نور کا ظہور
ہم کل بھی سرِ دار صداقت کے امیں تھے
ہم آج بھی انکارِ حقیقت نہ کریں گے
فارسی میں کہا جاتا ہے ''خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بود‘‘۔ شہیدکشمیر برہان مظفروانی اس مصرعے کا حقیقی معنوں میں مصداق ہے۔ یہ شعلہ امتِ محمدؐ کے درمیان کشمیر کی وادیوں اور کوہساروں میں چند سال ہی چمکا، مگر اپنے پیچھے اتنے چراغ روشن کرگیا کہ پوری وادی کشمیر آج ایمان کی حرارت اور جذبۂ حریت سے مالامال ہے۔ اس کے جانے کے بعد اندھیرے نہیں اجالے کا دور ہے۔ آج ہر شخص کی زبان پر ہے کہ کشمیر کو بھارتی بنیا اپنی اندھی قوت کے بل بوتے پر زیادہ دیر غلامی کی ذلت میں مبتلا نہیں رکھ سکتا۔ امیدوں کے چراغ روشن ہیں، مایوسی کے اندھیرے کافور ہوچکے ہیں، اب نور کا ظہور وادی کے ہر گھر کو منور کررہا ہے۔
عظمت کا امین
برہان مظفروانی شہید ایک فرد تھا، مگر درحقیقت وہ ایک تحریک کی حیثیت اختیار کرگیا۔ تاریخ انسانی میں بعض ایسی شخصیات ملتی ہیں جن کی نظیر انسانی معاشروں میں کم کم پائی جاتی ہے۔ یہ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جو قدرت کی طرف سے بہت مختصر مہلت کے ساتھ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھیجی جاتی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ ان سے اتنے بڑے کام لیتا ہے کہ تاریخ ان کی عظمت کے سامنے سرجھکاتی اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔ ۲۱، ۲۲سال عمر ہی کیا ہے؟یہ تو کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں، تاہم اللہ کے کچھ بندے اس قادرمطلق کی اپنی مشیت کے مطابق اس دنیا میں آنے سے بہت پہلے عظمتوں کے امین بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ خوش نصیب بندے ہر دور میں موجود رہے ہیں جو تاریخ کی گزرگاہوں میں آج بھی اپنی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ اگر کوئی صاحبِ بصیرت، نگاہِ عبرت کے ساتھ ان کے قدموں میں بیٹھ کر کچھ روشنی حاصل کرنا چاہے تو اس کا موقع ہر وقت موجود رہتا ہے۔
بے مثال انعام
برہان مظفر وانی ایک مسلمان اور مجاہد فی سبیل اللہ تھا۔ اگر اس کی یہ حیثیت نہ ہوتی بلکہ وہ کسی اور پہچان اور تشخّص کا حامل ہوتا تو آج گنیزبک میں اس کا تذکرہ ہوتا، اسے نوبیل ایوارڈ انعام کا مستحق قرار دیا جاتا اور اس کی یادمیں مغرب کے ہر شہر میں یادگاری مجسمے نصب کیے جاتے۔ تکلف برطرف، یہ سب چیزیں ایک سراب اور دھوکہ ہیں۔ مظفروانی کو ان میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اسے وہ کچھ ملا ہے جس کے لیے اللہ کے عظیم بندوں نے زندگی بھر تمنا بھی کی اور جدوجہد بھی، مگر اس مقام کا حصول ہرایک کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔ شہادت ایک ایسا تمغہ ہے جس کا بدل یہ پوری دنیا اور اس کی جملہ دولت وثروت، اس جہان کے تمام مناصب اور ان کی چکاچوند ہر گز نہیں ہوسکتی۔ شہدا مرتے نہیں، زندہ رہتے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، اللہ کا سچا کلام اس پر شاہد اور اللہ کے سچے نبی کی زبانِ مبارک اس کی گواہ ہے۔ قرآن عظیم الشان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
حیاتِ جاوداں
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمھیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔‘‘ (البقرۃ۲:۱۵۴)۔ سورۂ البقرہ کی ان آیات میں حکم دیا گیا ہے کہ شہدا کومردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی مضمون کو مزید وضاحت کے ساتھ اللہ جل شانہٗ نے سورۂ آلِ عمران میں قرآن کی زینت بنایا۔ یہاں ارشاد ہو اکہ شہدا کے بارے میں یہ گمان بھی نہ کرو کہ وہ مردہ ہیں: ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے، اس پر خوش وخرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہلِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں وفرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (آلِ عمران۳:۱۶۹-۱۷۱)
یہ آیات آنحضورؐ پر غزوۂ احد کے بعد مدینہ واپس آتے ہوئے راستے میں نازل ہوئی تھیں۔ ان آیات کے نزول کے بعد آنحضورؐ نے دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو آپؐ نے صحابہ کو بتایا کہ جبریل ابھی میرے پاس آئے تھے اور انھوں نے خوش خبری دی کہ ہر شہید اپنے خاندان اور احباب میں سے 70اہلِ ایمان کو بغیرحساب جنت میں لے جائے گا۔ دوسری بات آپؐ نے حضرت جابربن عبداللہؓ سے کہی جن کے والد حضرت عبداللہ بن عمرو احد میں شہید ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر شہید سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کرتا ہے، مگر تمھارے والد سے اللہ تعالیٰ نے پردے ہٹا کر بات کی۔ یہ شہدا ہی کا مقام ومرتبہ ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتا۔
علم وعرفان کا حامل خاندان
برہان مظفر وانی کا تاریخی وخاندانی پس منظر یہ ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں داداسرا نزد ترال، ضلع پلوامہ کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان گھرانے میں ۱۹۹۴ء میں پیدا ہوا۔ برہان کے والد مظفراحمدوانی ہائرسیکنڈری سکول کے پرنسپل تھے جبکہ شہید کی والدہ میمونہ مظفر ایم ایس سی ہونے کے باوجود اپنے گاؤں اور علاقے میں مسلمان بچیوں اور خواتین کو قرآن وحدیث کی تعلیم سے آراستہ کرنے کا عظیم فریضہ ادا کرتی تھیں۔ یہ دونوں میاں بیوی جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر اور باعمل مسلمان ہیں۔ دونوں کے ہزاروں شاگرد مقبوضہ کشمیر اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مظفراحمد وانی کو اللہ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی عطافرمائی۔ سب سے بڑے بیٹے خالد مظفروانی تھے، ان کے بعد ان کی بہن ارم مظفروانی اور پھر برہان مظفر وانی اور سب سے چھوٹے نعیم عالم مظفروانی۔
ظلم کا راج
برہان مظفر سکول ہی میں تھا کہ اسے اور اس کے بڑے بھائی خالد مظفر کو بلاوجہ بھارتی فوج کے درندوں نے ناقابل بیان ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا۔ اس بات نے نوعمر برہان وانی کے دل میں بھارتی درندوں کے خلاف پہلے سے موجود نفرت کو مزید بھڑکایا۔ اس نے سوچا ظلم کا یہ راج کب تک برداشت کیا جاتا رہے گا۔ اس کے بھائی خالد مظفروانی کو بعد میں بھارتی فوجیوں نے اس کے تین ساتھیوں سمیت 13اپریل2015ء کو اس وقت گھیرے میں لے لیا جب وہ کہیں جارہے تھے۔ پھر ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ خالد کے تینوں ساتھی گرفتار کرلیے گئے اور اسے نہایت بے دردی سے شہید کردیاگیا۔ اس واقعہ نے پورے علاقے میں تمام مسلمان آبادی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بھارت کے ظالمانہ اقدامات اور بھارتی درندوں کی غنڈہ گردی اور قتل وغارت گری کے خلاف نفرت کا لاوا پھٹ پڑا۔ پورا علاقہ اب اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے لیے یکسو ہوگیا۔ اس واقعہ نے معصوم برہان وانی کی زندگی اور سوچ کا دھارا ہی بدل دیا۔
عزتوں کے محافظ
برہان مظفربہت ذہین اور پاکیزہ خیال نوخیز مسلمان لڑکا تھا۔ آپ اس کی تصویر دیکھیں تو دل گواہی دے گا کہ یہ کسی اللہ والے کا چہرہ ہے، بے داغ جوانی، اجلاکردار، عظم جدوجہد، یادگار کارنامے! وہ ان سارے واقعات سے متاثر ہو کر ۱۶؍اکتوبر۲۰۱۰ء کو ۱۵سال کی عمر میں عملی جہاد کی تربیت حاصل کرنے کے لیے والدین کو اشاروں کنایوں میں بتا کر اپنے گھر سے خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔ اس نے حزب المجاہدین کے نوجوانوں سے مل کر عسکری تربیت حاصل کی۔ اس تربیت کی تو ظلم کی چکی میں پستے ہوئے خطۂ کشمیر کے ہرنوجوان کو ضرورت ہے۔ البتہ برہان وانی کا ذہنی وذاتی رجحان فکری وابلاغیاتی محاذ سنبھالنے کی طرف زیادہ راغب تھا۔ اپنے بھائی کی مظلومانہ شہادت کے بعد اب اس کی زندگی کا ایک ہی مشن تھا کہ اپنے مظلوم خطۂ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرائے۔ یہ خطہ جو کبھی جنت نظیر تھا اب ملبے کا ڈھیر اور ظلم کی آماج گاہ بن چکا تھا۔ برہان کا خون کھول اٹھتا تھا، جب وہ یہ سنتا کہ کسی علاقے یا بستی میں بھارتی درندوں نے اس کی کسی ماں بہن کی عزت لوٹ لی ہے۔ اب اس کے سامنے ایک ہی نظریہ اور تصور تھا کہ ہر دختراسلام اس کی ماں اور بہن ہے۔ اسے ہر قربانی دے کر ان کی عزت کا محافظ بننا ہے۔ گویا اب اس پاکیزہ نوجوان کی زندگی کا ایک ہی مشن تھا:
ہم دین محمدؐ کے وفادار سپاہی
اللہ کے انصار و مددگار سپاہی
اسلام کی عظمت کے نگہدار سپاہی
باطل کی خدائی کو گوارا نہ کریں گے
مر جائیں گے، ایمان کا سودا نہ کریں گے
(جاری )