مظہر عباس کویاد تھا ، کراچی کی خصوصی عدالت میں ، معزول وزیراعظم کے خلاف مقدمے کے فیصلے کا دن۔ یہ 12اکتوبر 1999 کی سہ پہر کولمبو سے کراچی آنے والے قومی ائیر لائن کے طیارے کے ''اغوا‘‘ کا مقدمہ تھا۔ اس میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف بھی سفر کر رہا تھا جسے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے آئینی اختیارات کے تحت آرمی کی سربراہی سے فارغ کر دیا تھا۔ اس مقدمے پر وزیر اعظم کا دلچسپ تبصرہ تھا، اغوا کار تو طیارے کے اندر ہوتا ہے، یہ طیاروں کے اغوا کی تاریخ کا منفرد مقدمہ ہے جس میں اغوا کار زمین پر تھا۔
اور اب فیصلے کا دن تھا۔خصوصی عدالت کے کمرے میں ''ملزم ‘‘ کی والدہ ، بیگم صاحبہ، صاحبزادی اور بہو بھی موجود تھیں ۔ عدالت کے اندر اور باہر حساس اداروں کے باوردی اور بے وردی افسر اور اہل کار بڑی تعداد میں نظر آ رہے تھے۔ فاضل جج نے فیصلہ پڑھنا شروع کیا۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ ملزم کو عمر قید سزا سنا دی گئی۔ لمحے بھر کو سناٹا اور گہرا ہو گیا تھا۔ تب ایک لڑکی نے فضا میں اپنا بازو بلند کیا اور پوری قوت سے نعرہ لگایا '' پرویز مشرف مردہ باد‘‘۔ یہ وزیر اعظم کی بڑی صاحبزادی مریم تھی۔گزشتہ روز جے آئی ٹی میں 2گھنٹے کی پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں یوں لگا، اس نے ایک لمبا سفر، ایک ہی جست میں طے کر لیا ہے۔ اپنی ذات پر اعتماد اور جرأت اور اپنی سیاسی فکر میں یقین اوریکسوئی۔
شریف فیملی قومی سیاست سے مکمل طور پر تو کبھی لاتعلق نہیں رہی۔ مریم کے دادا ، بڑے میاں صاحب مرحوم 1936 میں امرتسر سے لاہور آ گئے تھے۔ بعد کے سال تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے بھر پور سال تھے۔ نوجوان محمد شریف اپنی اور اپنے 6 بھائیوں سمیت پورے خاندان کی قسمت بنانے، مقدر آزمانے لاہور آئے تھے۔ چنانچہ ان کی اصل توجہ اپنے کاروبار کی طرف تھی۔ سٹیل کے اس کاروبار کا آغاز معمولی سطح سے ہوا تھا۔ محمد شریف کے نزدیک کاروبار کی ترقی کے لیے مالی وسائل سے زیادہ محنت، امانت اوردیانت کی اہمیت تھی لیکن وہ تحریک پاکستان سے مکمل طور پر لاتعلق بھی نہیں تھے۔ حسب توفیق چندے کے علاوہ موقع پا کر وہ مسلم لیگ کے جلسے، جلوس میں بھی شریک ہو جاتے۔ بچپن ہی سے مذہبی ذوق کے حامل محمد شریف کے لیے ''پاکستان کا مطلب کیا لاَ اِلہٰ اِلا ّاللہ‘‘ میں ایک خاص کشش تھی۔
قسمت بھی محمد شریف پر مہربان تھی۔ وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتے تو یہ سونا ہو جاتا۔ قیام پاکستان کے ساتھ اتفاق فیملی کا کاروبار تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ سیاست میں ان کی دلچسپی نظری حد تک تھی یا اپنی پسندیدہ جماعت کو چندہ دینے تک۔ 1970 کے الیکشن میںانہوں نے لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں فرزند اقبال، ڈاکٹر جاوید اقبال کی مدد کی۔ ڈاکٹر مبشر حسن کو بھی شکایت تھی کہ ان کے مدمقابل امیدوار کو اتفاق والوںکی مالی اعانت حاصل تھی۔ بھٹو صاحب کے اقتدار میںآتے ہی اتفاق فونڈری کی نیشنلائزیشن (ایک پیسہ معاوضہ دیئے بغیر ) قومی پالیسی کا حصہ تو تھی ہی لیکن اس میں ذاتی جذبہ انتقام کی تسکین کا سامان بھی تھا۔ (ادھر مشرقی پاکستان میں اتفاق انڈسٹری اور اس کے اثاثے بنگلہ دیش کی نذر ہو گئے تھے)۔ ادھر بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں صنعت کار اور سرمایہ کار اور سرمایہ دار اپنا بچا کچھا سرمایہ سمیٹ کر بیرون ملک چلے گئے۔ دبئی میں گلف سٹیل کی کہانی الگ ہے، لیکن اتفاق فیملی نے نیشنلائزیشن کے تلخ ترین ذائقے کے بعد بھی نئی تگ و تاز کا مرکز پاکستان ہی کو بنایا اور اگلے چند برسوں میں یہاں چھ نئی صنعتیں قائم کردیں۔ شہباز شریف اپنے دور طالب علمی میں بھٹو کی انقلابیت سے متاثر تھے تو نواز شریف، بھٹو اکثریت اور پیپلز پارٹی کی فسطائیت کے خلاف اصغر خان کی دلیرانہ جدوجہد کے قدر دان۔ اس کے لیے انہوں نے تحریک استقلال میں باقاعدہ شمولیت بھی اختیار کر لی تھی۔
1981 ء میں نواز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر خزانہ بنے۔ یہ شریف فیملی کی عملی سیاست کا بھرپور آغاز تھا۔ خوش قسمتی نواز شریف کے ساتھ تھی ۔2 بار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بنے اور اب تیسری بار ملک کے وزیراعظم ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں انہوں نے حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کیا۔ محترمہ کا دوسرا دور شریف فیملی کے لیے بہت کڑا تھا۔ جس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو اڈیالہ جیل میں ڈالنے کے خلاف بڑے میاں صاحب مرحوم کی توہین آمیز گرفتاری سے بھی گریز نہ کیا گیا ۔ پرویز مشرف کا دور جبر بھی ان کے حوصلوں کو پست نہ کر سکا۔ 12 اکتوبر 1997 کی شب تین باوردی جرنیل زیر حراست وزیراعظم سے استعفے پر دستخط نہ کرا سکے۔ طیارہ اغوا کیس اور ہیلی کاپٹر کیس میں انہیں 2 بار عمر قید کے علاوہ بھاری جرمانے کی سزا بھی ہوئی۔ دوست ملکوں کے دبائو پر پرویز مشرف انہیں ملک بدر کرنے پر مجبور ہو گیا۔
12 اکتوبر 1999کو میاں صاحب کی معزولی تک ،بیگم کلثوم نواز اور مریم کی سیاست سے دلچسپی نظری حد تک تھی لیکن میاں صاحب کے ''جرم‘‘ کا خمیازہ تو انہیں بھی بھگتنا تھا۔ چنانچہ تمام خواتین 38 روز
تک اپنے گھر میں اپنے اپنے کمروں میں قید رہیں۔ بڑے میاں صاحب (مرحوم) اور والدہ صاحبہ کے لیے بھی کوئی رعائت نہ تھی۔ ملازمین کمروں میں کھانا پہنچا دیتے لیکن انہیں بھی گفتگو کی اجازت نہ تھی۔ 38 روز بعد خواتین کو رہائی ملی لیکن شریف فیملی کے تمام مرداب بھی زیر حراست تھے۔ مسلم لیگیوں میں سے بیشتر نے مصلحت اور مفاہمت کی چادر اوڑھ لی تھی۔ تب بیگم کلثوم نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔رفتہ رفتہ خوف ٹوٹنے لگا۔ کارکنوں میں ہمت اور حوصلہ لوٹ آیا۔ بیگم صاحبہ کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں۔ 8 جولائی 2000ء کو دنیا بھر کے ٹی وی چینلز دن بھر یہ مناظر دکھاتے رہے کہ پولیس بیگم صاحبہ کی گاڑی کو اٹھا کر لے جارہی ہے۔ یادش بخیر تہمینہ دولتانہ اور جاوید ہاشمی بھی گاڑی کے اندر تھے۔ یہ سب گاڑی کے اندر ہی دس گھنٹے تک حراست میں رہے۔ 14 اگست کو مزارِ قائد پر بیگم کلثوم نواز کی آمد پر پولیس کے بدترین لاٹھی چارج سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ کراچی پریس کلب میں بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں۔ ''آئین بحال ہو جائے تو مشرف کی جگہ وہ کال کوٹھڑی ہو گی جس میں نواز شریف کو رکھا گیا ہے ‘‘ میاں صاحب کی جیل‘ رہائی اور ملک بدری میں سعودی دوستوں کے علاوہ بیگم صاحبہ کی مشرف مخالف مہم کا بھی بڑا دخل تھا۔ ابتدا میں مریم بھی اپنی والدہ کے ساتھ نظر آئیں لیکن پھر دادا کے کہنے پر وہ گھر کی چار دیوار تک محدود ہو گئیں ۔ 10 دسمبر 2000 کو جلا وطن ہونے والوں میں مریم بھی تھیں۔
2013 کے عام انتخابات سے قبل عمران خان کا '' سونامی‘‘ مسلم لیگ ن کے لیے ایک نیا چیلنج لایا تھا۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ خواتین اور نوجوان نسل ''سونامی‘‘ کی نذر ہو چکی لیکن یہ جزوی صداقت تھی۔ نوجوانوں میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت موجود تھی لیکن منظم نہ تھی۔ حمزہ نے نوجوان کارکنوں سے رابطہ بڑھائے۔ مریم نے طالبات کے کالجوں کا رخ کیا جہاں ان کی گفتگو گہرا رنگ جما رہی تھی۔اردو کے علاوہ انگریزی کا بھی
قابل رشک تلفظ اور کہیں کہیں اقبال کے مصرعے یا شعر کا برمحل استعمال گفتگو کو چار چاند لگا دیتا۔ مسلم لیگی خواتین بھی مریم کے گرد جمع ہونے لگیں۔ کسی رسمی عہدے کے بغیر بھی وہ ملک بھر میں مسلم لیگ (خواتین ونگ) کی رہنمائی کر رہی تھیں۔ گیارہ مئی کے انتخابات کے لیے انہوں نے لاہور میں میاں صاحب کے حلقے کی کمان سنبھالی۔ مریم کی جدوجہد ثمر بار رہی تھی۔ ملک بھرمیں 16 سے 24 سال کے 37 فیصد نوجوانوں نے مسلم لیگ ن کو 26 فیصد نے تحریک انصاف کو اور 16 فیصد نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے تھے۔ 25 سے 29 سال کے ووٹروں میں 30 فیصد مسلم لیگ ن 22 فیصد تحریک انصاف اور19 فیصد پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے۔ 30 سے 35 سال کے رائے دہندگان میں 36 فیصد نے مسلم لیگ ن ، 15 فیصد نے تحریک انصاف اور 19 فیصد نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دئیے تھے۔
تیسری وزارت عظمٰی میں ملک کے نوجوان، وزیراعظم کی توجہ کا خصوصی مرکز تھے اس کے لیے 100 ارب روپے کی '' پرائم منسٹر یوتھ لون سکیم ‘‘ کی نگرانی کے لیے ان کی نظر اپنی ہونہار صاحبزادی پر گئی پھر لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر وہ اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئیں۔ اکتوبر2015 میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکہ میں وائٹ ہائوس کے اوول آفس میں اوباما، نواز ملاقات کے علاوہ بلئیرروم کی تقریب بھی سیاسی و صحافتی حلقوں کی توجہ کامرکزتھی جہاں سٹیج پر مریم نواز، امریکی خاتون اول مشعل اوباما کے شانہ بشانہ تھیں۔ خواتین میں فروغ تعلیم کے لیے مشعل کے پروگرام "Let girls Learn" کی پارٹنرشپ کے لیے انہیں امریکہ آمد کی خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ یہاں مریم کی تقریر ان کی ذہانت اورخود اعتمادی کا شاہکار تھی۔ عالمی سطح پر اس ایکسپوژ ر کے بعد ، اب 5 جولائی کے ''ایونٹ‘‘ نے مریم کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ جے آئی ٹی سے گلے شکوے اپنی جگہ لیکن وہ شکریے کی مستحق بھی ہے کہ سیاسی بلندیوں کی طرف مریم کی اتنی بڑی جست کا ذریعہ بن گئی۔