تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     07-07-2017

دور دیس کا پا کستان …(1)

پوٹھوہار ی وسیب کی اچھی روایتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ عید پڑھنے کے فوراً بعد اپنے عزیزوں کو ملنے نکل پڑتے ہیں۔ ساتھ ہی تازہ خوشی اور غم کے حوالے سے حاضری بھی ہو جاتی ہے۔ حالیہ عید کی نماز پڑھ کر گولڑہ شریف سے واپسی نہیں ہوئی تھی کہ مہمان آنے شروع ہو گئے۔ ان میں سے شمس کالونی کا ایک نوجوان ایسا تھا جس کو پچھلے سال اس کے والد صاحب مجھے ملوانے لائے تھے۔ نوجوان روزگار کے لیے بیرون ملک جا رہا تھا۔ اس کے والد نے چاہا، میں دور دیس کے ملکوںکی زندگی پر اس کی رہنمائی کروں۔ عید والے دن اُسے دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ پوچھا: وہاں کیا کرتے ہو؟ نوجوان مُسکرا کر بولا: میں نوکری چھوڑ کر پاکستان واپس آ گیا ہوں۔ انجینئرنگ کی چھوٹی سی کمپنی بنائی ہے۔ وہ دور دیس کے تجربات کی روشنی میں مجھ سے کہنے لگا: سر کوئی طریقہ ہے کہ ہم سارے پاکستان کو 15 دن کے لیے ملک سے باہر بھیج دیں یا 15 دنوں کے لیے سب کو جیل بھیج دیا جائے۔ اس کی یہ بات سُن کے مہمانوںنے زوردار قہقہہ لگایا‘ جیسے زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں‘ عجیب پاگل آدمی ہے۔ میں نے اُسے پوری توجہ دی۔ وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ پردیس جائے بغیر اس دیس کی قدر و قیمت سمجھ نہیں آتی اور جیل جائے بغیر آزادی کی نعمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
عید کے فوراً بعد گھر والوں کے طے شدہ پروگرام کے مطابق سب نے رختِ سفر باندھا۔ پہلی بار سات سمندر پار جانے کے لئے سب کا اصرار تھا: پی آئی اے کے بجائے کسی اور ایئرلائن سے چلیں۔ سب کے ذہن میں یورپ کی فلائیٹ کے دوران سروس، گندے واش روم، گھنٹوں بلکہ دنوں کے حساب سے پرواز میں تاخیر، ایئرپورٹ پر ہیروئن کی برآمدگی کے لیے گوروں کی تلاشیوں اور ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازوں سمیت دیگر کئی خدشات تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں سب کی رائے میں شامل ہو گیا۔ ہمارا پہلا پڑائو ابوظہبی تھا۔ جہاں آپشن کے طور پر تقریباً ایک مکمل دن فضائی دنیا کی زُبان میں ''سِلپ‘‘ لیا۔ پاکستان کے مرحوم دوست شیخ زید بن سلطان النہیان نے صحرا میں جو گل کھلائے، جو ثمر اُگائے، جو معجزے کیے اور غریب بدوئو ں کو جہاں بانی کے ہُنر سکھلائے‘ انہیں دیکھ کر حیرانی سے زیادہ خِفت ہوتی ہے کہ ہم ایسا سب کچھ ابھی تک کیوں نہیں کر سکے۔ متحدہ عرب امارات سے جہاز فضا میں بلند ہوتے ہی سلطنتِ عمان کے شہر سلالہ کی پہاڑیوں پر جا پہنچا۔ یہ مارگلہ کی پہاڑیوں جیسی سرسبز ہیں لیکن گنجی نہیں۔ ان پر بڑے بڑے درختوںکے ان گنت ذخیرے ہیں۔ پھر پرواز نے اپنا رُخ تبدیل کر لیا۔ ہوائی جہاز عراق کے شہر بصرہ، بغداد کو بائیں جانب چھوڑتے ہوئے عربستان سے نکل کر ترکی کی فضائوں کے ساتھ ساتھ یورپ میں داخل ہوا۔ اس دوران صحرا، سمندر اور رنگ برنگے بادل جہاز کے باہر لگے کیمروں کے ذریعے ''فلائٹ شو‘‘ کی صورت میں مسلسل سیٹ کے سامنے لگی سکرین پر دکھائے جاتے رہے۔ اس پرواز کا روٹ تقریباً وہی تھا‘ جس راستے سے روس نے مشرقی یورپ میں داخل ہو کر دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی جرمنی کا دارالحکومت برلن فتح کیا تھا۔ وہاں سے ایمسٹرڈیم، فرانس، انگلش چائنل سے گزرتے ہوئے ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈنگ شروع ہو گئی۔ دنیا کی کامیاب ایئرلائنز نے اپنے بزنس کلاس اور فرسٹ کلاس مسافروں کو ہیتھرو سمیت سب ایئر پورٹس پر فوری ایمیگریشن کروانے کی سہولت فراہم کروائی ہے۔ ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں مسافر آرام سے لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں۔ دوسری جانب ان کے ساتھ ہی فاسٹ ٹریک کائونٹر قائم ہے‘ جہاں ایئرلائن کا جاری کردہ فاسٹ ٹریک کارڈ جمع کروا کے گھنٹوں والا کام منٹوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر میڈیا پہلے سے موجود تھا۔ مبین رشید، رانا تحسین، سُلِسٹر سندھو سمیت کئی دوست میڈیا ٹاک میں شریک ہوئے۔ جہاں سے سنٹرل لندن میں شیپرڈ بُش گرین پہنچے۔ راستے میں دوستوں کے نہ ہونے والے سوالات کے سونامی کا سامنا رہا۔ سب کو بتایا: ملک ٹھیک ہے منیجرز خراب‘ وہ اپنی تنہائی دور کرنے کی کوشش میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر بیٹھے ہیں۔
ہوٹل میں پہنچے تو عبدالرحمان نے شیشے کی بڑی کھڑکی سے پردہ ہٹایا۔ سڑک کی دوسری جانب سینکڑوں سال پُرانے چنار کے اونچے درختوں کے وسیع و عریض پارک میں سلیقے سے لگی لش گرین گھاس پر چہچہاتے بچوں کی اُچھلتی کودتی ٹولیاں، ٹہلتے بزرگ، جاگنگ کرتے نوجوان دیس دیس کے رنگ اور مختلف نسل کے لوگ اس کیپیٹل آف نیشنز کا تعارف پیش کرتے نظر آئے۔
چند سو گز کے فاصلے پر سنٹرل لندن کا سب سے بڑا شاپنگ مال ''ویسٹ فیلڈ مال‘‘ جس کے ارد گرد دلچسپ مارکیٹیں اور فوڈ سٹریٹس واقع ہیں۔ کالج کے زمانے کے دوست وکی لندن والے ''عرف وقار زیدی‘‘ نے پاکستانی مارکیٹ دکھائی‘ جہاں چمچے، توے، بالٹی، چولہے سے لے کر ہر طرح کا دیسی استعمال کا سارا سامان موجود تھا۔ سامان سے زیادہ سیلفی لینے کے اُمیدوار بھی۔ ترکی کوزئین، لبنانی سلاد، عربی کھانے، مراکش کے قہوے، کوڈ فش اور قیمتیں حیران کن طور پر انتہائی مناسب۔ معیار ظاہر ہے لندن لندن ہے۔ 
اگلے دن مشرقی لندن کے اولڈہیم کے علاقے میں میاں وحید نے 100 سے زیادہ خواتین و حضرات کو جمع کیا اور سوال و جواب کی نشست کے لیے بلایا۔ اس علاقے میں سال 2012 کے بدترین نسلی فسادات ہوئے تھے۔ تب جب ایک کالا نیگرو نوجوان پولیس کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ اس علاقے میں پاکستانی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ علاقے کی مرکزی شاہراہ پر مغرب کی طرف کالوں کی دنیا ہے‘ جو ڈرگ انڈر ورلڈ کے لیے مشہور ہے‘ جبکہ دوسری جانب مشرق کی طرف ترک اسی کاروبار پر قابض ہیں۔ انڈر ورلڈ خون ریز جنگیں کرتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے لیاری سمجھ کر اندر کم ہی گھستے ہیں۔ ان دونوں دنیائوں کے عین درمیان ایک پاکستانی نے کئی منزلہ ریسٹورنٹ کھول رکھا ہے۔ گفتگو کی نشست اسی کے ایک ہال میں برپا ہوئی۔ اسی میں ایک کمیونٹی سنٹر، شادی ہال، تقریباً 100 گاڑیوں کی پرائیوٹ پارکنگ، ایک عدد سکول اور پاکستانی ریسٹورنٹ مالک کی بنائی ہوئی مسجد بھی شامل ہے۔ 50 کے پیٹے میں اس پنجابی ریسٹورنٹ اونر کو لوگ ''مِسٹر شودھری‘‘ کہہ کر بلا رہے تھے‘ جو بڑی محبت سے ملنے آیا پھر پارکنگ لاٹ تک ساتھ بھی چلا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ہم وطن لیڈروں سے 4 باتوں پر شاکی ملے۔ پہلی یہ کہ اپنے مشکل وقت میں یہ لیڈر ایک ایک در کھٹکھٹاتے ہیں، مفت کی گاڑیاں، اعزازی کھابے اور اچھے وقتوں میں یاد رکھنے کے وعدے وعید گلے میں بانہیں ڈال کر کرتے ہیں۔ کئی لوگوں نے ان شریفانہ حرکتوں کی تفصیلات بھی بتائیں‘ جن کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں۔ سمندر پار پاکستانیوں کو دوسری شکایت قومی انتخابات میں ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھنے کی ہے۔ کہتے ہیں‘ میرپور سے مظفر آباد تک کے لوگوں کو رائے دہندگی کا حق ملتا ہے بلکہ ساتھ انہیں اسمبلی میں سپیشل سیٹیں بھی دی جاتی ہیں۔ پھر امریکہ سے لے کر افغانستان تک ہر چھوٹا بڑا ملک اپنے تارکینِ وطن کو ووٹ کا حق دے رہا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کہتے ہیں ''ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے‘‘۔ دوہرے پاسپورٹ والوں کے ڈالر، یورو اور پائونڈ لیڈروں کو بہت پسند ہیں لیکن دوہری شہریت والوں کا الیکشن لڑنا قبول نہیں۔ تیسری شکایت کچھ اٹھائی گیروں سے متعلق ہے جو مسیحا بن کر سات سمندر پار آتے ہیں۔ پھنسی ہوئی جائیداد، مِس میچ قسم کے رشتوں اور قانونی پیچیدگیوں کے ستم کے مارے ہوئے لوگوں کو سبز باغ دکھا کر لوٹ لیتے ہیں۔ کہیں قومیت کے نام پر کہیں تقدیس کے واسطے سے۔ فرقہ اور علاقہ اس شکار کو اور مزید آسان بنا رہا ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ اور سفارت کار صرف ڈوچیسٹر میں پائے جاتے ہیں۔
جس ملک میں سفارش سے بھرتی ہونے والے پبلک سرونٹ تگڑے ملزموں کے چرنوں میں تعظیمی سجدہ کر سکتے ہیں، وہاں پاکستان کی معیشت کے محسنوں کو کون پوچھے گا؟ پاکستانی سرمائے کے یہ گم نام رکھوالے بولتے چلے گئے... میں سوچتا چلا گیا۔ 
(جاری ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved