہایت ہی آزاد الیکٹرانک میڈیا میں مسابقت شروع ہوجاتی ہے اور بلند آہنگ میںرپورٹنگ اور تبصروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا میڈیا شعوری یا لاشعوری طور پر انتشار ،بے حسی اور غیر ذمے دارانہ رویوں کو ہوا دے رہا ہے ،تربیت اور اصلاح کا فُقدان ہے ۔ایسے مواقع پر لازم ہے کہ ملک کے شہریوں کو اخلاقی اقدارکی طرف متوجہ کیا جائے اورپاکستان کے ذمے دار شہری کی حیثیت سے انہیں اُن کی ذمے داریوں سے آگاہ کیا جائے اور ذہنی تربیت کی جائے۔
لوگوں کااتنی بڑی تعداد میں لوٹ مار کے انداز میں لپک پڑنا اچھا رویّہ نہیں ہے ،انتظامیہ کی ذمے داری تھی کہ حادثے کی جگہ پر ایک حفاظتی حصار قائم کیا جاتا اور لوگوں کو وقوعہ کی جگہ سے فاصلے پر رکھا جاتا۔اگر ایسا ہوتا تو شاید اتنی بڑی تعداد میں جانی نقصان نہ ہوتا اور نہ ہی اتنا بڑا المیہ رونما ہوتا ۔فرض کریں کہ ایک ٹرک یا کنٹینر گندم یا چاول یا چینی یا سیمنٹ یا دوسرا سامان لے کر جارہا ہے اور قضائے الٰہی یا بشری غلطی سے حادثہ رونما ہوجاتا ہے اورسامان سڑک پر بکھر جاتا ہے ،تو کیا سامان کی لوٹ مار شروع کردی جائے گی ، جس کے ہاتھ میں جو کچھ آیا ،اُسے لے کر بھاگ جائے گا۔ایک مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ اَخلاقی زوال کی انتہا ہے اور انسانی رویّوں میں سنگ دلی اور شقاوت کا بہت بڑا مظہر ہے ۔ کیا ایسے موقع پر ہم پر خودغرضی اور ہوس پرستی کا اتنا غلبہ ہونا چاہیے ، کیا ہمیں کسی کے جانی یا مالی نقصان کو اپنی حرص وہوس کی نذر کرنا چاہیے ۔ زلزلے اور سیلابوں کے مواقع پر بھی یہ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، اسی طرح سیاسی جماعتوں کے کھانوں کے موقع پر بھی لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے ،رزق کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے ۔مذہبی اداروں اور جماعتوں کے ہاں پھر بھی نظم اور ادب واحترام کی ایک صورت نظر آتی ہے ۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے مواقع پرسب لوگ بکھرے ہوئے سامان کو جمع کر کے سڑک کے کنارے ترتیب سے رکھیں اور اُس کی حفاظت کریں تاکہ نہ کسی کامال ضائع ہو اورنہ کسی کی حق تلفی ہو۔عید کے موقع پر تو محنت کش لوگ اپنی سال بھر کی محنت سے جمع کی ہوئی پونجی لے کر اپنے آبائی گھروں کی طرف روانہ ہوتے ہیں ، کچھ نقدی اور کچھ سازوسامان اُن کی کل متاع ہوتی ہے ۔خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ ہوجائے تو کیا لوٹ مار شروع کردی جائے گی ، اس کا تصور بھی روح فرسا ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور حرص وہوس کے غلبے سے بچائے۔ 
ہونا تو یہ چاہیے کہ ان مواقع پر ہمارا الیکٹرانک میڈیا اَخلاقی زوال اور ہوس پرستی کے رویّوں کی مذمت کرے ، میڈیا میں اخلاقی تربیت اور انسانی اَقدار پر مبنی پروگرام ہونے چاہییں ،لوگوں کو مثبت اَقدار کے بارے میں آگہی دینی چاہیے ، لیکن ہمارے ہاں ہر شعبے میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔
مشہور مقولہ ہے: ''سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘، ہمارے سیاست دان اس کا سب سے بڑا مَظہر ہیں ۔ اُن کی اوّلین ترجیح ایک دوسرے کی تذلیل واہانت یا حکومتِ وقت پر چڑھ دوڑنا ، حکومت کی کسی انتظامی خامی یا تدبیر کی ناکامی کو نشانہ بنا کر یلغار کردینا اور جوابی اقدام کے طور پر حکمران طبقے کا اپوزیشن پر اسی طرح کی یلغار کرنا ، انتہائی افسوسناک رویہ ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ قومی المیوں اور سانحات کے مواقع پر ہم ایک قوم بن جائیں ، سب مل جل کر مصیبت زدگان کے دکھوں کا مداوا کریں ،جو خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہوئے یا جن کے سروں پر سے سایا اٹھ گیا ہے یا جو بدستور زخموں سے تڑپ رہے ہیں ، ہماری تمام تر توجہات اُن کے دکھوں کے ازالے پر مرکوز ہونی چاہیے ۔سیاسی محاذ آرائی اور آپس کی چپقلش کے لیے ہمارے پاس بہت وقت پڑا ہے ، اس شوق کی تکمیل کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے ، لیکن اِن مواقع کو اِن رویّوں سے مستثنیٰ رکھنا چاہیے ،غالب نے کہا تھا:
سینہ کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
غالب کہتے ہیں:وہ نالہ وفریاد جو لب تک نہ آئے اور فریاد میں نہ ڈھلے ،محض سینے کا داغ بن کر رہ جاتا ہے اور وہ قطرہ جو بیکراں ہوکر دریا نہ بنے ،خاک کا رزق بن کر مٹی میں جذب ہوجاتا ہے ۔غالب کے خیال میں قطرے کو دریا بن جانا چاہیے اور قطرے میں دریائے دجلہ دکھائی دینا چاہیے اور جُزو میں کُل نظر آنا چاہیے ، یعنی فرد کا غم ملّت کا غم ہونا چاہیے اور فرد کے دکھ کو ملّت کے دکھ میں ڈھل جانا چاہیے ،اسی حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیثِ پاک میں بیان فرمایا :
''ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے ،ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ جب جسم کے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچے ،تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ، (صحیح مسلم: 2586)‘‘۔ حدیثِ مبارک کے الفاظ ہیں: ''تَدَاعٰی لَہٗ سَائِرُ الْجَسَدِ‘‘،یعنی جسم کے مختلف اعضاواجزاء ایک دوسرے کو اپنے دکھ میں شریک ہونے کے لیے پکارتے ہیں اور جسم کا ایک ایک عضو ،ایک ایک انگ اور ایک ایک رُواں اُس کرب اور درد کو محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:
''مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے ، نہ وہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی مصیبت میں وہ اُسے بے سہارا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے، اللہ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے ۔اور جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی مصیبت کا ازالہ کرتا ہے ،تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گااور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے( عیوب )کی پردہ پوشی فرمائے گا، (بخاری:2442)‘‘۔
اسی طرح ہمارے رہنما ایک دوسرے کے بارے میں ہمیشہ بدگمان اور بدزبان رہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : 
''(اے مومنو!)تم بدگمانی کرنے سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے اوردوسروں کے عیوب کے درپے نہ ہو اور دوسروں کے پوشیدہ احوال کی ٹوہ میں نہ لگ جائو اورکسی چیز کو خریدنے کا ارادہ نہ ہو،تو (دوسرے کوجوش دلانے کے لیے )بڑھ چڑھ کر بولی نہ لواورایک دوسرے سے حسد نہ کرواور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اوراے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جائو، (صحیح البخاری:6066)‘‘۔
بعض لوگ ان واقعات کا جواز غربت کو بناتے ہیں ،غربت ایک سبب تو ہوسکتی ہے ،کُلّی حقیقت نہیں ہے ۔ہمیں اپنے اخلاقی زوال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔جنوبی پنجاب کے لوگ بالعموم محنت کے عادی اور بے ضرر ہیں ،سعودی عرب اورمشرقِ وُسطیٰ کے علاوہ اب کراچی میں بھی بہت سے شعبوں پر ہمیں جنوبی پنجاب کے لوگوں کا غلبہ نظر آتا ہے ،ان شعبوں میں تعمیرات کا شعبہ ، ٹرانسپورٹ یعنی ٹیکسی و رکشا ، گھریلو ملازمین اور دوسرے پیشہ ورانہ شعبوں کے علاوہ کم از کم اہلسنت کے مذہبی شعبے میں بھی جنوبی پنجاب کے طلبائے کرام، حفاظ کرام ،قرّائے کرام اور علمائے کرام کا غلبہ ہے،لہٰذا ائمہ وخطباء اور مدرسین بڑی تعداد میں موجود ہیں۔چونکہ یہ بے ضرر لوگ ہیں ،کسی طبقے یا برادری سے ان کا جھگڑا بھی نہیں ہوتا ،اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ، اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع کافی وسیع ہیں ۔ہمارے ہاں حکومتیں اپنی بے تدبیریوں کے سبب وسائل کی کمی کا شکار رہتی ہیں ،ملک کو اندرونی اور بیرونی قرضوں میں جکڑ دیا گیا ہے اور اگراس سلسلے پر قابو نہ پایا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ قرضوں کی اقساط ہماری پوری حکومتی آمدنی کو ہڑپ کر لیں گی۔ہم اپنے وسائل سے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی بجائے مزید قرضے لے کر اس بوجھ کو بڑھا تے رہتے ہیں اور اس شعر کا مصداق ہیں:
قرض کی پیتے تھے مَے اور سمجھتے تھے کہ ہاں 
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
لیکن عوام کی سطح پر معاشی صورت حال ہندوستان کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے ،اس پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور اپنے وطنِ عزیز پاکستان کی قدر کرنی چاہیے ۔ ہمارا میڈیا خود کشی کے سارے واقعات کو بھی غربت کے کھاتے میں ڈالتا ہے ، حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو اس کے اسباب ہمارے سماجی نظام اور روایات میں اور بھی بہت ہیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved