تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-07-2017

ہاکو کا قبیلہ

'ہاکو‘ اس کا نام تھا اور ریگستان میں وہ پھرتا رہتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا بچّہ تھا اور ایک دودھ پلانے والی اس کی ماں۔ وہ سو شہسواروں کے برابر ایک شہسوار تھا۔ قوت، عقل و حکمت اور ایثار سے بھرپور ایک جوان۔ ایسا کہ ہر قبیلہ اسے اپنے اندر جگہ دینے کو بے قرار تھا لیکن ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا: اس کے اپنے قبیلے نے کیوں اسے نکال باہر کیا؟ 
میں نے بھی اس سے یہ بات پوچھی۔ بے نیازی سے وہ ہنس پڑا۔ اپنی ذات کے اندر وہ خود ایک مکمل قبیلہ تھا۔ اس نے کہا: جب سے میں پیدا ہوا، خدا مجھ پہ مہربان ہے۔ جس پہ خدا مہربان ہو، اسے کسی قبیلے کی کیا ضرورت۔ میں سوال کرتا رہا؛ حتیٰ کہ ایک روز اس نے مجھے اپنی کہانی سنا ڈالی۔ اس نے کہا: تین نسلوں پہلے تک، میرا قبیلہ کمزور تھا۔ مرد بہت تھے لیکن جنگ جیتنے والا ایک بھی نہیں۔ پھر میرا دادا پیدا ہوا۔ انتہائی حد تک طاقتور، پھرتیلا اور آخری حد تک بے خوف۔ وہ مرنے کے لیے میدان میں اترتا تھا لیکن سب کو چیر پھاڑ کے رکھ دیتا۔ اس کی قیادت میں کمزور مرد بھی جان لڑانے لگتے۔ صرف ایک شخص کی وجہ سے دوسرے قبیلے ہم سے ڈرنے لگے۔ انہوں نے ہم پر حملہ کرنا چھوڑ دیا۔ خدا نے ہمیں امن سے نواز دیا۔ سب مائیں اور بچّے بے فکری سے سونے لگے۔ دادا کے ہاں اولاد ہوئی تو سب حیران رہ گئے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ میرا باپ پیدائشی جنگجو تھا۔ دادا کے بعد وہ سپہ سالار بنا۔ پھر میں پیدا ہوا تو لوگ میرے باپ کو بھول گئے۔ میں اس قدر طاقتور تھا کہ دن بھر گھوڑا بھگاتا۔ جب شام اترتی تو ریت پر سو رہتا۔ امن کے ساٹھ سال میرے قبیلے کو عطا ہوئے۔ ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ میرا خاندان سپہ سالاروں کا خاندان ہے۔ 
میں پچیس برس کا تھا۔ نیا سال شروع ہوا تو مجھ سمیت قبیلے کے اٹھارہ جوانوں کی شادیاں کر دی گئیں۔ سب سے پہلے میری بیوی حاملہ ہوئی۔ ان دنوں مسرت کے عالم میں، میرے پائوں زمین پر نہ لگتے تھے۔ چوبیس چوبیس گھنٹے میں جانوروں کی پیٹھ پہ گزارتا۔ جب میرا بچّہ پیدا ہوا تو خوشی سے ناچتا ہوا، میں اسے اٹھا کر باہر نکلا۔ میں نے کہا، جشن منائو میرے یارو، جشن منائو۔ پھر میں ٹھٹک گیا۔ ان کے چہرے اترے ہوئے تھے، کچھ تو باقاعدہ ماتم کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ہاکو، اللہ کو یہی منظور تھا، صبر کر! خدا تجھے دوسری اولاد دے گا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا۔ میں نے کہا: خدا نے تو مجھے اولاد دے دی ہے۔ تم جشن کیوں نہیں مناتے؟ انہوں نے کہا: ہاکو، تیرے ہاں بیٹا نہیں ہوا، بیٹی بھی نہیں ہوئی۔ تو نے ہیجڑا جنا ہے۔ بھلا ہیجڑوں کا بھی کوئی جشن مناتا ہے؟ 
میں نے اپنے بچّے کو دیکھا۔ اس قدر خوبصورت چہرا، گول مٹول، دودھ کی طرح سفید ، بڑی بڑی آنکھیں۔ میری آغوش میں وہ ہمک رہا تھا۔ اسے جیسے الہام ہو گیا تھا کہ اس کا باپ سو شہسواروں جیسا ایک شہسوار ہے۔ ننھا صاحب بہادر خوب مزے سے آنکھیں جھپک رہا تھا۔ ہاکو نے کہا کہ اس کی بات تو وہی سمجھ سکتا ہے ، جس نے اولاد جنی ہو۔ ہاکو کو اپنے بچّے پر ٹوٹ کر پیار آ رہا تھا ۔ اس نے کہا : میرے یارو ، یہ ہیجڑا ہو یا کچھ اور ، یہ بہت خوبصورت ہے۔ یہ تمہارے جیسا ایک انسان ہے ۔ میں اس کے دل کی دھڑکن سن سکتا ہوں۔ یہ سفید ہڈیوں سے بنا ہے۔ اس کے اوپر سرخ گوشت ہے اور سب سے اوپر سفید دودھیا جلد۔ اس کی رگوں میں میرا خون دوڑ رہا ہے ۔ تم فکر نہ کرو، میں اسے سو شہسواروں جیسا ایک شہسوار بنائوں گا۔ 
قبیلے والے نہ مانے۔ وہ کہنے لگے کہ اسے ختم کر دے۔ یہ تیری ذلت کا باعث ہو گا اور پورے قبیلے کی۔ اس بات پہ ہاکو تڑپنا شروع ہو گیا۔ اسے یقین ہی نہ آیا کہ وہ اس کے بچّے کو مارنا چاہتے ہیں ۔ وہ تو اسے اس کی گود سے لے کر مارنے جا رہے تھے کہ ہاکو کی سانس بحال ہوئی۔ اپنے بچّے کو اس نے چھین لیا۔ اس نے کہا: بے شرمو! میرا دادا، میرا باپ اور میں خود تمہارے بچّوں کی حفاظت کرتا رہا اور تم میری اولاد کو مارنا چاہتے ہو۔ قبیلے والوں نے کہا کہ یہ بچّہ اس قابل نہیں کہ ہاکو اس کی پرورش کرے۔ 
ہاکو نے ایک بار پھر اپنے بچّے کو دیکھا کہ اس میں کیا خرابی ہے ۔ اس نے دیکھا کہ وہ تو مکمل خوبصورتی کی تصویر تھا ۔ اس نے زیادہ خوبصورت چیز تو ہاکو نے کبھی دیکھی تک نہ تھی ۔ پھر وہ سوچنے لگا کہ میرا بچّہ شاید شہسوار نہ ہی بن سکے ۔ نہ تو وہ مرد ہے اور نہ عورت بلکہ ان کے درمیان ۔ پھر کیا کیا جائے؟ اتنے میں ننھا مہمان رونے لگا۔ ہاکو کو ایسا لگا کہ جیسے اس نے ہاکو کی سوچ پڑھ لی ہے۔ روتے ہوئے اس کے ہونٹ مڑ گئے تھے ۔ وہ اور زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔ آواز ایسی جیسے روتا نہ ہو بلکہ نغمہ زن۔ ہاکو نے سر جھٹکا۔ اس نے سوچا : بہت مال اسباب میں نے اکٹھا کر لیا ہے اور پھر سب سے بہتر وارث تو خدا ہی ہے۔ اسے اپنا بچّہ بے حد خوبصورت لگ رہا تھا اور بڑے دہن والے قبائلی دوستوں کے منہ پر جیسے پھٹکار برس رہی تھی۔ ان کا یہ روپ اس نے پہلی دفعہ دیکھا تھا ۔ 
قبیلے والے بضد تھے ۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اندر ہی اندر لاوا ابل رہا تھا اور یہ آتش فشاں بس اب پھٹنے ہی والا تھا۔ ہاکو نے تلوار نکالی اور ان کی طرف بڑھا۔ تب انہیں صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ گرتے پڑتے، وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔ ہاکو نے اپنا مال اسباب باندھا۔ پھر اپنے اونٹ اور گھوڑے لے کر وہ وہاں سے چل پڑا۔ اس نے کہا: قبیلے نے مجھے نہیں نکالا، میں نے اسے اپنے اندر سے نکال باہر کیا ۔ اتنے میں اس کا بچّہ چار ٹانگوں پر چلتا ہوا آیا۔ پھر وہ اپنے باپ کی داڑھی سے کھیلنے لگا۔ میں نے دیکھا ، خوشی سے ہاکو بے حال ہو رہا تھا ۔ 
میں نے کہا: ہاکو تو نے اچھا کیا کہ اپنے بچّے کو وہاں سے لے آیا ۔ لگتا ایسا ہے کہ ہیجڑا یہ نہیں بلکہ تیرے قبیلے والے ہیجڑے تھے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved