تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-07-2017

وحشی

1969ء ،1977ء اور 1999ء کی طرح ، متحارب اور متصادم سیاستدان ایک بار پھر ایک دوسرے کے درپے ہیں اور ملک کے بھی ۔ اقتدار کے بھوکے، وحشی جانوروں سے بھی زیادہ وحشی ہوتے ہیں ۔ 
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی صاحبزادی کو جانشین بنانے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا تھا۔ جب بے روزگار نوجوانوں کے لیے ایک سو ارب روپے ان کے سپرد کیے۔ قومی خزانے کو ذاتی اور سیاسی ترجیحات پر لٹانے میں شریف خاندان کا ثانی کوئی نہیں ۔ اپنے خاندانی حلقہ ہائے انتخاب میں فراوانی سے وہ نوکریاں بانٹتے ہیں ۔ پورے صوبے سے زیادہ شہرِ لاہور پہ خرچ کیا جاتاہے ۔ ایک اورنج ٹرین ہی اڑھائی تین سو ارب روپے کی ہوگی ۔ 
ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی ذہین اور باہمت بیٹی کو سیاسی وارث بنانے کے آرزومند تھے۔ آکسفورڈ سے انہیں تعلیم دلائی ، شملہ مذاکرات میں ہمراہ لے گئے اور خارجہ امور پہ تربیت کی۔ ان پہ مگر ہن نہ برسایا۔ شریف خاندان کے لیے قومی سرمایہ مالِ غنیمت ہے ۔
باخبر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اوّل اوّل میاں صاحب کی ترجیح صاحبزادی نہ تھیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مائل ہوتے گئے۔ جے آئی ٹی میں پیشی کے ہنگام ، دونوں بھائی اپنی بہن کی پشت پر کھڑے تھے۔ اس اہتمام سے وہ تشریف لائیں کہ حفاظتی انتظامات کے لیے پولیس والوں کی تعداد وزیرِ اعظم سے زیادہ تھی ۔ اُس دن 2500 وردی پوش نگراں تھے، 5جولائی کو 2550عدد۔ 
ذہنی طور پر محترمہ مریم نواز منصب سنبھالنے کے لیے تیار ہیں ۔ منشی اور محرر بھی یہی فرما رہے ہیں : با ادب ، با ملاحظہ ، ہوشیار، وزیرِ اعظم پاکستان تشریف لاتی ہیں ۔ کہنے کو تو محترمہ نے یہ کہا : روک لو، اگر نواز شریف کو روک سکتے ہو مگران کے لہجے نے یہ کہا : روک لو، مجھے اگر روک سکتے ہو۔ خطاب ان کا خوب تھا مگر ایسا بھی نہیں ۔ رٹے ہوئے خطابیہ جملے ، کسی اور کے لکھے ہوئے۔یقینا وہ پراعتماد تھیں ۔ ان کی آواز میں وہ قوت کارفرما تھی ، جو اطاعت کا یقین رکھنے والوں میں ہوتی ہے۔ شہزادوں اور شہزادیوں میں ولولہ بادشاہوں سے زیادہ ہوتا ہے ۔ 
وہ اعتماد ، جس میں زعم اور عُجب گھلا ہوتاہے ۔ طاقت کا نشہ ...اور اس سے بڑھ کر کوئی نشہ نہیں ۔ پامال کردینے والے زوال سے پہلے تک یہی عالم رہا کرتاہے ؛حتیٰ کہ سنائونی آجاتی ہے ۔ 
شہاں کہ کحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی 
انہی کی آنکھوں میں پھرتے سلائیاں دیکھیں 
وحشت کی حد تک پر خور ، منتقم مزاج اور من مانی پر تلے رہنے والے سلیمان بن عبد الملک نے ایک دن اپنا موازنہ سیدنا ابوکر صدیقؓ ، عمر فاروقِ اعظمؓ ، جناب عثمان غنیؓ اور امیر المومنین علی ابنِ ابی طالبؓ کے ساتھ کرنے کی جسارت کی تھی ۔۔۔اور وہ بھی برسرِ بزم ۔ پھر وہ بیمار پڑا اور ہچکیاں لے لے کر رویا : میرے بعد میرے کمسن بچوں کاکیا ہوگا ؟ عم زاد عمر بن عبد العزیزؓ نے چڑ کر یہ کہا : جس پروردگار نے تمہیں بادشاہ کیا، وہ انہیں رزق نہ دے گا؟ 
خوف نے اسے گھیر لیا تھا۔ غالباً اسی لیے وہ ابن عبد العزیزؓ کو وارث بنانے پر آمادہ ہوا۔ ملک کے حکمران معاشرے کا جوہر ہوتے ہیں ۔ اخلاقی تب و تاب جو قبیلہ کھو دے ، کوئی فقیر منش اس کا سردار نہیں ہو سکتا ۔ عالی مرتبتؐ نے اگرچہ سردار کی تعریف ہی یہ کی تھی''سید القوم خادمہم‘‘ قوم کا سردار وہ ہوتاہے ، جو اس کا خادم ہو ۔ نام کا خادمِ اعلیٰ نہیں کہ وہ توبھوک اور جہالت کے شکار ، بیماری سے مرتے ہوئے عوام کو اورنج ٹرین میں سوار کرنا چاہتے ہیں ۔ 2012ء میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 100عددمریضوں کی جعلی ادویات سے ہلاکتیں۔زرداری یا
مشرف عہد میں ایسا ہوا ہوتا تو چیخنے والے اب تک چیخ رہے ہوتے ۔ برسبیلِ تذکرہ وزیرِ صحت عالی جناب خود تھے۔ 
5جولائی کا شاہی جلوس اور اس کا کرو فر ۔ بتایا گیا ہے کہ محترمہ کے ساتھ لائی گئی چودہ گاڑیاں خاندان کی مِلک تھیں۔ واللہ اعلم ، بعض کا دعویٰ ہے کہ گاڑیوں پر نمبر پلیٹیں جعلی تھیں ۔ تو کیا؟ خاتون افسر نے اگر انہیں سیلوٹ کیا یا زمین پر گرنے والا قلم اٹھا کر پیش کیا تو اس میں تعجب کیا ؟ اونٹ نگلے جا چکے ، نقادوں کو مچھر چھاننے کی سوجھی ہے۔
ایسی پر اعتماد وہ بہرحال نہ تھیں کہ اخبار نویسوں کا سامنا کرتیں ۔ تاثر یہ ضرور دیا کہ سوالات کے جواب دیں گی۔ تین چار بار کہا: مجھے اپنی بات مکمل کرنے دیجیے ۔ محترمہ مریم اورنگ زیب مگر زیادہ جانتی تھیں ۔ گستاخوں کو منہ لگنے کی اجازت کیوں ارزاں ہو؟ اگرکوئی بے ڈھب سوال کر دے ؟ گنواروں کو دربار کے آداب کیا معلوم ۔
بعض کی تمنا یہ ہے کہ فوجی دستے مارچ کرتے ہوئے آئیں اور شاہی خاندان کو اڈیالہ جیل میں لے جا پھینکیں ۔ جذبات سے مغلوب، عاقبت نا اندیش جو ادراک نہیں رکھتے کہ اس کا نتیجہ برعکس نمودار ہوگا ۔ شریف خاندان کمزور پڑا ہے ۔ اخلاقی ساکھ اس کی کم ہوئی ہے ۔ اغلب امکان یہ ہے کہ مقدمے کا فیصلہ بھی اس کے خلاف ہوگا۔ اب بھی مگر وہ ایک بڑی جماعت ہے ۔ طاقت کے بل پر اکھاڑ پھینکا تو ہمدردی کی لہر اٹھے گی ۔بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو بے نظیر بھٹو کو اقتدار ملتا۔ بے نظیر قتل نہ ہوتیں توزرداری کا تاریک عہد طلوع نہ ہوتا، ملک کو جس نے اجاڑ کے رکھ دیا۔ 
نواز شریف چلے جائیں گے اور شریف خاندان کا اقتدار تمام ہوگا ۔ شواہد اور قرائن یہی کہتے ہیںمگر یہ فیصلہ حالات کے فطری بہائو کے ساتھ صادر ہونا چاہئیے ۔ عدالت کے فیصلے اور قوم کے ووٹوں سے۔ 
ذہنی طور پر شریف خاندان ہار چکا۔اسی لیے مقدمے پر توجہ مرکوز رکھنے کی بجائے، سارا اہتمام جے آئی ٹی اور عمران خان کی کردارکشی پر ہے ۔ درحقیقت جے آئی ٹی نہیں بلکہ ججوں کی مذمت کہ شاہی خاندان کے لیے واجب استثنیٰ کی بجائے، انصاف نام کی لغو چیز کاذکر کیوں؟
رہے میاں محمد نواز شریف کے سینے میں پوشیدہ راز تو ہم سب ان سے واقف ہیں ۔ کچھ حقیقی، زیادہ تر زیبِ داستان ۔ان کا بس چلا تو مسلح افواج اور عدالت کے خلاف ایک بھرپور تحریک۔ سپریم کورٹ جب تک مجسٹریٹ کی عدالت اور مسلّح افواج پنجاب پولیس نہ بن جائیں ۔صاف صاف دھمکی یہی ہے اور اس حال میں کہ بھارت اور امریکہ ملک کے درپے ہیں ۔ شریف خاندان اگر فوج کے خلاف اٹھا۔ عسکری قیادت کو اگر سازش کا مرتکب قرار دیا تو بھارت اور امریکہ...اور دنیا کی سب سے زیادہ سازشی قوم برطانیہ کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہوں گی ؟شریف خاندان کا سرمایہ ،اگلی نسل اورآئندہ زمانوں کے خواب جہاں رکھے ہیں ۔
سپریم کورٹ کے جج اور تفتیش کرنے والے نیک نام افسر بدترین حالات میں اپنے فرائض نبھا رہے ہیں ۔ اگلے گریڈ میں واجد ضیا کی ترقی کا فیصلہ وزیرِ اعظم کوصادرکرنا ہے ۔ اتنے ہولناک دبائو میں شاید ہی کبھی کسی عدالت نے کام کیا ہوگا۔ اچھا ہے کہ تحمل کا دامن ان سب نے تھام رکھا ہے ۔ 
مقدمہ تمام ہونے والا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک اور کھیل شروع ہوگا۔ خنجر بکف، ایک دوسرے کو دونوں سیاسی گروہ چیر پھاڑ دینے کی کوشش کریں گے ۔ جانتا ہوں کہ یہ بات کسی کو خوش نہ آئے گی ۔ میرا خیال بہرحال یہی ہے کہ ایک دوسرے کو وہ تباہ کر دیں گے ۔
1969ء ،1977ء اور 1999ء کی طرح ، متحارب اور متصادم سیاستدان ایک بار پھر ایک دوسرے کے درپے ہیں اور ملک کے بھی ۔ اقتدار کے بھوکے، وحشی جانوروں سے بھی زیادہ وحشی ہوتے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved