جولائی2016ء سے کشمیر میں جاری تحریک ہندوستان کی رجعتی ریاست اور دنیا کی دوسری بڑی فوج کے جبر کے خلاف سر عام بغاوت ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کشمیر کی جدوجہد کو مذہبی رنگ میں پیش کرتا تھا لیکن موجودہ تحریک نے اسے غلط ثابت کر دیا ہے۔ طلبا، نوجوانوں اور اس تحریک کی ہراول خواتین کے لیے 'آزادی‘ کہیں بڑے معنی رکھتی ہے۔ یہ جدوجہد کشمیر کے محکوم عوام کی قومی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حوالوں سے نجات پانے کی آرزو اور عزم ہے۔
بھارتی آرمی کے ہر جبر اور ہر فائرنگ کے بعد مظاہروں کا ایک نیا اور پہلے سے زیادہ پر زور سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ عام لوگوں کی جانب سے اس پیمانے پر جدوجہد کی حمایت اور متحرک کارکنان کو پناہ دینے کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ مسلح بغاوت میں بیرونی طاقتوں کی مدد کبھی بھی مقامی آبادی کی حمایت جتنی موثر اور اہم نہیں ہو سکتی۔ دہلی کی ہندتوا سرکار اور فوج کے حکام بغاوت کی اس نئی لہر کی شدت سے حیران و پریشان ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے ایک تازہ مضمون ''ڈوبتی ہوئی وادی‘‘ میں بھارتی قیادت مایوسی کو یوں بیان کیا گیا ہے ''کشمیر میں ہندوستان کی پالیسی ہر طرح سے ناکام ہو چکی ہے... ایسا لگتا ہے کہ ایک شدید اور پر تشدد تنازعہ تشویشناک صورتحال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسزکے پاس موت بانٹنے کے سوا امن و امان بحال کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔ ہندوستانی نیشنل ازم کی دلچسپی حقیقی مسائل کے حل سے زیادہ طاقت کی نمائش میں ہے۔ انسانی زندگی کی جانب ایک سفاکانہ بے پروائی ہے اور مسلح جنگجوئی بڑھ رہی ہے۔ بعض بیرونی طاقتیں ان مسائل سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد، یہاں تک کہ بچے بھی ان کی نظر میں جبر کی گھٹن پر موت کو ترجیح دینے کا اعلان کر رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ طاقت کے ذریعے اس سب کو روکنے کی ہماری پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ ہمارے سیاسی ذرائع کھوکھلے ہیں، اور ریاست میں موت کی خواہش گہری ہوتی جا رہی ہے۔ کشمیر ایک اندھی کھائی میں دیکھ رہا ہے‘‘۔
اس تحریک سے بھارت نواز سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے۔ پی ڈی پی سے لے کر نیشنل کانفرنس تک تمام روایتی سیاسی پارٹیوں کی ساکھ مجروح ہو چکی ہے اور دہلی سرکار کشمیریوں کو مطیع رکھنے کے لیے اب انہیں مزید استعمال نہیں کر سکتی۔ مذاکرات کے ذریعے حل کا آپشن ختم ہوتا محسوس ہوتا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ ہندوستانی قبضے کے باوجود کشمیر کے عوام ہندوستان سے بیزار ہو چکے ہیں ۔
کشمیر میں جاری بغاوت اور تحریک جیسی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ روز مرہ کے ریاستی معمولات مفلوج ہو چکے ہیں۔ یہ نئی دہلی کی اس بغاوت کے خلاف حکمت عملی کی ناکامی اور جدوجہد کی کامیابی کو ظاہر کرتی ہے۔ کشمیر کے لوگ اب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں کے سوا کھونے کو کچھ نہیں۔ ریاست کا ظالمانہ جبر عوام کو دبانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ہندوستان کی حکمران اشرافیہ کبھی اتنی خوفزدہ نہیں ہوئی جتنا وہ اس مقامی بغاوت سے ڈری ہوئی ہے۔ 'دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘ کے ظلم اور جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونیوالے ان سنگ بار لڑکوں اور لڑکیوں کے سامنے ہندوستانی فوج اور بورژوازی طاقت بے بس نظر آ رہی ہے۔
ماضی میں کنٹرول لائن کے پار سے دہشتگردی کو جواز بناکر عوام کو کچلا جاتا تھا۔ ہندوستانی ریاست غیر ملکی حمایت یافتہ دہشت گرد گروپوں کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی تحریکوں کو کچل دیا کرتی تھی‘ لیکن اس مرتبہ اس تحریک کی شدت نے اس ہتھکنڈے کو ناکام بنا دیا ہے۔ آخری تجزیے میں انفرادی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد جابر بورژوا ریاست کے لیے ہتھیار بن جاتے ہیں جن کو استعمال کرتے ہوئے وہ عوام کو تقسیم کرنے اور تحریکوں کو بہیمانہ طریقے سے کچلتی ہے۔ کئی دہائیوں سے ہندوستانی ریاست خود بنیاد پرستوں کی پشت پناہی کرتی آ رہی ہے۔ انٹیلی جنس بیورو اور را کے سابق سربراہ ایس اے ایس دولت نے اپنی کتاب میں خود اس امر کا اعتراف کیا ہے۔ اکثر ان فرقہ وارانہ گروہوں کے ذریعے حقیقی قومی اور طبقاتی سیاسی کارکنان کو ختم کرنیکا کام لیا جاتا ہے۔ حالیہ تحریک کے دوران ہندوستانی ریاست اور اسکی ایجنسیوں نے انتہائی بہیمانہ ،انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے‘ اور ہندوستانی پراکسیوں پر میڈیا خاموش ہے۔ ہندوستانی جمہوریت میں 'آزادیٔ صحافت‘ بھی بے نقاب ہو چکی ہے اور کارپوریٹ میڈیا حکمران طبقے کے مختلف حصوں سے بھرپور وفاداری نبھا رہا ہے۔ دوسری جانب بی جے پی سے قریبی مراسم رکھنے والی ہندو بنیاد پرست تنظیمیں ہندوستان بھر میں زیر تعلیم کشمیری طلبا پر حملوں میں ملوث ہیں۔
کشمیر کی سر زمین پر کئی قوموں، مذہبوں اور ثقافتوں کے لوگ آباد ہیں۔ وادی، لداخ، جموں کے علاقے اور لائن آف کنٹرول کے پار مختلف نسل اور شناخت رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ وادی اور جموں میں حکمران طبقات ماضی میں مذہبی منافرت کو ہوا دے کر کشمیری عوام کو تقسیم کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔گزشتہ ستر برسوں میں کشمیر کی آزادی کی تحریک سے یہی سبق ملتا ہے کہ اس جدوجہد کا انقلابی پیمانے پر طبقاتی جڑت کا حصہ بننا ضروری ہے۔ کشمیر کے بالادست سیاسی طبقات کشمیر کے عوام پرجاری جبر میں شریک جرم ہیں۔ لینن نے کہا تھا کہ ''حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کا مطلب علیحدگی کے خلاف پروپیگنڈا یا ایجی ٹیشن یا بورژوا قو م پرستی کو بے نقاب کرنے سے دستبردار ہونا نہیں ہے۔‘‘ اقوام متحدہ اور سامراجی کنٹرول میں دوسرے عالمی سفارتی ادارے کشمیر کے درد کو دور کرنے کے لیے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے۔ جن سامراجیوں نے اس مسئلے کو پیداکرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، ان سے اس کے حل میں مدد کی امید رکھنا سادگی سے زیادہ حماقت ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر ہونے والی چھوٹی بڑی کئی جنگوں سے یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہو چکا ہے اور عام کشمیریوں کی زندگیاں مزید اذیت ناک ہو چکی ہیں۔ لائن آ ف کنٹرول پر مسلسل کشیدگی اور گولہ باری سے جانی اور مالی نقصان دونوں طرف بسنے والے غریب اور محکوم کشمیریوں کا ہی ہوتا ہے ۔ تمام راستے بند ہیں لیکن اس جبر اور قبضے سے نکلنے کے لیے انقلاب کی راہ کھلی ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے کشمیر کی جغرافیائی اکائیوں میں نوجوانوں اور محنت کشوں کی جڑت بہت اہم ہے۔ لیکن اس طبقاتی جڑت کو محنت کش طبقات کے ساتھ منسلک کرنا بھی ضروری۔ یہی برصغیر‘ جنوبی ایشیا میں سوشلسٹ تبدیلی کا راستہ ہے۔