تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-07-2017

وحشت

زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘ خبر لیجئے دہن بگڑا۔ اسحٰق ڈار ایسا آدمی اگر اس سطح پہ اتر آیا تو گھبراہٹ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کوئی معاشرہ اگر قوانین اور اقدار کے احترام کو یکسر کھو دے تو انجام کیا ہوگا؟
سانحہ احمد پور شرقیہ کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا تھا۔ سرائیکی پٹی کی اذیت ناک غربت کا حوالہ دے کر۔ پھرفوراً یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد‘ کراچی اور لاہور کی تقریبات میں مدعوئین‘ اسی وحشت کے ساتھ کھانے پر ٹوٹ نہیں پڑتے؟۔ جاگیردار‘ صنعت کار‘ وزیر‘ مشیر‘ حتیٰ کہ وزرائے اعظم اور صدور پاگل پن پہ نہیں اترتے؟ ارب پتی ٹیکس چوری کے مرتکب کیوں ہیں؟ اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے ٹکٹ جاری کرنے کے لیے‘ سیاسی پارٹیوں کے رہنما‘ دام کیوں وصول کرتے ہیں۔ سرکاری پارٹی ہی نہیں‘ 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کے درجن بھر شہواروں نے بھی ہاتھ رنگے۔
تہذیب نفس ایک ذاتی کاوش ہے۔ آدمی خود سے برسر جنگ ہوتا ہے تو لالچ ‘جھوٹ اور خیانت سے نجات پاتا ہے۔ معاشرہ بھی ایک کردار رکھتا ہے‘ زیادہ صحیح الفاظ میں حکمران طبقہ۔ وہی ایسا ماحول تخلیق کرسکتا ہے‘ چوری چکاری‘ جس میں سہل نہ رہے۔ 
ہر سماج کا ایک معیار عزت ہوا کرتا ہے۔اسی کی لوگ تمنا پاتے ہیں۔ اقدار کی نگہداشت اور شائستگی اوپر سے نیچے تک‘ ہر دائرہ کار میں ضابطوں کا اجرا اور ان کی پاسداری یا بے شرمی سے دولت کی پوجا۔ دوسرے سرکاری ادارے بھی اہم ہیں۔ اخلاقی حدود کا تعین بنیادی طور پر پولیس اور عدالت سے ہوا کرتا ہے۔
پاکستان کی کسی بھی ضلعی عدالت میں افراتفری‘ بدنظمی اور رشوت ستانی کے بیہودہ مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ روپیہ لے کراہلکار نقول فراہم کرتے اور آئندہ تاریخ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ غالب آنے والا فریق وہ ہوگا‘ جو زیادہ ہنرمند‘ زیادہ ڈھیٹ اور زیادہ مالی استطاعت کا حامل ہو۔ وکلاء اپنے سائلوں کے نگہبان ہیں‘ خواہ وہ پرلے درجے کا جرائم پیشہ ہی کیوں نہ ہوں۔ پاکستان کے بعض ممتاز قانون دان وکلاء تحریک میں‘ جن کا کردار قابلِ رشک تھا‘ اب ایک مشہور کھرب پتی کے کارندے ہیں۔ ان میں سے ایک کے بارے میں جو بظاہر نیک نام ہے‘ اس نے یہ کہا: میرا ہوائی جہاز وہ پڑوسی کے بائیسکل کی طرح استعمال کرتا ہے۔ 
غربت جرم کی طرف مائل کر سکتی ہے‘ مگرانسانی کردار تباہ کرنے والی واحد اور بنیادی وجہ ہرگز نہیں۔ مشرق بعید‘ حتیٰ کہ افراتفری میں مبتلا مشرق وسطیٰ کے بعض معاشرے اس کی گواہی دیتے ہیں۔ خود ہمارا سماج بھی‘ آزادی کے بعد‘ جس میں قانون شکنی کی شرح بڑھتی چلی گئی۔ انگریز کی عدالت اور پولیس بہتر تھی۔ اپنے اعمال کے لیے وہ جواب دہ تھے‘ حتیٰ کہ ہمارے ہاں پانچواں اور چھٹا عشرہ بھی خرابی کا آغاز اگرچہ ہوگیا تھا۔ پھر حکمران پاگل ہوگئے۔ اپنی مرضی کے جج اور پولیس افسر متعین کرنے لگے۔ 1989ء میں شریف‘ بے نظیر کشمکش کے ہنگام میاں صاحب نے اپنے ارکان اسمبلی کو آسودہ رکھنے کے لیے‘ پنجاب پولیس میں 25000 سفارشی بھرتیاں کیں۔ ریوڑیوں کی طرح مناصب بانٹے گئے۔
افسر شاہی کے بارے میں ان کا ایک طے شدہ رویہ ہے۔ اشارئہ ابرو پرجو بروئے کار نہ آئے گا‘ ڈھنگ کا کوئی منصب اسے نہ ملے گا۔ قائداعظمؒ کے بعد ہر ایک حکمران نے سول سروس کو زوال آمادہ کیا‘ پارلیمنٹ اور بلدیاتی اداروں کو کمزورتر کیا۔ مگر جو بربادی شریف خاندان نے پھیلائی‘ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ عدلیہ میں وفادار جج مقرر کیے تاکہ مرضی کے فیصلے حاصل کر سکیں۔ جسٹس قیوم‘ سینیٹر بنائے جانے والے جناب لون اور صدارت کے عالی شان منصب پر فائز کیے جانے والے‘ جسٹس رفیق تارڑ ۔ صدر ممنون حسین سے کیایہ امید کی جا سکتی ہے کہ فیصلہ صادر کرتے وقت قومی مفاد کو وزیراعظم کی خوشنودی پہ ترجیح دیں گے۔ قومی اداروں
کے سربراہ بھی اسی طرح چنے گئے۔ اس لیے سٹیل مل‘ ریلوے‘ پی آئی اے اور واپڈا ایسے ادارے قومی خزانے پر مستقل بوجھ بنے‘ 5 سے 7 سو ارب سالانہ۔ سال گزشتہ پی آئی اے میں پریمیئر سروس کا اجرا ایسا ہی ایک کارنامہ تھا۔انتہا یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کا سربراہ بھی وزیراعظم کی مرضی سے مقرر ہوگا۔ کوئی اخبار نویس‘ افسر یا جنرل۔ کیا عجیب تماشا ہے۔ اس پر کسی کو شرم آتی ہے اور نہ کسی دل میں زیاں کا احساس جاگتا ہے۔
لوگ اپنے حکمرانوں کی پیروی کیا کرتے ہیں۔ سویت انقلاب کے بانی ولادی میر لینن سے فلسفی ٹراٹسکی نے کہا تھا: ثقافت‘ دیہات اور جھونپڑیوں سے نہیں‘ حکمران طبقات کی گھروں سے پھوٹتی ہے۔ آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف جب بیرون ملک محلات خریدیں گے تو تاجروں اور صنعتکاروں سے کیا امید رکھی جائے؟
سانحہ احمد پور شرقیہ کے بعد دنیا ٹی وی کے وقائع نگار نے تحقیقات کی۔ سب سے زیادہ ذمہ دار اوگرا ہے جو تیل بردار گاڑیوں کے اجازت نامے جاری کرتا ہے۔ پھر کاروباری ادارہ شیل‘ جو کسی قانون اور ضابطے کی پروا نہیں کرتا۔ موٹر وے پولیس‘ سانحات میں‘ جس کے افسر لمبی تان کر سوئے رہتے ہیں۔ ان افسروں کا تقرر کس نے کیا؟ اوگرا کے سربراہ کا انتخاب کس ذات گرامی نے؟۔ کس کا سایہ میسر ہے کہ شیل کے کارپردازوں کو قانون کی پروا نہیں؟
میاں محمد نواز شریف اور ان کے حامیوں کی تمام تر توانائی یہ ثابت کرنے پہ صرف ہو رہی ہے کہ پانامہ لیکس کٹھ پتلیوں کا تماشا ہے۔ سپریم کورٹ کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی اور عدالت عظمیٰ کو انصاف کے تقاضوںکی کوئی پروا نہیں۔ ان میں سے بعض فوجی قیادت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ کے متعلقہ جج نیک نام ہیں۔ خوش بختی سے تحقیقاتی کمیٹی کے کسی افسر کا ماضی آلودہ نہیں ورنہ کیسا ہنگامہ یہ لوگ اٹھاتے۔ کیا کیا نام نہ رکھتے اور کس کس کو بدنام نہ کرتے۔
حکومت کے تین بنیادی کام ہوتے ہیں۔ امن و امان‘عدل کی فراہمی اور ٹیکس وصولی۔ افسوس کہ ان تینوں شعبوں میں شریف حکومت کی کارکردگی المناک حد تک مایوس کن ہے۔ ہاں زرداری صاحب سے اچھی ہے‘ جو پاکستانی تاریخ کی بدترین حکومت تھی۔ اس پہ اگر وہ شاد ہیں تو ضرور شاد رہیں۔
قوم کو کیا مایوس ہو جانا چاہئے؟جی نہیں نیک نیتی جہاں کہیں کارفرما ہوئی‘ حیرت انگیز حد تک خوشگوارنتائج دیکھنے میں آئے ۔ نواز شریف ہی کی حکومت میں ذوالفقار چیمہ کی قیادت میں ایک ادارے نے ایک لاکھ کارکنوں کو تربیت اور بلا سود قرضے فراہم کئے ہیں۔ پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے پولیس اور پٹوار کو بدل ڈالا۔ 80کروڑ درخت گاڑے ہیں‘ جی ہاں واقعی گاڑے ہیں اور رشوت ستانی کو محدود کر دیا ہے۔ اگرچہ فردوس عاشق اعوانوں اور نذر گوندلوں کو پارٹی میں شامل کر کے آرزومندوں کی امیدیں خاک میں ملا دیں۔
کسی خاص پارٹی یا رہنما کا نہیں بلکہ سوال تو اصول اور اخلاق کا ہے۔ عمران خان کے حامی اس کے کسی اقدام پہ معترض نہیں ہوتے۔ نواز شریف نے قانون کی کھیتی اجاڑ کے رکھ دی مگر وکیل انہیں ولی اللہ ثابت کرنے پر تلے ہیں‘ حتیٰ کہ زرداری صاحب کیلئے تادیل کرنے والے موجود ہیں۔ 
زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘ خبر لیجئے دہن بگڑا۔ اسحٰق ڈار ایسا آدمی اگر اس سطح پہ اتر آیا تو گھبراہٹ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کوئی معاشرہ اگر قوانین اور اقدار کے احترام کو یکسر کھو دے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟
پس تحریر: اسحق ڈار نے عمران خان کو جواری‘ جھوٹا اور ٹیکس چور کہنے پر اکتفا کیا۔ وہ بھول گئے کہ اٹلی اور جرمنی کی مافیاز اور دنیا بھر میں بحری قذاقوں کے گروہ‘ کپتان کی خفیہ حمایت میں سرگرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط انہیں لکھنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved