کہانی آپ اُلجھی نہیں‘ اُلجھائی گئی ہے‘ مگر اب فیصلہ ہوا جاتا ہے۔ ؎
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
ہم اور کتنی دیر‘ تم اور کتنی دیر
بازار جانا مشکل ہے‘ سیرگاہ میں دشواری پیش آتی ہے‘ حتیٰ کہ لاہور کی آباد محفلوں میں بھی‘ اللہ انہیں آباد رکھے۔ قرار اگر کچھ ہے تو خلوت میں۔ ؎
دیارِ شب کی مسافت نے کیا دیا ہم کو
ہوائے شام ہمیں اب گھروں میں رہنے دے
فیض احمد فیضــؔ والا یہ معاملہ نہیں‘ گھر رہیے تو ویرانی دل کھانے کو آوے/ رہ چلئے تو ہر موڑ پہ غوغائے سگاں ہے۔ ہر کہیں مباحثہ ہوتا ہے اور جلد ہی تلخی اس میں گھل جاتی ہے۔
ابھی کچھ دیر پہلے ایک صاحب نے کہا: اقتدار سے محرومی کافی سزا نہیں‘ ان لوگوں کو لٹکا دیکھنا چاہیے۔ عرض کیا: حضور! کوئی آئین ہوتا ہے‘ کوئی قانون‘ کوئی عدالت۔ فیصلے اگر خواہشات پہ ہونے لگیں تو سب ایک دوسرے کو مار ڈالیں۔ مسائل حل کرنا مقصود ہے یا خوئے انتقام کی تسکین؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر ملک نے کیا حاصل کیا؟۔
اس حال میں یہ عبارت لکھی جا رہی ہے کہ عقب سے‘ خواجہ سعد رفیق کا خطاب سنائی دے رہا ہے۔ کم و بیش وہی بات جو بھٹو نے کہی تھی: ہماری بات نہ مانی گئی تو ہمالیہ روئے گا۔ الطاف گوہر نے جس پر لکھا تھا: پہاڑ کبھی نہیں روتے۔ پہاڑ واقعی نہیں روتے۔ کچھ لوگ روئے‘ دو ایک نے خود سوزی کی اور ملک دلدل میں دھنستا چلا گیا‘ تاآنکہ ان کی صاحبزادی کو اقتدار سوپنا پڑا۔ وہ قتل کی گئیں تو اس کے شوہر نامدار کو‘ جس نے ملک کو ویرانہ بنا دیا‘ قومی امنگوں اور آرزوئوں کی شکارگاہ۔
ردّعمل میں میاں محمد نوازشریف لائے گئے۔ افواج نے ان کے سر پہ سایہ کیا اور پیپلزپارٹی کے مخالفین تلواریں سونت کر میدان میں نکلے۔ بہت سوں کا گمان یہ ہے کہ شریف خاندان کو رخصت کردیا جائے تو ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی۔ جی نہیں فقط اس سے نہیں ہوگی۔ کوئی طوفان تو شاید نہ اٹھے ‘ کشمکش لیکن جاری رہے گی۔ تصادم برقرار رہے گا اور آئندہ مہ و سال بھی اسی خود ترسی کی حالت میں گزریں گے۔
ایک سوال کا جواب درکار ہے۔ جو جنرل میاں محمد نوازشریف کو اقتدار میں لائے‘ کیا ان کی اولین ترجیح قوم کی تعمیرنو تھی؟ جی نہیں بلکہ اقتدار کا لطف اٹھانے کی بے پایاں اور بے قابو آرزو۔
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
سات برس ہوتے ہیں فیصل آباد کے ایک بڑے میاں نے بتایا: پاکستان دولخت ہوا تو موٹرسائیکل پر سوار ہو کر وہ صوفی برکت علی مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اب کیا ہوگا۔ ان کے جواب سے تسلی نہ ہوئی تو کچھ عرصہ بعد‘ پروفیسر احمد رفیق اختر کو تلاش کیا۔
ان کے الفاظ تو اب یاد نہیں‘ خلاصہ یہ تھا : اللہ پر جس کا ایمان ہو‘ راضی بررضا اسے رہنا چاہیے۔ کیسا ہی طوفان اٹھے‘ کتنی ہی بڑی مصیبت کا سامنا ہو‘ صبروتحمل کے ساتھ جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ گریہ و ماتم سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
سرکارﷺ کا فرمان یہ ہے: جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتا ہے‘ وہیں سے شیطنت آغاز کرتی ہے۔
تجزیہ ہی غلط ہو تو نتیجہ کیسے نکلے۔ افراد یا اقوام‘ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی ترجیح اوّل کیا ہے۔ مخالفین کو پست و پامال کرنے کے آرزومند لوگ ملکوں اور معاشروں کی تعمیر نہیں کیا کرتے۔ جذبات کے مار‘ے اپنی ہی آگ میں جل کے راکھ ہوتے ہیں۔
ہفتے کو ساڑھے گیارہ بجے صبح‘ کپتان کے رفیق کار عون محمد کو فون کیا۔ اس نے بتایا: ہم لوگ نتھیاگلی میں ہیں۔ شفقت محمود‘جہانگیر ترین‘ شاہ محمود اور دوسروں کے ساتھ۔ تیز قدمی کے ساتھ چلتے ہوئے وہ آگے نکل گئے۔ کچھ دیر میں بات ہو سکتی ہے۔ میں بھول گیا اور شام کو یاد آیا۔ پھر سے رابطہ کیا اور پوچھا: ساڑھے گیارہ بجے سیر کا مطلب کیا ہے؟ کپتان نے کہا: اپنے ساتھیوں کو مستعد کرنے کے لیے میں انہیں پہاڑی پر لے گیا۔ میں نے کہا: خان‘ ان میں سے ایک آدھ تو اس قابل ہے کہ پہاڑی پر سے اسے تم دھکا دیتے۔ جواب میں اس نے ایک قہقہہ برسایا۔
جوق در جوق اہل غرض‘ تحریک انصاف میں چلے آتے ہیں۔ خیال تھا کہ اس پر احتجاج کی شاید لہر اٹھے‘ زیادہ نہیں تو چند سو کارکن ضرور مشتعل ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حامیوں کی اکثریت شاد ہے‘ باقی خاموش۔ مقصد اب یہ ہے کہ وزیراعظم سے چھٹکارا پایا جائے اور کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا جائے۔
پرسوں سے نون لیگ نے آسمان سر پہ اٹھا رکھا ہے کہ قطری شہزادے سے جے آئی ٹی نے ملاقات نہ کی تو فیصلہ وہ تسلیم نہیں کریں گے۔ سارا دن لوگ سوال کرتے رہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قطری سے بات کرنے کا وقت بیت گیا۔ یہ نون لیگ کا درد ِسر تھا‘ شہادت دینے پر اپنے گواہ کو آمادہ کرتی۔ جے آئی ٹی نے ان کے ہاں جانے کی پیشکش کردی تھی۔ اس سے زیادہ اور کیا؟ اس کا اصرار ہے کہ اس کے محل میں وہ حاضر ہوں۔ عدالتیں محلات میں نہیں جایا کرتیں۔ جے آئی ٹی‘ عدالت عظمیٰ کی نمائندگی کرتی ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تفتیش کاروں کو نہیں‘ فیصلہ ججوں کو کرنا ہے۔ نون لیگ کے اعتراضات مضحکہ خیز ہیں۔ تصویر چھپی تو غلط ہوا‘ مگر کیا آسمان ٹوٹ پڑا؟ میاں طارق شفیع سے اگر یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ وعدہ معاف گواہ بننا پسند کریں گے تو اس میں غلط کیا ہے؟ بعض سوالات اکسانے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔ اخبار نویس شب وروز یہی کرتے ہیں۔ ملک کے ایک ایک پولیس سٹیشن میں یہی ہوتا ہے بلکہ مارپیٹ اور اذیت رسانی بھی۔ whatsapp پر فون کیا گیا۔ تو؟... اس میں بدنیتی کیسے تلاش کرلی گئی۔ دفتر میں نگرانی آئی ایس آئی کو کیوں سونپی گئی۔ کیا سیکرٹریٹ پولیس کے تھانیدار کے سپرد کی جاتی؟ ایک زمانے میں اس کا تقرر بری امام کے مجاور کی سفارش پرکیا جاتا۔ معلوم نہیں اب کون کرتا ہے۔ ایک الزام یہ ہے کہ عدالت کے لیے مرتب کی جانے والی رپورٹ ارکان نہیں کوئی اور لکھتا ہے۔ انہیں تو اس کے مطالعے کی اجازت بھی نہیں۔ سبحان اللہ‘ ایک طرف ان سے خودسری کا شکوہ ہے بلکہ یہ کہ وہ ملزموں اور گواہوں کے فون ٹیپ کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ ایسے بے بس ہیں کہ یرغمالی۔ کیا کہنے‘ کیا کہنے!
ان خبروں کا ذریعہ کیا ہے؟ وہ ایک خاص گروپ کے ذریعے ہی کیوں منکشف ہوتی ہیں۔ باقی سارے اخبار نویس کیا ناکارہ ہیں یا تحریک انصاف کے کارندے؟ فردوس عاشق اعوان اور نذر گوندل کی شمولیت پرجن لوگوں نے کپتان کے لتّے لیے‘ ان میں سے ایک آدھ بڑے ٹھاٹ کاخبر نگار ہے۔ ڈنکے کی چوٹ اس نے کہا کہ اخبار نویس نہیں‘ یہ لوگ ایک فریق بن گئے ہیں۔ یہ انکشافات‘ جس اخبار میں چھپتے ہیں‘ ایک سیاسی پارٹی کی طرح وہ سرگرم ہے۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ دو سرکاری بینکوں نے سالِ گزشتہ تین ارب روپے کے قرضے اسے فراہم کئے۔ شہرت ان صاحب کی یہ ہے کہ قرض وہ کبھی واپس نہیں کرتے۔ نون لیگ کے خلاف دلائل کا ایک انبار ہے۔ سب سے بڑھ کر یہی کہ حکمران کاروبار نہیں کیا کرتے۔ وہ بھی ایسے ملک میں‘ جس نے ''را‘‘ کے ایجنٹ کو پناہ دی اور اس کی مدد کرتا رہا ۔جس کی خفیہ ایجنسی کا منصوبہ یہ تھا کہ گوادر سے کراچی تک کی پٹی کاٹ کر‘ الگ ملک بنا دیا جائے۔ بے نظیر کے قتل پر جس کے مقامی ایجنٹوں نے پیپلزپارٹی کے ناراض کارکنوں کو مشتعل کیا کہ سرکاری عمارتیں جلا ڈالیں۔
کہانی آپ اُلجھی نہیں‘ اُلجھائی گئی ہے‘ مگر اب فیصلہ ہوا جاتا ہے۔ ؎
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
ہم اور کتنی دیر‘ تم اور کتنی دیر