بزرگوں سے سنا تھا کہ کراچی اُن شہروں میں سے ہے جہاں مِٹّی بھی سونے کے بھاؤ بیچی جاسکتی ہے۔ سوال مِٹّی یا سونے کی خاصیت یا عدم خاصیت کا نہیں بلکہ بیچنے والے کی مہارت کا ہے۔ جنہیں بیچنے آتا ہے وہ مِٹّی بھی سونے کے بھاؤ بیچ دیتے ہیں اور جو بُودے واقع ہوئے ہیں اُنہیں سونے کا پہاڑ بھی دیجیے تو اُسے مِٹّی کے ڈھیر میں تبدیل کردیتے ہیں۔
مِٹّی اور سونے والے کراچی سے ایک ''دل دہلا دینے والی‘‘ خبر آئی ہے۔ ضیاء الدین صاحب نے پولیس میں رپورٹ کی کہ ایک شخص سے اُنہوں نے اعلیٰ نسل کے چار پِلّے خریدے مگر جب گھر لے جاکر اُنہیں نہلایا تو رنگ اترنے لگا۔ معلوم ہوا کہ رنگ ہی نہیں، پِلّے بھی کمتر درجے کے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اعلیٰ نسل کے پِلّے دراصل گلیوں میں بھٹکنے والے آوارہ کتوں کی اولادیں ہیں! دھوکے باز کو گرفتار کرلیا گیا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ ملزم آوارہ کتوں کی اولاد پر رنگ لگاکر کئی ''سگ پرستوں‘‘ کو چُونا لگا چکا ہے۔ خبر کچھ اِس قسم کی ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔ کسی کو دھوکا دے کر رقم بٹورنا ایسا عمل ہرگز نہیں جسے کسی بھی مرحلے میں سراہا جائے۔ اور پھر دھوکا بھی وہ جو گلیوں میں بھٹکنے والے آوارہ کتوں کی مدد سے دیا جائے! مگر خیر، یہ کوئی ایسی بات بھی نہیں کہ کوئی شرمندہ ہو اور تضحیک و تذلیل کے مرحلے سے گزرے۔
دنیا اکیسویں صدی میں جی رہی ہے مگر ہم اِس صدی سے دامن چھڑا رہے ہیں۔ اب تک یہ طے نہیں ہو پایا کہ ہم پندرہویں صدی میں سانس لے رہے ہیں یا پھر بائیسویں صدی کے باشندے ہیں! آج کی دنیا میں کوئی انتہائی دیسی کتوں کو ولایتی بناکر فروخت کرسکتا ہے؟ اوروں کی طرح آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ دنیا یہ خبر پڑھے گی تو ہنسے گی۔ ویسے تو خیر دنیا کو اور بھی بہت سے کام ہیں اس لیے ایسی خبروں پر زیادہ متوجہ نہیں ہوتی مگر ایسی کسی بھی خبر پر ہنسنا بھی لازم نہیں۔ جو صاحبِ نظر ہیں وہ ضرور داد دیں گے کیونکہ انتہائی معمولی نسل کے پِلّوں کو اعلٰی نسل کا بناکر پیش ہی نہ کرنا، فروخت بھی کر دکھانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔
اگر غیر جانب دارانہ تجزیہ کرکے پوری ایمان داری سے رائے دی جائے تو جناب، آوارہ کتوں کے بچوں کو رنگ کرکے بھاری قیمت پر بیچنا دھوکا دہی سے زیادہ فنکاری ہے! یہ فنکاری نہیں تو اور کیا ہے کہ ذرا غور سے دیکھنے پر جن کا آوارہ پن ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اُن پِلّوں کو اچھی خاصی قیمت پر بیچنے میں کامیابی ممکن بنالی گئی!
اور پھر اِس بات پر بھی تو غور فرمائیے کہ جس شہر میں انسان کسی کام کے نہیں رہے وہاں آوارہ کتوں کی اولادیں کام کی ثابت ہو رہی ہیں، انسانوں کی روزی روٹی کا اہتمام کرنے میں معاونت فرما رہی ہیں! ہم نے اِسی شہر میں اپنی (ظاہر ہے، گنہگار!) آنکھوں سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کچھ کیے بغیر، کسی کے کام آئے بغیر، بلکہ اپنا بھی بھلا کیے بغیر مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسے میں آوارہ کتوں کے وہ پِلّے داد و تحسین کے مستحق قرار پاتے ہیں جو کسی کے گھر کا چولھا جلتا رکھنے میں مدد تو کر رہے ہیں!
اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں نے اب سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کے تمام پرانے پیمانے توڑ ڈالے ہیں۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ لوگ کسی سے دوستی قائم کرتے وقت یا رشتہ طے کرنے کے لمحات میں نسل کے بارے میں اُتنا نہیں سوچتے جتنا کتے یا بلی خریدتے وقت سوچتے ہیں! مرزا تنقید بیگ نے جب یہ خبر پڑھی تو اُچھل پڑے اور ہمیں بلا بھیجا۔ ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ جذبات سے ایسے بھرے بیٹھے تھے کہ حلق سے غُرّاہٹ برآمد ہو رہی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ کچھ اس انداز سے پھٹ پڑے جیسے ہم رنگ ریزی فرماتے ہوئے آوازہ کتوں کے پِلّے فروخت کرنے والی مافیا کے ڈان ہیں!
چند لمحات کے بعد (مرزا کے) حواس بحال ہوئے تو سکون کا سانس لیتے ہوئے اُنہوں نے شدید تاسّف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ''یہ ہم کس شہر میںجی رہے ہیں؟ انسان نے انسان کو پہچاننے کی زحمت تو خیر کبھی گوارا کی ہی نہیں تھی۔ اب اِس شہر کے لوگ لوگ آوازہ کتوں کو شناخت کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ یہ کون سا نیا دُکھڑا ہے۔ یہاں تو ایک زمانے سے لوگ کسی بھی چیز کی رمز کو ڈھنگ سے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ لوگ آسٹریلین طوطے خریدنے جاتے ہیں اور مقامی طوطے خرید لاتے ہیں! بہت سے معمولی نسل کی چڑیوں کو تھوڑا سا رنگ کر ولایتی چڑیا بتایا جاتا ہے اور اُن کی اچھی خاصی قیمت بھی مل جاتی ہے۔
مرزا بولے ''لوگ کتوں کے معاملے میں نسل وغیرہ دیکھنے کی زحمت گوارا ہی کیوں کرتے ہیں؟ اعلیٰ نسل کے کتوں میں کیا سرخاب کے پَر لگے ہوتے ہیں؟ ہمارا ذاتی مشاہدہ تو یہ ہے کہ اعلیٰ نسل کے غیر ملکی کتے بہت مہنگے ملتے ہیں اور اُنہیں رکھنے کا خرچ بھی بہت زیادہ ہے۔ اُن کی نزاکتیں لوگوں کو ادھ مُوا کردیتی ہیں۔ گلیوں میں بھٹکنے والے کتے کچھ خاص نہیں مانگتے اور چوکیداری کا فریضہ پوری ایمان داری سے انجام دیتے ہیں۔ اعلیٰ نسل کا کتا تو اُس وقت بھونکتا ہے جب کوئی اجنبی گھر میں قدم رکھے۔ گلیوں کے آوارہ کتے تو کسی بھی اجنبی کو گلی میں قدم رکھتا دیکھ کر الرٹ ہو جاتے ہیں۔ اور پھر ریڈ الرٹ ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اُس کی طرف لپکتے ہیں۔ چند چھیچھڑوں اور روٹی کے چند ٹکڑوں سے بہلنے والے یہ کتے اپنا کام کر گزرتے ہیں مگر عزت نہیں پاتے۔‘‘
ہم نے عرض کیا کہ اِس میں حیرت کا کون سا پہلو ہے؟ ایک زمانے سے ہمارے معاشرے کا بھی تو یہی چلن ہے۔ جو لوگ کسی کام کے نہیں اُن کے ناز اٹھائے جارہے ہیں اور جو بے چارے پوری ایمان داری سے اپنا کام کرتے ہیں اور کچھ خاص صلہ نہیں مانگتے اُنہیں اُن کے حصے کا احترام بھی نہیں دیا جارہا! جو جتنا کام کا ہے وہ اتنا ہی بے نام اور آوارہ ٹھہرتا ہے اور جو جس قدر ناکارہ ہے اُسے اُسی قدر اعلٰی نسل کا قرار دیا جاتا ہے! ہاں، ایک معاملے میں کتے البتہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ بھونکنا اُن کی فطرت میں لکھا ہے مگر اِس وصف کو اُنہوں نے اب تک سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اُنہیں معلوم ہی نہیں کہ کب، کہاں اور کتنا بھونکنا چاہیے۔ انسان نے یہ ہُنر سیکھ لیا ہے۔ اب وہ بھونکنے پر داد ہی نہیں، اچھا خاصا معاوضہ بھی پاتا ہے اور سوشل اسٹیٹس کے پائیدان پر بھی خاصا اونچا بیٹھتا ہے!