تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     05-07-2017

کتاب سے خوف کیوں؟

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے پیچھے چھپی سازشیں تلاش کرتے ملکی جگادریوں کو دیکھ کر مجھے حیرانی نہیں ہو رہی۔ یہ نہ پہلی دفعہ ہے اور نہ ہی آخری دفعہ یہ کام ہو رہا ہے۔ پاکستان بارے کتابیں لکھی جاتی رہیں گی‘ ہم گھروں میں بیٹھ کر سازشیں تلاش کرتے رہیں گے اور ہماری قیادت ہمیں بیوقوف بناتی رہے گی۔ ہر دفعہ نئی کتاب آتی ہے اور ہر دفعہ پاکستان پر آسمان گر جاتا ہے۔ اکثر میں سوچتا تھا‘ لفظ سازش کہاں سے نکلا اور ہم اس کا استعمال کیوں کرتے ہیں؟ برسوں بعد احساس ہوا کہ جو بات میری سمجھ سے باہر ہو یا میرے اندر اسے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی‘ اسے میں سازش سمجھتا ہوں۔ ہم وہ کبوتر بن چکے ہیں جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ بچ گیا ہے۔ چلیں غیرملکی مصنفین کو چھوڑیں۔ وہ ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں کہ انہیں اور کوئی کام نہیں رہ گیا‘ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ''یہ خاموشی کب تک‘‘ جب سامنے آئی تھی تو بھی یہی واعظ کیا گیا تھا کہ یہ سازش ہے۔ کوئی بھی نئی کتاب سامنے آئے گی تو دانشور فوراً دو تین سوالات ضرور داغ دیتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسری بڑی تنقید اس کی ٹائمنگ پر ہوتی ہے۔ اس موقع پر ہی کیوں؟ یقینا یہ سازش ہے۔ تیسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کی لکھی ہوئی کتابیں کوئی آسمانی صحیفہ ہوتی ہیں کہ ان پر آنکھیں بند کرکے یقین کر لیا جائے؟ 
یوں یہ چند سوالات سازش کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پورا ملک کتاب میں لکھے گئے انکشافات بھول کر سازش تلاش کرنے لگ جاتا ہے اور ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے جن کی جواب طلبی ہونی چاہیے تھی۔ 
پاکستانی معاشرے میں لوگوں کو ایسی کتابوں سے دور رکھنے کے لیے ایک لفظ سازش ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے پاکستان میں لوگ کتابیں نہیں پڑھتے۔ وہ ہمارے کالم پڑھ کر اپنی رائے بنانے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا جب ہم کالم نگار اور دانشور ہی کتابوں کی مذمت میں لگ جاتے ہیں تو پھر عوام بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب ملک کے خلاف سازش ہے۔ ہلری کلنٹن کی کتاب بھی سازش قرار پائی جس میں اس نے تفصیل سے لکھا کہ کیسے ہم (امریکیوں) نے اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے مارا اور زرداری کو فون کیا اور زرداری نے کیسے الٹا انہیں تسلیاں دیں۔ سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے تفصیل سے لکھا کہ کیسے اس نے جنرل پاشا کو سی آئی اے ہیڈکوارٹر بلا کر دھمکی دی کہ ریمنڈ ڈیوس کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری ان (جنرل) پر ہو گی تو بھی یہ کتاب سازش ٹھہری۔ 
ایک اور کتاب‘ جس میں جنرل پاشا اور جنرل کیانی کو لیون پنیٹا اور جنرل ملن کی طرف سے کیے گئے فون پر کہ ہم نے اسامہ کو مار ڈالا ہے‘ کا ذکر موجود تھا‘ اور جس میں ان دونوں کے مابین ہونے گفتگو شامل کی گئی تھی‘ جس سے یہ گفتگو منظر عام پر آ گئی تھی‘ کو بھی ہم نے سازش قرار دیا۔ چار امریکی صدور کے ایڈوائزر بروس ریڈل نے کئی کتابیں پاکستان پر لکھیں۔ یہ امریکی خفیہ دستاویزات کی بنیاد پر لکھی گئی تھیں۔ ان پر بات کر لیں تو وہ بھی سب کتابیں سازش قرار پاتی ہیں۔ اب ریمنڈ ڈیوس کی کتاب سامنے آئی ہے تو بھی یہ سازش ہے۔ سوال یہ ہے اگر بل کلنٹن، جارج بش، مائیک ملن، لیون پنیٹا، ہلری کلنٹن، ریمنڈ ڈیوس، بروس ریڈل کتابیں لکھ کر پاکستان کی قیادت کے بارے میں انکشافات کر سکتے ہیں تو ہمارے زرداری، نواز شریف، جنرل کیانی، جنرل پاشا اور دیگر کیوں کتابیں نہیں لکھتے تاکہ ہمیں بھی امریکیوں کی کتابوں کو درست انداز میں پرکھنے کا جواز مل جائے؟ 
جنرل کیانی نے کتاب کیوں نہیں لکھی؟ جنرل پاشا جواب کیوں نہیں دیتے؟ وہ اس لیے کتابیں نہیں لکھتے کہ انہیں علم ہے اس قوم کو سازش نام کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دو تو ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ چلیں آپ کتابیں لکھنے کی صلاحیت سے محروم لوگ ہیں تو پھر کسی دوست اخبار نویس کو ہی کوئی انٹرویو دے دیں۔ کسی ٹی وی پر ہی چند سوالات کا جواب دے دیں۔ 
میں تو اس دن مایوس ہو گیا تھا‘ جب بارہ اکتوبر کی فوجی بغاوت کے اہم کردار جنرل شاہد عزیز نے کتاب لکھی تو پورا معاشرہ لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ گیا تھا۔ باقی چھوڑیں میرے جیسے صحافی اور کالم نگار یہ لٹھ لے کر سب سے آگے آگے تھے۔ مطلب یہ تھا کوئی پاکستانی جنرل آئندہ کتاب لکھنے کی جرأت نہ کرے اور نہ ہی ہمیں بتائے کہ قومی مفادات کے نام پر اندر کھاتے کیا کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ کوئی یہ بات قوم کو نہیں بتائے گا کہ ریمنڈ ڈیوس بارے لیون پنیٹا کو فیور کیوں دی گئی تھی۔ یہ کوئی بڑا راز نہیں ہے۔ جنرل پاشا نے مبینہ طور پر اس کے بدلے امریکہ میں اپنے خلاف ایک عدالت سے جاری ہونے والے سمن کو رکوا لیا تھا۔ امریکی عدالت میں جنرل پاشا کے خلاف ایک مقدمہ چل رہا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کے بعد کبھی اس کا نہ سنا کہ اس مقدمے کا کیا بنا؟ ویسے ریمنڈ ڈیوس کو لاہور ایئرپورٹ پر ڈراپ کرنے کے بعد جنرل پاشا کو نوکری میں ایک سال کی مزید توسیع بھی مل گئی تھی۔
ریمنڈ ڈیوس کی کتاب پر کئی اعتراضات ایسے ہو رہے ہیں جیسے ہمیں کچھ پتہ نہ تھا اور امریکی ایجنٹ نے نئی باتیں بتائی ہیں۔ ان باتوں کے بارے میں ہم سب جانتے تھے لیکن اب تک یہ ان باتوں کا ہمیں ذرائع اور خبروں سے پتہ چلا تھا یا پھر نیویارک ٹائمز کے ایک رپورٹر نے ایک کتاب لکھی تھی Way of the knife جس میں یہ سب تفصیلات دی گئی تھیں۔ لیکن اس نئی کتاب کی اہمیت خبروں اور کتابوں سے اس لیے اہم ہے کہ اب اس پورے ایشو کا مرکزی کردار ان باتوں کو کنفرم کر رہا ہے‘ اس لیے سنگینی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ امریکی صحافی نے جب یہ بات لکھی تھی کہ جنرل پاشا لاہور کی سیشن عدالت میں بیٹھ کر امریکی سفیر منٹر کو عدالتی کارروائی سے آگاہ کر رہے تھے تو وہ شاید اتنی بڑی خبر نہ تھی کہ وہ ذرائع سے کوٹ کی گئی تھی۔ اس میں شک کی گنجائش تھی‘ لیکن جب ریمنڈ ڈیوس یہ بات اپنی کتاب میں لکھے گا کہ وہاں جنرل پاشا موجود تھے تو اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ 
اگر ہم نے ہر کتاب کو سازش قرار دے کر مسترد کر دینا ہے تو اس سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فرق پڑے گا ہمارے معاشرے کو، جہاں کسی بھی ذمہ دار کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ بلنڈرز ہوتے رہیں گے۔ ہمارے بڑے لوگ بیٹھ کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے۔ نواز شریف نے جان کیری پر احسان کیا تو یقینا کیری نے بھی سوچا ہو گا کہ ایسی قیادت ہی پاکستان کو سوٹ کرتی ہے۔ جب زرداری اسامہ کے مارے جانے بعد ہلری کلنٹن کے فون پر الٹا انہیں تسلیاں دے رہے تھے تو ہلری کے دل میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو گیا ہو گا کہ ایسے لوگ ہی ہمیں پاکستان میں سوٹ کرتے ہیں۔ پاشا صاحب جیسے جنرل بھی سی آئی اے کے لیون پنیٹا سے گفتگو کرکے خوش ہوئے ہوں گے جب انہیں بتایا گیا کہ اسامہ مارا گیا ہے۔ 
آج تک ہمیں جنرل ایوب خان کے امریکی دورے کی تصویریں اور ویڈیو بڑے فخر سے دکھائی جاتی ہیں کہ دیکھیں جان ایف کینیڈی کتنی عزت دے رہے ہیں۔ ابھی بروس ریڈل نے چین بھارت جنگ پر کتاب لکھی ہے اور اس میں اس نے انکشافات کئے ہیں۔ دراصل سی آئی اے نے جان ایف کینیڈی کو کہا تھا کہ جنرل ایوب کو بلائیں کیونکہ ایوب خان پشاور اور چٹاگانگ میں امریکیوں کو اڈے دینے میں تھوڑے سے مسائل پیدا کر رہے تھے۔ ان اڈوں سے روس اور چین کے خلاف امریکی جاسوسی کرتے تھے۔ جنرل ایوب کو وی آئی پی پروٹوکول دے کر پشاور اور چٹاگانگ کے اڈے لیے گئے تھے۔ اب یہ کتاب بھی یقینا پاکستان کے خلاف سازش ہوگی۔ پاکستان میں ہر چیز خفیہ رکھی جاتی ہے کیونکہ اس طرح آپ کو ڈیل کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
ہم کنوئیں کے مینڈک بن چکے ہیں۔ ہر کتاب ہمیں سازش لگتی ہے۔ ہر انکشاف پر ہمیں لگتا ہے آسمان گر جائے گا۔ ریمنڈ ڈیوس کو جس طرح پاکستان سے باہر بھجوایا گیا اور فوجی اور سویلین نے اپنا اپنا کردار ادا کیا‘ اگر اس سے کوئی آسمان نہیں گرا تو تسلی رکھیں اس کتاب سے بھی کوئی آسمان نہیں گرے گا۔ جنرل پاشا کو اس واقعے کے بعد ایک سال مدتِ ملازمت میں توسیع ملی تو زرداری نے پانچ سال پورے کیے اور نواز شریف صاحب جان کیری ملاقات کے دو سال بعد ملک کے اگلے وزیر اعظم بنے۔ ہم 'لکڑ ہضم پتھر ہضم‘ والی قوم ہیں۔ ایسی کتابیں، ایسے سازشیں ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہیں... اگر ہمارا معاشرہ کتاب پڑھنے پر یقین رکھتا ہوتا تو اس کتاب میں دیے گئے سب کرداروں سے سوالات ہو رہے ہوتے‘ نہ کہ کتاب کو ایک سازش قرار دیا جا رہا ہوتا۔ ان پڑھ معاشرہ، فوجی ہوں یا سویلین حکمران دونوں کو سوٹ کرتا ہے... پڑھے لکھے باشعور لوگ اپنے حکمرانوں کا ایسے انکشافات پر احتساب کرتے ہیں، جبکہ میرے جیسے ان پڑھ بیٹھ کر ان انکشافات میں سازشی ہاتھ ڈھونڈتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved