اگر آپ میں سے کسی نے حسین حقانی کی لکھی جانے والی کتاب'' انڈیا بمقابلہ پاکستان‘‘ کو غور سے پڑھا ہے یا اس کی لکھی جانے والی دوسری دو کتابوں '''Pakistan Between Mosque and Military یا حسین حقانی کی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر Magnificent Delusions Pakistan, The United States کے نام سے لکھی جانے والی کتابوں کو پڑھا ہے تو وہ بے ساختہ پکار اٹھیں گے کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب '' CONTRACTOR THE کا مصنف حسین حقانی کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟۔ کیونکہ اس کتاب کا تلفظ انداز بیان صاف اور کھل کر گواہی دے رہا ہے کہ اس میں لکھی جانے والی انگریزی کس کے دماغ کی اختراع ہے۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا آپ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ''کنٹریکٹر‘‘ کی انگریزی اور حسین حقانی کی ان تینوں کتابوں کا انداز بیان اور اس میں استعمال کئے جانے والے الفاظ اور محاوروں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک لمحے میں فیصلہ کر سکتے ہیں کہ تین کتابوں سمیت دی کنٹریکٹر کا مصنف ایک ہی شخص ہے۔ اگر کسی کو ان کتابوں تک رسائی نہیں ہو سکتی تو وہ حسین حقانی ا ور ان کی بیگم فرح ناز اصفہانی کے نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، فنانشل ٹائمز اور گارڈین سمیت پاکستان کے انگریزی اخبارات میں لکھے جانے والے آرٹیکلز کے انداز بیان کو سامنے رکھ لے‘ سچ چمکتی دمکتی دھوپ کی طرح سامنے آ جائے گا۔
ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کیلئے یہ خبر ہو لیکن با خبر ذرائع کی اطلاعات کے مطا بق حسین حقانی کے تعلقات سابق صدر آصف علی زرداری سے کشیدہ ہو چکے ہیں اور وہ اپنی 1988 والی سابق ٹیم کے ساتھ ایک بار پھر منسلک ہو گئے ہیں اس سلسلے میں ان کی عید کی رات لندن کے مضافات میں ایک فارم ہائوس پر انتہائی اہم شخصیت سے ملاقات بھی ہو چکی ہے اور اپنے نئے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور ان کیلئے پہلے کی طرح کام کرنے کیلئے نیویارک اور واشنگٹن میں مشہور زمانہ پاکستانی کھرب پتی بزنس مین شیخ سعید سے گاہے گاہے ہونے والی ملاقاتوں سے رہنمائی لے رہے ہیں۔حسین حقانی آصف علی زرداری کو چھوڑ کر سابق باس کے پاس کیسے آیا اس کیلئے بہت سے بیرونی عوامل نے راستے بحال کئے لیکن حسین حقانی اور ان کی بیگم فرح ناز اصفہانی کی بار بار بھارت یاترا کو ہمیشہ مد نظر رکھنا ہو گا ۔ اس سلسلے میں گزشتہ برس حسین حقانی ا ور طارق فتح گروپ کی لندن میں بعض علیحدگی پسندوں کے ساتھ کی جانے والی کانفرنس کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہو گا جس میں خیر سے پاکستان سے بھی صحافیوں کے ایک مخصوص گروپ کو بزنس کلاس کے ٹکٹ دے کر خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا ۔
پولیس اور ایف آئی اے میں کام کرنے والے سابق تجربہ کار افسران جن میں طارق کھوسہ، رفیع بھٹی، ، ظفر قریشی اور سلمان خالق جیسے لوگ شامل ہیں ان سے درخواست کروں گا وہ حسین حقانی کی تین کتابوں اور ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب کا اچھی طرح پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے سچ اور جھوٹ کو قوم کے سامنے لے کر آئیں۔ میرے اس تجزیئے اور تحقیق پر اپنی جانب سے تحقیق کر کے دیکھ لیں آپ سب کو ریمنڈ ڈیوس کے پردے میں چھپی ہوئی تصویر بے نقاب ہوتی دکھائی دے گی۔ اگر ریمنڈ ڈ یوس کی کتاب کا ٹائٹل مختلف ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ میرا اس جانب کبھی بھی دھیان نہ جاتا لیکن جیسے ہی میں نے کتاب کے ٹائٹل پر جماعت اسلامی کی جانب سے کئے جانے والے مظاہرے کو ٹائٹل کے طور پر دیکھا تو میرا ماتھا ٹھنکا اور میرا دھیان فوری طور پر سابق سفیر پاکستان حسین حقانی کی جانب چلا گیا جو ایک وقت میں اسلامی جمعیت طلبا اور جماعت اسلامی سے منسلک رہے اور یہ خیال آتے ہی سب سے پہلی ان کی لکھی جانے والی کتاب Pakistan between Mosque and Military کی جانب اٹھا اور پھر تین دن تک اس کی تینوں کتابوں اور پھر ریمنڈ ڈیوس کی کتاب '' دی کنٹریکٹر‘‘ کو کھنگال ڈالا حقانی کے لکھے گئے بہت سے آرٹیکلز کو ڈائون لوڈ کرتے ہوئے اس کے انداز بیان کا موازنہ کرتے ہوئے بغیر کسی شک کے لکھ رہا ہوں کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا اصل مصنف ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں؟۔
مختلف حلقوں کی جانب سے ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے بارے میں جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ بے جا نہیں ہیں کیونکہ سب سے زیا دہ جس نکتے پر زور دیا جا رہا ہے وہ اس کتاب کی ٹائمنگ ہے۔اس کتاب کے نقادوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پانامہ کیس کی سماعت جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں بہت تیزی سے مکمل ہونے والی ہے اس کتاب میں میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور عسکری اداروں کا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں کردار کا ذکر موجود ہے لیکن۔۔۔۔کیا آپ میں سے کسی کو بھی اس بات پر حیرانی نہیں ہو رہی کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان دو حکمران جماعتوں کی بجائے صرف دو قومی اداروں کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی یہ کتاب کس کی مرضی اور معاونت سے شائع ہوئی یہ جاننا کوئی زیادہ مشکل نہیں اس کیلئے زیا دہ تحقیق کی ضرورت نہیں اگر گزشتہ دوماہ کی تحریروں اور تقریروں کو سامنے رکھیں تو کوئی شک ہی نہیں رہتا کہ پردے کے پیچھے کون ہے ؟۔ کسی ایک کا بھی نام نہیں لوں گا لیکن جو کچھ میں اپنے اس مضمون میں ثابت کرنے جا رہا ہوں اگر کوئی اس کی اپنے طور پر مکمل تصدیق کا خواہش مند ہے تو وہ پچھلے دو ماہ سے ان تمام مضامین اور آرٹیکلز کو جو جے آئی ٹی کو مشکوک بنانے کیلئے لکھے جا رہے ہیں اور ان کا موازنہ ان مضامین سے کر لے جو عمران خان نے پاکستان میں PSL کھیلنے کیلئے آئے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہنے پر لکھے تھے۔
ریمنڈ ڈیوس کی یہ کتاب جیسے ہی سامنے آئی تو عدلیہ اور عسکری اداروں کو نشانہ بنانے والے مضامین کو ان کے آئینے میں دیکھیں تو نظر آنے والے چہرے سب ایک ہوں گے۔ ان معزز حضرات کے اردو اور انگریزی میں لکھے جانے والے مضامین اور تبصروں میں آپ کو اس جے آئی ٹی پر شدید تنقید دکھائی دے گی جسے یہ مشکوک اور نا اہل ثابت کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ۔ کڑیاں ملائیں توادھر ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا شور مچا ادھر سوشل میڈیا پر سیکولر اور لبرل حضرات سمیت حکومتی سرپرستی میں فروغ پانے والے سوشل میڈیا گروپس نے طنز اور تضحیک کے تیر برسانے شروع کر دیئے جن میں جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو '' جانبدار‘‘ پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ اب سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی مانیٹر نگ کی جائے تو سچ سامنے آ جائے گا۔