'' چمکتے پتھر اور سرسبز و شاداب وحسین وادیاں پابند زندان کی منزل ہوتی ہیں فریب نظر نہیں اور جب ان چمکتے پتھروں اور سر سبز وادیوں کو غاصب فوج ناپاک بوٹوں سے کچلنا شروع کر دے تو زندان میں جکڑے ہوئے پرندے اپنے چمکتے پتھروں اورسرسبز وادیوں کو پاک رکھنے کیلئے زندان کے جلادوں کو باہر نکالنے کیلئے اپنا آپ قربان کردیتے ہیں‘‘۔کون جانتا تھا کہ19 ستمبر1994 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے گائوں داد سر ترال کے استاد مظفر احمد وانی کے گھر پیدا ہونے والا برہان نام کا بچہ صرف بائیس سال کی عمر میں دنیا بھر کے حریت پسندوں کی امیدوں کا نشان بن کر اس طرح ابھرے گا کہ بڑے بڑے ممالک کے سربراہ اس کا ذکر کریں گے چودہ لاکھ تعداد رکھنے والی بھارتی فوج کی نیندیں اس طرح اجاڑ کر رکھ دے گا کہ وہ اپنے مضبوط ترین بینکروں میںبیٹھی اس کی اچانک آجانے والی روح سے لرزاں رہے گی۔ دنیا کا ہر اخبار اس کی تصویروں سے مزین ہو گا۔ بچپن میں اس کے ساتھ کھیلنے والے ایک ساتھ پڑھنے والوں کوکیا علم تھا کہ ان کے ساتھ کھیلنے کودنے والابرہان ایک دن کشمیر کے محکوم اور مظلوم مسلمانوں کی آواز بن کر اس طرح دنیا بھر میں مشہور ہو جائے گا کہ آزادی کی قدر و منزلت جاننے والے مظلوموں سے ہمدردی رکھنے والے ہر گھر میں اس کا نام عقیدت و احترام سے لیا جائے گا۔ کون جانتا تھا کہ وہ ایک دن حزب المجاہدین کے لیڈر کی حیثیت سے کشمیر کے چپے چپے پر تعینات سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کو فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ، وہ اس طرح تگنی کا ناچ نچائے گا کہ وہ اس کے خون کی پیا سی بن جائے گی۔ سیاہ بڑی بڑی آنکھوں والا پانچ فٹ نو انچ قدو قامت کا حامل برہان وانی کشمیر کی نو جوان نسل کا مستقبل بن چکا تھا وہ آزادی کا ایک ایسا سمبل بن چکا تھا جس نے ہر بچے کے دل و دماغ میں بھارتی فوج اور اس کے تسلط کے خلاف نفرت بھر دی تھی۔ اسے شہید ہوئے ایک سال ہورہا ہے لیکن ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں نوجوانوں اور بزرگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود برہان کو کمانڈو وردی پہنے وادی میں چلتے پھرتے دیکھا ہے۔
8 جولائی 2016ء کی ایک رات جموں کشمیر میں بنڈورہ کوکر ناگ گائوں کے ایک گھر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے برہان وانی کی شہا دت کو ایک برس ہو جائے گا ۔ بھارتی فوجیوں کی مشین گنوں کے برسٹ سے جیسے ہی وانی کا پاک خون مقبوضہ کشمیر کی دھرتی پر گرا ۔ پوری وادی آگ کے ایک ایسے شعلے میں تبدیل ہو گئی کہ لگ رہا ہے کہ ظلمت و بر بریت کے ہر نشان کو مٹا کر دم لے گی۔ نہ جانے اس کے خون کی حرمت تھی یا برہان وانی کی گزاری ہوئی پاک باز جوانی کے لمحے تھے جو اﷲ نے اس کی شہا دت کے لئے امر کر دیئے آج مقبوضہ کشمیر کا ہر بچہ شاہ رخ نہیں سلمان خان نہیں امیتابھ بچن نہیں بلکہ برہان وانی بننے کا شوق اور جذبہ لئے گلیوں بازاروں اور چوکوں میں بھارتی فوج کا خالی ہاتھ سامنا کرنے کیلئے گھروں سے نکل آیا ۔پرسوں ، چوتھ برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے لیکن ایک ماہ سے بھارتی فوج کے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں اس کے با وجود کہ وہ کون سا ظلم ہے جو ان کشمیریوں پر نہیں ڈھایا گیا اس کے با وجود شمع رسالت کے پروانے بت پرستوں کے ظلم کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوئے ہیں۔ ظلم اور وحشت کی حد دیکھئے کہ دنیا کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی بھی فوج نے جدو جہد آزادی کیلئے پر امن مارچ کرنے والے نوجوانوں اور کم عمر بچوں کے چہروں کے با قاعدہ نشانے لے لے کر ان پر پیلٹ گنوں کے سیدھے فائر کئے ہوں۔ بھارتی فوج کی اس بر بریت سے ایک ہزار سے زائد کشمیری بچے زند گی بھر کیلئے بینائی کی نعمت سے محروم ہو گئے۔ برہان وانی کی شہادت کے دن سے لے کرآج تک دو تین کشمیری مسلمان روزانہ بھارتی فوج کی گولیوں کانشانہ بننے کے با وجود وانی کے مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ خدا جانے برہان وانی کی ذات اور شہا دت میں کیا جذبہ پنہاں تھا کہ بجائے خوف و دہشت کی فضا پیدا ہونے کے مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر میں اس کی طرح مر مٹنے کا جذبہ پیدا ہو گیا ۔نہ جانے کتنی مائیں اپنے بیٹے اور سہاگ کشمیر کو بھارت کے جبر و تسلط سے آزاد کرانے کیلئے قربان کر چکی ہیں ۔وادی اور جموں میں دور دور تک پھیلے ہوئے قبرستانوں میں جب بھی بھارتی فوج کی فائرنگ اور تشدد سے شہید ہونے والے کو دفنایا جاتا ہے تو براہمن کے خون خوار جبڑوں میں جکڑے ہوئے کشمیر کا یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ اس کی آزادی کی منزل زیا دہ دور نہیں ۔
بد قسمتی سے چندبرسوںسے پاکستان میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو کشمیر کو بھول کر '' امن کی آشا‘‘ کے گیتوں سے ہمیں مد ہوش کرنا چاہتا ہے جو بال ٹھاکرے کے قدموں کی دھول کو اپنی مانگ میں سجاتے ہیں جو پاکستانی فوج کو ڈفر کہہ کر دشمن کے قہقہوں سے لطف لیتے ہیں۔۔ پاکستانیوں کو کبھی بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارتی جبر کے خلاف جدو جہد آزادی کی خاطر ا یک لاکھ سے زائد جانیں لٹانے والے، اپنی مائو ں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ وادی کشمیر میں اپنے لہو سے شمع آزادی کے چراغوں کو مسلسل روشن رکھنے والے ان کشمیری مسلمانوں کا ہم پاکستانی زندگی بھراحسان نہیں اتار سکتے جنہوں نے اپنے خون سے آدھی سے زائد بھارتی فوج کو ایک ہی دائرے میں مقید کیا ہوا ہے ۔۔۔کشمیریوں کی دن بدن پھیلتی ہوئی جدو جہد آزادی کو دبانے کیلئے بھارت کو ہر وقت اپنی سات لاکھ سے زائد فوج کشمیر میں تعینات کرنا پڑ رہی ہے اس فوج کی موومنٹ پر چار گنا زیا دہ خرچہ ہونے کے ساتھ ساتھ حریت پسندوں کے ساتھ مقابلوں میں ان کی تعداد میں بھی دن بدن کمی آ رہی ہے جس سے بھارتی فوج کا مورال ڈائون ہو رہا ہے۔ہر پاکستانی کو ذہن میں رکھنا ہو گا اگر مقبوضہ کشمیرکے مسلمان اپنے ایک لاکھ سے زائد بیٹوں کی قربانی نہ کرتے اگر کشمیر کی مائیں اپنے جگر گوشوں کو بھارتی فوج کا نام لے کر ڈرانا شروع کر دیتیں اور کشمیری پاکستانیوں سے مایوس ہو کر بھارت کی غلامی قبول کر لیتے تو کشمیر میں تعینات بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج اور ا س کے اسلحے کے ڈھیر وں کا رخ آزاد کشمیر اور پاکستان کی جانب ہوجاتا ۔ ؟۔ ۔۔!!