تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     08-07-2017

جے آئی ٹی کے آخری مراحل

شریفوں کی جو مصیبت پاناما پیپرز کی شکل میں پچھلے سال نمودار ہوئی اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہورہی ہے ۔ آج ہفتے کا دن ہے اورسب ٹھیک رہاتو جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پرسوں پیش کرنی ہے۔ جے آئی ٹی کا فیصلہ کیا ہوتاہے وہ تو خدا ہی جانتاہے لیکن اگر نو ن لیگیوںکے چہروں سے ہم کوئی نتیجہ عکس کرسکتے ہیں یا تاجکستان سے واپسی پر وزیر اعظم صاحب کی گفتگو سے کچھ انداز ہ لگا سکتے ہیں تولیگی حلقے شدید دباؤ کا شکارہیں۔ ان کا چیخنا چلانا اور وزیر اعظم صاحب کا تواتر سے سازش کا ذکر کرنا، وہ بھی اس تاثر کو تقویت دیتاہے۔ 
سازش کی بات تو نون لیگ کااب مرکزی دفاع بن گیاہے‘ گو لبوں پہ یہ بات نہیں آرہی کہ ساز ش کون کر رہاہے۔ جہاز میں وزیر اعظم صاحب کی ساری گفتگو ایک ہیجانی کیفیت کا اشارہ دیتی ہے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ تشویش اور گھبراہٹ کا زیادہ اظہار پوری نون لیگ نہیں کررہی بلکہ وہ ٹولہ کر رہاہے جو پی ایم ہاؤس میں موجود ہے اور جس کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ وہ اپنی ہدایات مریم نواز سے لیتا ہے ۔ نون لیگ کے مرکزی قائدین تو سرے سے میدان سے ہی غائب ہیں۔ بیان بازی اور شور مچانے کا فریضہ دانیال عزیزوں، طلال چوہدریوں اور آصف کرمانیوں کے سپرد کیا ہواہے۔
یہ بات ہر گز نہیں کہ نون لیگ دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے ‘ لیکن یہ واضح ہے کہ دہائی زیادہ تر وزیر اعظم صاحب کا کیمپ ہی دے رہاہے۔ شہباز شریف صاحب نے سازش کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ فوج یاعدلیہ کی طرف کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔ صرف ایک موقع پر یہ کہا کہ ایک ہی خاندان کااحتساب کیوں ہورہاہے۔ ان کے لہجے میں اور وزیراعظم کے لہجے میں یا مریم نواز صاحبہ کی گفتگو میں واضح فرق ہے۔
اوراس کی ایک وجہ بھی ہے ۔ پاناما لیکس میں ذکر وزیراعظم کے بیٹوں اور بیٹی کا ہے ‘شہباز شریف یا ان کے بیٹوں کا نہیں۔ پوری جے آئی ٹی تفتیش بھی وزیر اعظم صاحب کی فیملی کے گرد گھومتی رہی ہے۔ سادہ سا سوال یہ تھا کہ لندن فلیٹس کہاں سے آئے، ان کے لئے رقم کہاں سے آئی، وہ ملکیت کس کی ہیں، نواز شریف صاحب کے صاحبزادوں تک وہ جائیداد کب اور کیسے پہنچی، قطری شہزادے کے خطوط میں بیان کی گئی الف لیلیٰ کی داستان کی حقیقت کیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ان سوالوں کا رتی برابر بھی جواب نہیںآیا۔ جو موقف سپریم کورٹ میں اختیار کیا گیا‘ اس سے ایک قدم بھی آگے نہیںبڑھا گیا۔ لیکن شور مچایا جارہاہے کہ ہم نے کوئی کرپشن نہیں کی، کوئی کمیشن نہیں لئے۔ ان کی نظروں میں جائیدادیں چھپانا‘ ان پر ٹیکس نہ دینا اور پراسرار طریقے سے بھاری رقوم بیرون ملک منتقل کرنا کرپشن یا بدعنوانی کے ضمن میں نہیں آتے۔ 'اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا‘۔
اسحاق ڈار کا لمبا چوڑا بیان موجود ہے کہ کیسے نواز شریف صاحب کی ہدایات پر جعلی بینک اکاؤنٹ کھولے گئے، ان میں بھاری رقوم ڈالی گئیں۔ پھر ان کے عوض قرض لئے گئے اوررقوم باہر منتقل ہوئیں۔ یہ سارے معاملات مشہور زمانہ حدیبیہ پیپرملز کے قصے سے منسلک ہیں‘ لیکن وزیر اعظم صاحب اور ان کی دختر اور صاحبزادگان کی نظر میں یہ کرپشن کے کھاتے میں نہیں آتے۔ اگر یہ کرپشن نہیں تو پھر ڈاکہ زنی بھی ڈاکہ زنی نہیں رہتی۔ 
ایک اور تاثرجو نواز شریف قیادت زوروں سے دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ فیصلہ ان کے خلاف آیا تو بھونچال آجائے گا۔ کچھ لیگی زعما کھل کے تو نہیں پر دبے لفظوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ لیگی ہجوم سڑکوں پر آ نکلیںگے ۔ یہ سب ہواکی باتیں ہیں۔ نون لیگ برسراقتدار جماعت ہے اور اقتدار میں بہت دبنگ اور نڈر لگتی ہے‘ لیکن موسم بدل جائے جیسا کہ 1993ء میں بدلا تھا جب جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کی چھٹی کرادی‘ یا جب اکتوبر 1999ء کا حادثہ پیش آیا تو نون لیگ کی کیفیت یکسرمختلف ہوتی ہے۔ 1993ء کے بعد نواز شریف نے بینظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف بڑے ٹرین مارچ کیے، بڑی تگ ودو کی، لیکن ان کی حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ منظور وٹو پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اوروہی نون لیگ کے لئے کافی تھے۔ محترمہ کی حکومت 1996ء میں گئی تو صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں گئی۔ جو سازش تب ہوئی اس میں نواز شریف اور شہباز شریف شامل تھے۔ سیدہ عابدہ حسین کے ذریعے انہوں نے اپنی لائن فاروق لغاری تک بنائی‘ لیکن فیصلہ کن قدم تو تب کے صدر صاحب نے ہی اٹھایا۔ اکتوبر 1999ء کے بعد پورے مشرف دور میں نون لیگ کسی ایک موقع پر بھی 100سے زائد کارکن مال روڈ لاہور پر جمع نہ کرسکی۔ اگست 2014ء کے دھرنوں کے دوران ایک موقع پر نون لیگ نے لاہور میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے تمام لاہوری ایم این ایز اور ایم پی ایز کو ذمہ داریاں سونپی گئیں‘ لیکن لاہور پریس کلب کے سامنے 2000 سے زیادہ افراد جمع نہ ہوسکے۔
ترکی میں طیب اردوان کی جب اپنے ملک کی عدلیہ سے مڈبھیڑ ہوئی تو انہوں نے عوامی اجتماعات کا ایک سلسلہ شروع کیا اوران کے مجمعوں میں لاکھو ں افراد شریک ہوتے تھے۔ نون لیگ یہ کچھ یہاں کر سکتی تو کردکھاتی ‘ لیکن سارے پاناما قضیے میں نواز شریف صاحب چھوٹے چھوٹے سرکاری اجتماعات کوہی مخاطب کرسکے۔ شریف خاندان کی گھبراہٹ ( Frustration)کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اپنی طویل سیاسی زندگی میں پہلی بار وہ کسی عدالتی کارروائی پر اثر انداز نہیں ہوسکے۔سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اور موجودہ تین رکنی بینچ ان کی دسترس اور پہنچ سے باہر رہا۔ اور جے آئی ٹی‘ جوکہ درمیانے درجے کے افسران پر مشتمل ہے‘ بھی ان کی پہنچ سے باہر رہی۔ گو کہ ایک بھرپور انداز سے جے آئی ٹی کے خلاف ایک مہم چلائی گئی اسے متنازعہ بنانے کیلئے ۔ نون لیگ کے ہمراہ میڈیا کا بھی ایک گروہ اس مہم میں شریک رہا ۔ مشکلات اورنفسیاتی دباؤ کا تو سامنا جے آئی ٹی کو کرنا پڑا مگر وہ اپنا کام کرتی رہی اور جوں جوں صاحبزادگان کی پیشیاں ہوئیں اور پھر بیٹی صاحبہ کو بھی پیش ہونا پڑا، نواز شریف قیادت کی پریشانیاں آسمان کوچھونے لگیں۔ مریم نواز کی پیشی کے موقع پر نون لیگ کے دوستانہ میڈیانے بھرپور کوشش کی کہ ان کو ایک ہیرو کے طورپر اور آنے والے وقتوں کا سیاسی لیڈر بنا کر پیش کیا جائے۔ باہر آتے ہوئے مریم صفدر کی بھی کوشش تھی کہ اصل مسئلے کو Side-Trackکیاجائے۔ وہی بات دہرائی کہ ہم نے کون سی کرپشن کی ہے۔ پُراعتماد وہ ضرور دکھائی دیں لیکن اگر ثنا بچہ والا انٹرویو ذہن میںرہے تو ان کے اعتماد پر کسی کوکوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ اس انٹرویو میں جب ان سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا گیا تو کمال اعتماد کے ساتھ انہوں نے یہ نہ بھولنے والے جملے ادا کیے کہ باہر تو کیا میری پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔ 
عمران خان کا تبصرہ ٹھیک ہی لگتاہے قوم کو ڈرامے نہیں جواب چاہئیں۔ اور صحیح جواب دینے سے لیگی قیادت قاصر رہی ہے ۔ 
پرسوں آخری فیصلہ نہیں ہونے جارہا۔ وہ تو اعلیٰ عدالت نے کرنا ہے لیکن بہت کچھ ابھی سے نظر آرہاہے۔یہ حکومت مفلو ج ہوکے رہ گئی ہے۔ فیصلہ کرنے کی صلاحیت اس میں نہیں رہی۔ یہ ملک کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات میں اسے ایک صاف، سکینڈل سے پاک اور مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ جو ہو ملک کے لئے بہتر ہو ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved