جے آئی ٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں
یہ پتلیوں کا تماشہ ہے ۔ سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''جے آئی ٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘‘ یہ پتلیوں کا تماشہ ہے کیونکہ یہ اپنے آپ ہی بن گئی ہے اور سپریم کورٹ کا صرف نام استعمال کر رہی ہے، جبکہ پتلیوں کا تماشہ بھی بے وقت کی راگنی ہے کیونکہ جس مصیبت میں ہم پڑے ہوئے ہیں پتلیوں کا تماشہ دیکھنے کی کسے سوجھتی ہے، انہوں نے کہا کہ ''کسی ملک نے بھی پاناما کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی‘‘ بلکہ سارے ملک اسے مذاق ہی سمجھتے ہیں اور جو وزرائے اعظم اس کی وجہ سے مستعفی ہوئے ہیں وہ بھی مذاق ہی مذاق میں ایسا کر گئے اور جو مختلف ملکوں میں پانامہ میں مذ کور ہونے والوں کے خلاف مظاہرے ہوئے ہیں ان میں بھی کوئی سنجیدہ نہیں تھا بلکہ وہ ہنس ہنس کر نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ'' عدالت کو پاپولر فیصلہ نہیںکرنا چاہیے‘‘ کیونکہ پاپولر فیصلہ تو ہمارے خلاف ہو گا اور پوری قومی یہی چاہتی ہے لیکن پاپولر فیصلے قانونی نہیں ہو سکتے، آخر نظریہ ضرورت کس مرض کی دوا ہے جبکہ اس کی متعدد
سنہری روایات بھی موجود ہیں، اور سنہری روایات کو زندہ رکھنا چاہیے اورجس طرح اس کی بار بار ضرورت پڑتی ہے، اسے تو آئین کا باقاعدہ حصہ بننا چاہیے ۔ انہوں نے کہ ''وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کا مقدمہ نہیں ہے‘‘ بلکہ محض منی لانڈرنگ کا ہے یا ٹیکس چوری کا، جس کا کرپشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر لانڈرنگ واقعی کوئی بُری چیز ہے تو شہروں میں لانڈریاں کیوں کھلی ہوئی ہیں لہذا کپڑوں کی طرح کرنسی نوٹوں کی بھی آلائشیں دور ہونی چاہئیں، کیونکہ میلے نوٹوں کی جگہ کڑ کڑاتے نوٹ کتنے اچھے لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر عدالت سے انصاف ہوتا ہوا محسوس نہ ہوا تو کارکنوں کے جذبات کو سامنے لائیں گے‘‘ اور کارکنوں کے جذبات کا اظہار کس طرح ہوتا ہے، اسے ہر کوئی جانتا ہے اور اگر نہیں جانتا تو دوسروں سے پوچھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں انتشار نہیں پھیلنے دیں گے‘‘ تاہم، عدالتوں کو انتشار پھیلانے والے فیصلوں سے خود بھی گریز کرنا چاہیے، ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم تو کئی بار گر کر کھڑے ہو گئے‘‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب کی بار اس طرح گریں گے کہ اٹھنے کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمیں تسلیم ہے کہ ہم نے مارشل لا کی کوکھ سے جنم لیا‘‘ اس لیے آمرانہ رویے ہماری مجبوری ہے اور اس مجبوری کا خیال رکھنا چاہیے، آخر اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم زرداری کو سیانا آدمی سمجھتے تھے لیکن انہوں نے بھی عجیب زبان استعمال کرنا شروع کر دی ہے‘‘ اور میثاق جمہوریت کو بھی بھول گئے ہیں انہوں نے کہا کہ ''ملک کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں‘‘ اس لیے عرصہ دراز سے ہم نے ملک کو ٹھیک کر نے کی کوشش بھی چھوڑ دی ہے کیونکہ ملک تو ٹھیک ہوتا رہے گا! ٹانگیں بچانا اس سے زیادہ ضروری ہے۔ آپ اگلے روز جوڈیشری کمپلیکس کے سامنے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میاں چنوں کا مشاعرہ
یہ ایک عید ملن مشاعرہ تھا جس کا اہتمام صوبائی وزیر رانا بابر حسین نے کیا تھا۔ شعراء کے حساب سے تو تھا ہی‘ سامعین کے حوالے سے بھی یادگار مشاعرہ تھا۔ سامعین کی اتنی بڑی تعداد کبھی نہیں دیکھی۔ مشاعرہ تین بجے تک جاری رہا اور لطف یہ ہے کہ کوئی ایک بھی شخص اختتام سے پہلے اٹھ کر نہیں گیا۔ ایک طرف خواتین بیٹھی تھیں، ان میں سے بھی وقت سے پہلے کوئی اٹھ کر نہیں گئی۔ اس ڈسپلن کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رانا صاحب خود بہ نفس نفیس مشاعرہ گاہ میں براجمان تھے۔ اس طرح کے مشاعرے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں مرحوم کروایا کرتے تھے جن کی روایت کو رانا صاحب نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ شعراء کی تعداد کوئی چالیس سے کم کیا ہو گی جن میں خواتین شاعرات بھی شامل تھیں۔ مشاعرے میں ناروے ، لندن، آسٹریلیا اورکراچی سے آئے شعرا بھی شامل تھے۔ اور اگر اس میں کوئی بھارتی شاعر بھی شامل ہوتا تو اسے ایک عالمی مشاعرہ کہا جا سکتا تھا۔
سینئرشعرا میں امجد اسلام امجد، عطا ء الحق قاسمی، بابا نجمی، باقی احمد پوری، تیمور حسن تیمور، خالد شریف ، قمر رضا شہزاد، ڈاکٹر اختر شمار، اور عباس تابش نمایاں تھے جبکہ خواتین شعراء میں ڈاکٹر صغریٰ صدف ، سمبل صابری، صوفیہ بیدار، رخشندہ نوید، شاہدہ دلاور خاں، نیلما ناہید درانی اور دیگر ان، جبکہ مزاح کا رنگ انور مسعود، خالد مسعود خاں، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، گل نوخیز اختر اور محسن مگھیانہ نے جمائے رکھا۔ جدید شاعر مسعود عثمانی کے کلام نے بھی لطف میں اضافہ کیا۔ عامر بن علی جو وزیر موصوف کے برادرخورد اور ہمارے دیرینہ مداحوں میں شامل ہیں اور جن کے اصرار پر میں نے اس مشاعرے میں شامل ہونے کی حامی بھری تھی، خود بھی ایک عمدہ شاعر ہیں لیکن وہ میزبانی میں ہی اس قدر مصروف تھے کہ اپنے کلام سے انہوں نے ہمیں محروم رکھا۔ اتنے شعراء کو سنبھالنا چونکہ اکیلے آدمی کا کام ہی نہیں تھا، اس لیے مشاعرے کی نقابت کا فریضہ ڈاکٹر صغریٰ صدف اور وصی شاہ نے ادا کیا۔ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ عید ملن مشاعرے کا ہر سال اہتمام و انعقاد کیا جائے گا۔ مقامی شعراء عام طور پر بے وزن شعر ہی سنایا کرتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میاں چنوں کے شعراء بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ یہ ایک کامیاب اور یادگار مشاعرہ تھا جسے اس کے سامعین بھی یاد رکھیں گے اور شامل ہونے والے شعراء بھی۔
آج کا مقطع
دور تک سایۂ شہرت ہے، ظفرؔ
کاٹ کر یہ بھی شجر دیکھنا ہے