ری پبلکن کے سب سے بااثر سینیٹر جان مکین امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تفویض کردہ ایجنڈے پر عمل کرانے کیلئے ہنگامی طور پر پاکستان پہنچے اور چار جولائی کی شام واپس روانہ ہو گئے ۔ امریکہ کے اس طاقت ور وفد کی اپنے ساتھی سینیٹرز کے ہمراہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اوراسحاق ڈار کے ساتھ ملاقات بہت اہم ہے ۔۔۔اور یہ شائد پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم نے اس ملاقات میں اپنے چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو شامل نہیں کیا ۔ اس سے پہلے جان مکین کی سربراہی میں آئے ہوئے اس امریکی وفد نے آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ سے بھی طویل ملاقات کی، امریکی وفد سے ملاقات کے بعد شریف خاندان اور ان سے منسلک افراد کی باڈی لینگویج کچھ ایسے اشارے دے رہی ہے کہ شائد غلام ملک ایک بار پھر ڈان لیکس جیسا ایک اور این آر او کرنے جا رہا ہے ۔ اور اس کیلئے منزل ترکی منتخب کی جا رہی ہے۔۔۔۔اردوان نے اپنے سیاسی مخالف کے فلاحی ادارے کی جانب سے پاکستان میں بہترین تعلیم دینے والے ترک سکولوں کو توبند کر ادیا یہ دوہرا معیار کیوں؟۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار جے آئی ٹی کے پاس صرف45 منٹ تک موجود رہے اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئے ہوں تو اسی وقت ان سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہو۔ علیک سلیک میں بھی کچھ وقت لگا ہو گا لیکن ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطا بق وہ جے آئی ٹی کے اراکین پر اپنا رعب جھاڑتے رہے ،ان کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ ان کو میاں محمد نواز شریف کی عظیم شخصیت کے کارنامے ہی گنواتے رہے۔ جے آئی ٹی ارکان نے جب ان سے دفعہ164 کے تحت دیئے گئے بیان حلفی کے بارے دریافت کیا تو وہ اپنے تیارکئے گئے کاغذات کا پلندہ اپنی نشست کے ساتھ رکھی ہوئی میز پر چھوڑ کر باہر نکل آئے۔۔۔۔اور آتے ہی عمران خان پر اس طرح چڑھ دوڑے کہ اخلاقیات کی تمام دھجیاں بکھیر کر رکھ دیںجس نے بھی ڈار صاحب کی یہ گفتگو سنی وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر رہ گیا۔
اگر امریکی سینیٹرز کے وفد کی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ہونے والی ملاقاتوں کی اندرونی کہانی کا جائزہ لیا جائے یا ان پر اپنی فہم و فراست یا تجربے کی بنا پر کوئی رائے یا تجزیہ کیا جائے تو اس کیلئے بہترین پیمانہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جے آئی ٹی کے باہر کی جانے والی انتہائی اشتعال انگیز گفتگو ہے۔۔۔اپنی پریس کانفرنس میں انہوں نے دانت پیستے ہوئے اپنا سارا غصہ عمران خان پر نکالا ہے۔۔۔ اس کی وجوہات یا پس منظر تلاش کیا جائے تو دو باتیں یا قیاس آرائیاں سامنے آتی ہیں پہلی یہ کہا جا سکتا ہے کہ سینیٹر جان مکین سے ان کی ملاقات بے حد کامیاب رہی ہے اور امریکیوں نے انہیں ایک بار پھر ڈان لیکس کی طرح تمام اقدامات سے مبرا کرتے ہوئے مبارکباد دیتے ہوئے تھپکی دے دی ہے کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔۔۔ ابھی جب میں یہ مضمون لکھ رہا تھا تو واشنگٹن سے ایک اینکر کا ٹویٹ موصول ہوا''کہ مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کو قائل کر لیا ہے کہ اگر آپ نواز شریف کو پانامہ لیکس سے بچا لیتے ہیں تو اس سے ہمارے اور آپ کے افغانستان سمیت جنوبی ایشیاء اور سینٹرل ایشیاء میں مفادات کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچ سکے گا اور پاکستانی فوج اور اس کے نیو کلیئر پروگرام کے بارے میں ہمارے مقاصد پورے ہو سکیں گے‘‘۔اسحاق ڈار کے غصے کی شدت کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ امریکی وفد نے وزیراعظم محمد نواز شریف سے ان کے سمدھی اسحاق ڈار کی موجودگی میں کہہ دیا ہو کہ وہ سپریم کورٹ کے معاملے اب کسی قسم کی مداخلت نہیں کر سکتے؟۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں کچھ یقین دہانیاںکرا دی گئی ہوں جن کی وجہ سے ڈار صاحب جان گئے ہوں کہ اب کھیل ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اسی مایوسی اور غصے میں اس حد تک
آگے نکل گئے کہ جے آئی ٹی کے باہر عمران خان کو گالیاں دیتے ہوئے وہ اس خیرات اور زکوٰۃ کے طعنے دینے سے بھی باز نہ آئے جو کسی وقت انہوں نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کیلئے دیئے تھے۔
اس الزام سے ان کا قد بڑھا نہیں ۔نہ جانے انہوں نے ایسا کیوں کیا اور کس کے کہنے پر کیا ۔۔۔ مجبوری میں کبھی کبھی انسان کس قدر چھوٹا ہو جاتا ہے اسحاق ڈار نے اپنی اس پریس کانفرنس میں عمران خان کو جاہل، جھوٹا، مکار، ٹیکس چور اور جواری جیسے القابات سے نوازا ہے اس بارے ہم کچھ نہیں جانتے اگر ایسا ہے تو ظاہر ہے وہ ان کی سزا بھگتے گا لیکن اس پریس کانفرنس میں انہوں نے مائک پر دھاڑتے ہوئے عمران خان پرامارت کا جوالزام عائد کیا ہے وہ خاصہ مضحکہ خیز ہے انہوں نے عمران سے سوال کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ وہ بتائے کہ وزیر اعظم کے بعد ارب ہا روپے مالیت سے دوسراامیر ترین آدمی کیسے بن گیا؟۔یہ سوال اگر عابد شیر علی یا سعد رفیق کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کو اقتصادیات کی الف ب کا بھی پتہ نہیں لیکن جناب ڈار صاحب آپ تو ماشااﷲ برطانیہ سے چارٹرڈ اکائونٹینٹ کی ڈگری لے کر آئے ہیں۔۔کیا۔آپ کو نہیں پتہ کہ ''سعدی پارک مزنگ‘‘ میں ایک مرلہ زمین کی قیمت 1993 میں ساٹھ ہزار تھی توپھر بھٹی صاحب سے پوچھ لیں کہ آج وہی زمین پندرہ لاکھ روپے فی مرلے سے بھی زیا دہ قیمت کی ہے۔۔۔اب اگر عمران خان نے موضع مہرہ نور میں بنی گالہ کی 300 کنال زمین 2002 میں خریدی ہے تو آج پندرہ سال بعد 2017 میں اس کی قیمت بڑھ کر کہاں تک پہنچ چکی ہے اور یہ بنی گالہ کی بات نہیں آپ لاہور سمیت فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور، ملتان تو کیا دور دور تک کی تحصیلوں اور قصبوں کی زمینوں کی قیمتوں کا عمران خان کی اسلام آباد بنی گالہ کی قیمت سے موازنہ کر لیں کہ آج سے بیس برس قبل خریدی گئی زمین کی آج کیا قیمت ہے۔لاہور کے علاقے جوہر ٹائون میں دس مرلہ کے ایک پلاٹ کی قیمت2002 میںآٹھ لاکھ تھی تو آج اس کی قیمت 2 کروڑ پچیس لاکھ ہو چکی ہے اسی طرح اگر زمان پارک کے گھر اور بنی گالہ سمیت عمران خان کی بھکر میانوالی اور شیخوپورہ کی وراثتی زمینوں کی قیمت ملا کر ایک ارب تیس کروڑ ہو چکی ہے تو اس میں عمران خان کا کیا قصور؟۔ اگر قیام پاکستان کے وقت عمران خان کے والدین کا زمان پارک لاہور میں بنایا گیا گھر اب 27 کروڑ روپے کا ہو چکا ہے تو اس کا قصور عمران خان پر نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر ہے '' آپ کو تو اچھی طرح علم ہے کہ1993 میں آغاز میں ڈالر کتنے کا تھا۔۔۔اور اب کتنے کا ہے؟اس میں عمران کا کیا قصور؟