تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     09-07-2017

پاک امریکہ تعلقات: ایک حقیقت پسندانہ جائزہ

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا‘ اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا نئی دہلی کی طرف جھکائو واضح نظر آیا۔ اس کے مقابلے میں اسلام آباد سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک (امریکہ کی مراد بھارت اور افغانستان ہوتے ہیں) کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لئے استعمال نہ ہونے دے‘ بلکہ 2008میں ممبئی اور چند ماہ قبل پٹھان کوٹ حملوں میں مبینہ طور پر ملوث دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے۔ پاکستان کے لئے سخت لہجہ اور بھارت کے لئے نرم گوشے کی طرف جب اخباری نمائندوں نے وائٹ ہائوس کے ترجمان کی توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اپنی جگہ اور پاکستان کے ساتھ اپنی جگہ۔ امریکہ کے لئے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات اہم ہیں‘ لیکن ان کی نوعیت الگ ہے اور دونوں کے ساتھ تعلقات میرٹ کی بنیاد پر پرکھے جائیں گے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی بنیاد امریکہ کے قومی مفادات ہیں۔ امریکہ چونکہ عالمی طاقت ہے‘ اس لئے اس کے قومی مفادات بھی عالمی نوعیت کے ہیں اور انہی کی روشنی میں امریکہ بھارت ہو یا پاکستان یا کوئی اور ملک‘ سب کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے گا۔ یہ حکمت عملی اس نے اپنے قومی مفادات کی روشنی میں تشکیل دی ہے۔ صدر اوباما کے زمانے میں امریکی خارجہ پالیسی میں ایشیا کے حالات پر خصوصی نظر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ چین کی ابھرتی ہوئی معاشی اور دفاعی طاقت کی طرف سے مشرق بعید ‘ جنوب مشرقی ایشیا اور بحر ہند کے علاقوں میں ایک عرصہ سے قائم امریکی اجارہ داری کو درپیش چیلنجز ہیں۔ ماضی میں امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ اتحاد قائم کرکے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جاتا رہا‘ لیکن گزشتہ ایک آدھ دہائی میں ان خطوں میں
چین کے اثر و رسوخ اور دو طرفہ تعلقات میں اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ امریکہ کو اس کے آگے بند باندھنے کے لئے نئے اتحادی کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ بھارت کی شکل میں اسے نیا اتحادی مل گیاہے کیونکہ سرد جنگ کے خاتمے اور سابق سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد بھارت نے امریکہ کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کر دیں تھیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں امریکہ اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات میں اتنی وسعت اور گہرائی آ چکی ہے کہ اب روس کے بجائے امریکہ بھارت کو اسلحہ اور جنگی ہتھیار بیچنے والا سب سے اہم ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ بھارت میں بی جے پی کے برسر اقتدار آنے‘ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کا گھیرائو کرنے کی حکمت عملی میں بھارت امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ 
دوسری طرف امریکہ پاکستان کے ساتھ بھی اپنے قریبی تعلقات‘ تعاون اور دوستی کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کی وجہ خطے ‘ خصوصاً افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے‘ جس کا ابھی تک امریکہ کو کوئی متبادل نہیں مل سکا‘ بلکہ سی پیک منصوبے کے آغاز اور پاکستان اور بھارت کی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں شمولیت کے بعد جنوبی ایشیا میں امریکہ اپنی موجودگی انتہائی ضروری سمجھتا ہے۔ اس لئے امریکہ کبھی بھی پاکستان کو اپنے ہاتھ سے نکلنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور کسی نہ کسی صورت میں وہ پاکستان کو انگیج (engage) رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس کا ثبوت حال ہی میں امریکی اراکین سینیٹ کے ایک وفد کا دورہ پاکستان ہے۔ اس وفد کی قیادت سینیٹر جان مک کین کر رہے تھے‘ جو سینیٹ کی کمیٹی برائے مسلح افواج کے چیئرمین بھی ہیں۔ سینیٹر مک کین پاکستان کا متعدد بار دورہ کر چکے ہیں اور وہ علاقائی سلامتی‘ افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ پر پاکستان کے موقف کے حامی ہیں۔ اس دفعہ ان کے دورے کا مقصد مودی ٹرمپ مشترکہ اعلامیہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے ردعمل کو ٹھنڈا کرنا تھا اور وہ پاکستان کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ پاکستان کو درپیش اہم مسائل‘ مثلاً کشمیر‘ پر امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اپنے دورے میں سینیٹر مک کین نے وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے باقاعدہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں پر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کیا جا چکا ہے لیکن ایک نکتے پر فریقین متفق نظر نہیں آتے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات اور قریبی تعاون نہ صرف دونوں ملکوں کے مفادمیں ہے بلکہ اس خطے میں امن ‘ سلامتی اور خوش حالی کے لئے بھی انتہائی ضروری ہیں۔ امریکی سینیٹ کا یہ وفد ایک ایسے وقت پر پاکستان آیا‘ جب صدر ٹرمپ کی حکومت افغانستان اور پاکستان کے بارے میں اپنی آئندہ پالیسی اور حکمت عملی کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس سلسلے میں جو خبریں سامنے آئی ہیں وہ پاکستان کے لئے خاصی پریشان کن ہیں مثلاً یہ کہ امریکہ پاکستان کے بارے میں سخت رویہ اختیار کرنا چاہتا ہے کیونکہ ہم نے امریکہ کے پے در پے مطالبات کے باوجود اپنے ہاں بقول امریکہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم نہیں کیں‘ اس لئے نئی امریکی حکومت پاکستان کے خلاف اقدامات پر غور کر رہی ہے‘ جن میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اتحادی کے طور پر دی جانے والی امداد کا روکنا‘ پاکستانی سرحدوں کے اندر امریکی ڈرون حملوں کے ذریعے افغانستان پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا اور 2004ء میں پاکستان کو دئیے گئے نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرناجیسے معاملات شامل ہیں۔ پاکستان نے ان اطلاعات پر اپنے ردعمل کا اظہار کر دیا ہے اور صاف بتا دیا ہے کہ ملک کی سالمیت‘ آزادی اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے والے کسی اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا‘ لیکن افغانستان کی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔اس کے پیش نظر صدر ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان میں مزید چار سے پانچ ہزار امریکی فوجی بھیجنے پر غور کر رہی ہے۔ اگرچہ امریکی قوت میں اضافے سے افغانستان کی گرائونڈ صورت حال میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئے گی؛ تاہم یہ امر یقینی ہے کہ امریکہ افغانستان میں بگڑتے ہوئے حالات کا رخ موڑنے کے لئے ہر قسم کے اقدامات پر تیار ہو گا۔ اس میں سفارتی کوششیں بھی ہو سکتی ہیں اور فوجی قوت میں اضافہ بھی۔ پاکستان کے لئے یہ صورتحال ایک اہم اور نازک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکہ کی جانب سے متواتر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر بقول امریکہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرے‘ بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے باہمی تنازعات بشمول کشمیر‘ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے اور دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے۔ پاکستان نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے کہ وہ پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کافی قربانیاں دے چکا ہے اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی گئی ہے۔ اب حالات ایسے ہیں کہ اس خطے میں صورتحال زیادہ دیر تک جوں کی توں برقرار نہیں رہ سکتی۔ نہ تو دنیا افغانستان میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال سے منہ پھیر سکتی ہے اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر خاموشی رہ سکتی ہے۔ ان محاذوں پر کسی بڑے اور جرات مندانہ اقدام کی ضرورت ہے‘ جس میں پاکستان کا کردار سب سے اہم ہے۔ یہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا تعلق براہ راست پاک امریکہ تعلقات سے ہے ۔ تاہم امریکہ کے لئے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات پر پاکستان خاموشی اختیار نہیں کر سکتا‘ کیونکہ اس کا تعلق اس خطے میں طاقت کے توازن اور پاکستان کے بنیادی مفاد سے ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات امریکہ کے عالمی مفادات کے تابع ہیں اور اگر اس کے عالمی مفادات بھارت کے ساتھ قریبی اور مضبوط تعلقات کا تقاضا کرتے ہیں تو تو امریکہ پاکستان کی خاطر اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا‘ لیکن بین الاقوامی سیاست کی ان پیچیدگیوں کے باوجود ایک سادہ حقیقت نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ امریکہ کو جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر پاکستان سے قریبی تعلقات کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اپنی معیشت اور دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی ضرورت ہے‘ یعنی ملکوں کے درمیان اپنے اپنے مفادات پر مبنی خارجہ پالیسی کے باوجود ایک مشترکہ مقام ہے‘ جہاں کھڑے ہو کر وہ نہ صرف ایک دوسرے کے مفادات کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ خطے کے امن ‘ استحکام اور خوش حالی کے لئے ممد ومعاون بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved